آ نریبل منسٹر فار سکول ایجوکیشن پنجاب، ’انصاف اکیڈمی‘ بنانے پرجتنا بڑا مجھے اس کے نام پر اعتراض ہے اتنا ہی بڑا اعتراض ہی اس پر ہے کہ ہم اکیڈیمیاں بنانے کی بجائے اپنے سرکاری سکولوں کی حالت کو بہتر کیوں نہیں بناتے۔ آپ نے ’ای لرن‘ کے بعد خواہ مخواہ فنڈز ضائع کئے کہ جن بچوں کے پاس انٹرنیٹ موجود ہے وہ میٹرک اور انٹر میڈیٹ کے انہی سائنسی اور غیر سائنسی موضوعات پر ہزاروں کی تعداد میں اساتذہ کے لیکچررز تک پہلے ہی رسائی رکھتے ہیں سو ہمارا اصل مقصد ان اسی، پچاسی فیصد طلبا و طالبات تک معیاری تعلیم پہنچانا ہو نا چاہئے جو صرف سکول جاتے ہیں اور استاد سے سبق سمجھتے ہیں۔ ہمارے چھوٹے شہروں میں اب بھی نوے فیصد گھرانوں میں صرف باپ یا کمانے والے بھائی وغیرہ کے پاس سمارٹ فون ہے اور وہ سٹوڈنٹ بچے یا بچی کو اس وقت ملتا ہے جب وہ رات کو گھر آتے ہیں سو انہوں نے تو استاد سے ہی پڑھنا، سیکھنا اور سمجھنا ہے مگر اساتذہ کی صورتحال یہ ہے کہ آپ کے دور میں (مجھے لفظ استعمال کر نے دیجئے کہ) مجرمانہ طور پر اساتذہ کی خالی آسامیوں پر بھرتی نہیں کی گئی۔ اس وقت پنجاب کی تاریخ میں اساتذہ کی ریکارڈ ایک لاکھ چار ہزارآسامیاں خالی ہوچکی ہیں اور آپ بے روزگاری پھیلانے میں محکمہ صحت سے بھی آگے ہیں۔ آپ ای ایجوکیشن کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں اورمیں آپ کو دیکھ کر بنیادی تعلیمی ڈھانچے پر آپ کی نااہلی کا ماتم کر رہا ہوں۔ ماہرین کہتے ہیں کہ ان چار، پانچ برسوں میں آبادی بڑھنے کے بعد مزید پچاس ہزار آسامیوں کی ضرورت پیدا ہو گئی ہے لہٰذا اصل میں یہ کمی ڈیڑھ لاکھ اساتذہ کی ہے۔ کامن سینس کی بات ہے کہ جب سکولوں میں اساتذہ ہی نہیں ہوں گے تو پڑھائے گا کون اور آپ آن لائن انصاف اکیڈمی پر توجہ دے رہے ہیں جو ایک سیاسی ہتھیار کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ اب دلچسپ امر یہ ہے کہ اساتذہ کو آپ کے دور میں بھی ایسی ایسی ڈیوٹیوں پر لگا دیا جاتا ہے کہ عقل حیران رہ جاتی ہے۔ گندم کی خریداری سے خانہ شماری تک ہی اساتذہ نے نہیں کرنی بلکہ ان تمام سکولوں میں بھی اساتذہ نے ہی ڈینگی کی روک تھام سے باتھ روم کی صفائی تک کی تصویریں بنا کے ہر روز اپ لوڈ کرنی ہیں۔ اب پہلے ایک استاد گندے باتھ روم کی فوٹو بناتا ہے پھر اسے صاف کرتا یا کرواتا ہے اورپھر اس کی دوبارہ فوٹو بنا کے اپ لوڈ کرتا ہے۔ آپ نے بہت ساری ایپس بنا دی ہیں، اچھی بات ہے مگر ہر سکول میں کمپیوٹر ٹیچرز سٹوڈنٹس کو پڑھانے کی بجائے دن بھر ڈیٹا ہی اکٹھا اورشیئر کرتے رہتے ہیں۔
آنریبل منسٹر فارسکول ایجوکیشن پنجاب، میں آپ کو اعداد و شمار دیتا ہوں اور یہ اعداد وشمار میں نے آپ کی سرکاری ویب سائٹس سے ہی لیے ہیں۔ یکم ستمبر کا مانیٹرنگ ونگ کا موسٹ امپورٹنٹ لیٹر منگوا لیجئے۔ پنجاب بھر میں تین سو کے قریب سکول ایسے ہیں جنہیں خود آپ کا محکمہ ’نو ٹیچر‘ سکول کہہ رہا ہے۔ اس میں ٹوبہ ٹیک سنگھ کے پینسٹھ، ڈیرہ غازی خان کے بتیس، بہاولنگر کے پچیس، رحیم یار خان کے اٹھارہ، اوکاڑہ ہی نہیں بلکہ عمران خان کے شہر میانوالی کے بھی گیارہ، ملتان کے نو، سیالکوٹ کے سات کے بعدبہت سارے اضلاع کے پانچ، چھ سکول بھی شامل ہیں۔ آپ کی ناک کے نیچے لاہور میں بھی دوسکول ایسے ہیں جہاں کوئی ٹیچر نہیں ہے۔ یہ بھی آپ ہی دور کی نااہلی ہے کہ چودہ ہزار سیکنڈری سکول ایجوکیٹرز کی مستقلی نہیں ہوسکی اور سولہ ہزار نئی آسامیاں نہیں آسکیں۔ کلاس فور کی گیارہ ہزار بھرتیاں منظور نہیں کی گئیں لہٰذا اب سکول ٹیچر خود ہی صفائی کرتا ہے اور خود ہی پڑھاتا ہے۔ بات نوٹیچر سکول کے بعدا گر سنگل ٹیچر اور دو ٹیچرز والے پرائمری سکولوں پر چلی جائے تو یہ بھی سینکڑوں کی تعداد میں ہیں۔ حضور،آپ خود ہی بتائیے کہ ایک یا دو اساتذہ چھ کلاسز کے چار، چار مضمون کیسے پڑھا سکتے ہیں، یہ کام کوئی مرادراس ہی کر سکتا ہے جس نے محض سٹیج پر کھڑے ہو کے سرکاری تنخواہ داروں کے سامنے لمبی لمبی چھوڑنی ہوں اور اس کے بعد کسی سوال کا جواب دینے کی بجائے سیلفیاں بنانے میں لگ جانا ہو۔
آنریبل منسٹر فار سکول ایجوکیشن پنجاب، میں میٹرک رزلٹ کے ٹیکرز دیکھ رہا تھا جس کے مطابق سرکاری سکولوں کے طلبا رزلٹ 66.44 فیصد جبکہ پرائیویٹ سکولوں کا 86.94 فیصد رہا۔ میں نے بہت ساروں سے پوچھا کہ سرکاری سکولوں کی عمارتیں اور تنخواہیں بہتر ہونے کے باوجود وہاں کا نتیجہ خراب کیوں ہے تو اوپر بیان کی ہوئی بہت ساری وجوہات کے ساتھ ساتھ اور بھی بہت کچھ سننے کو ملا۔ آپ کے بارے مشہور ہے کہ آپ ٹوئیٹر کے وزیر ہیں اور عملی طور پر نہ کسی کو دستیاب ہوتے ہیں اور نہ ہی مسائل حل کرتے ہیں۔ ایک اور اہم بات میں آپ کے نوٹس میں لاوں کہ لاہور بورڈ میں لڑکوں کی کامیابی کا تناسب 57 فیصد جبکہ لڑکیوں کی کامیابی کا تناسب 75 فیصد کے قریب رہا، یہ صورتحال الارمنگ ہے اور مسلسل بگڑتی جار ہی ہے، کیا آپ نے اس پر کوئی توجہ دی کہ ہم اپنے لڑکوں کی تعلیم اورتربیت پر کنٹرول کیوں کھوتے جا رہے ہیں اور ہمارے لڑکے، سوشل میڈیا پر بھی اتنی بدکلامی کیوں کرتے ہیں خاص طور پرجب وہ خود کو تحریک انصاف سے وابستہ ظاہر کرتے ہیں۔ ہمارے تعلیمی ادارے ڈگریاں تو دے رہے ہیں مگر ان کی کردارسازی نہیں کر رہے، انہیں اخلاقیات نہیں سکھا رہے۔
آنریبل منسٹر فار سکول ایجوکیشن پنجاب، اخلاقیات سے وہ پیراگراف یاد آ گیا جس سے میں نے کالم کا آغاز کیا تھا کہ میں نے آپ کے لوگوں کی بار بار دعوت پر تقریب میں شرکت کی مگر مجھے افسوس ہے کہ میرے وہاں پہنچنے پر نہ کوئی رہنمائی کرنے والا تھا اور نہ ہی کوئی بیٹھنے تک کے لئے کرسی دینے والا۔ میں آپ کے سامنے دروازے کے ساتھ لگاکھڑا رہا اور مجھے میرے نوجوان صحافیوں نے مہربانی کر کے نشست فراہم کی ورنہ مجھے پوری تقریب میں ہی کھڑے رہنا پڑتا۔ تقریب کے بعد آپ خواتین کے جھرمٹ میں کھڑے تھے اور میں آپ کے سامنے کتنی ہی دیر کھڑا رہا مگر آپ نے ہاتھ تک ملانا مناسب نہیں سمجھا اور لڑکیوں کے ساتھ سیلفیاں بنواتے رہے جس کی میں نے بھی تصویر بنا لی۔ میں نے انتہائی ادب کے ساتھ عرض کرنا ہے کہ مجھ سمیت بہت سارے صحافی کھانا کھانے نہیں جاتے سو آپ نے کسی کواپنی تقریب میں شرکت دعوت دی ہو تو اس سے ہاتھ بھی ملا لیا کیجئے اور کسی سوال کا جواب بھی دے دیا کیجئے ورنہ کوئی آپ کا مزارع نہیں کہ آپ کے ملازموں کے کہنے پر تمام مصروفیات چھوڑ کے اپنے گھر سے کئی کلومیٹر دور آپ کی تقریب میں آپ کے جھوٹوں کی ترویج اور آپ کی مدح سرائی کے لیے پہنچ جائے۔ محکمہ سکول ایجوکیشن کی ذمہ داری ہے کہ وہ نوجوانوں کے ساتھ اپنے عملے اور وزیر صاحب کی اخلاقی تربیت کے لئے کوئی کورس مرتب کرے، کچھ ورکشاپس کرے۔
Prev Post
تبصرے بند ہیں.