پاکستانی ووٹرز ”دی نیکلس“ کے کردار

35

انیسویں صدی کے فرانسیسی ادیب ”موپساں“ کا اب تک کوئی ثانی نہیں ہے۔ اُس نے 42 برس کی عمر پائی اور اپنی زندگی کا خاتمہ اپنا گلا خود کاٹنے اور خودکشی کی کوشش میں کیا۔ اُسے نیچر، مایوسی اور کسمپرسی پر شارٹ سٹوری لکھنے والا عالمی ادب کا بے تاج بادشاہ کہا جاسکتا ہے۔ اُس کی ایک شاہکار کہانی ”دی نیکلس“ ہے۔ یہ شارٹ سٹوری پہلی مرتبہ 17 فروری 1884ء کو ایک فرانسیسی اخبار میں شائع ہوئی۔ اس کہانی پر اب تک بے شمار ڈرامے اور فلمیں بن چکی ہیں۔ ”دی نیکلس“ پر لاتعداد تبصرے ہوئے اور نئے نئے نقطہ نظر پیش کئے گئے لیکن مذکورہ شارٹ سٹوری کا موازنہ آج ایک بالکل نئے انداز سے کرتے ہوئے اِسے پاکستانی ووٹروں اور جمہوری حکومتوں سے جوڑتے ہیں۔ یہ ایک نفسیاتی صدمے اور غلط فہمی کے دوزخ کی کہانی ہے۔ آئیے پہلے شارٹ سٹوری دی نیکلس کا مختصر جائزہ لیتے ہیں۔ کہانی کچھ یوں ہے کہ ”مادام میتھل ڈی خیالاتی دنیا میں اپنے آپ کو ہمیشہ امیر طبقے میں شامل کرتی۔ اُس کے خیال میں اُس کا غریب گھرانے میں پیدا ہونا ایک حادثہ تھا جبکہ اُس کا اصل مقام ایلیٹ کلاس تھی۔ اُس کی شادی ایک معمولی کلرک سے ہوئی جو دن رات انتھک محنت کرکے اپنی خواہشوں کی ماری بیوی کی خواہشیں پوری کرتا رہتا لیکن وہ کسی طرح بھی خوش نہ ہوتی۔ ایک مرتبہ کلرک شوہر نے لاکھوں جتن کے بعد وزارتِ تعلیم کی ایک وی آئی پی تقریب کے لئے اپنے اور بیوی کے لئے دو پاس حاصل کئے۔ اُس کا خیال تھا کہ اس تقریب میں شامل ہوکر وہ بہت خوش ہوگی۔ جب اُس نے تقریب کے پاس اپنی بیوی کو دیئے تو وہ برا سا منہ بناکر بولی کہ میرے پاس اس تقریب کے شایان شان کپڑے نہیں ہیں۔ کلرک شوہر نے بیوی کی الماری سے کئی نئے اور قیمتی جوڑے نکال کر اس کے سامنے رکھے لیکن بیوی تھی کہ مانتی ہی نہ تھی۔ آخرکار شوہر نے اپنی شکاری رائفل کے لئے جمع کی ہوئی برسوں کی پونجی چارسو فرانکس بیوی کو دے دیئے جس سے وہ اپنی مرضی کے ملبوسات لے آئی۔ اب اس کی نئی فرمائش یہ تھی کہ ان کپڑوں کے ساتھ پہننے کے لئے اس کے پاس قیمتی زیورات نہیں ہیں۔ کلرک شوہر نے بہت سمجھایا اور دلیلیں دیں کہ ”تمہارے پاس پہلے سے موجود زیورات ان کپڑوں کے ساتھ بہت جچیں گے“ یا یہ کہ ”تازہ پھولوں کے زیورات پہن کر بھی تم ان کپڑوں کے ساتھ محفل کی شہزادی لگو گی“ لیکن بیوی نے کلرک شوہر کی سب دلیلیں مسترد کردیں۔ تنگ آکر کلرک شوہر نے کہا کہ اب تو ہمارے پاس پھوٹی کوڑی بھی نہیں ہے۔ اس لئے اگر تم اپنی امیر دوست مادام جین فوریسٹیئر سے ایک رات کے لئے اُس کے زیورات مانگ لوتو تمہارا مسئلہ حل ہو جائے گا۔ بیوی کو یہ تجویز پسند آئی اور اس نے مادام جین کے گھر جاکر ایک رات کے لئے جیولری کی فرمائش کی۔ مادام جین نے اپنا جیولری باکس اس کے سامنے رکھا۔ بیوی نے اس جیولری باکس سے ہیروں کا نیکلس لے لیا۔ تقریب میں نئے ملبوسات اور ہیروں کے نیکلس کے ساتھ وہ واقعی محفل کی ملکہ لگ رہی تھی۔ رات گئے جب تقریب ختم ہوئی اور وہ اپنے کلرک شوہر کے ساتھ گھر واپس آئی تو اسے اچانک محسوس ہوا کہ وہ نیکلس اس کے گلے میں نہیں ہے۔ بیوی اور کلرک شوہر بدحواس ہوکر اندھیرے میں چپہ چپہ چھانتے ہوئے واپس تقریب کی جگہ تک گئے لیکن نیکلس کو نہ ملنا تھا، نہ ملا۔ بیوی نے کلرک شوہر کو کہا کہ وہ صبح مارکیٹ سے گمشدہ نیکلس جیسے نیکلس کی قیمت پتہ کرے اور کسی طرح بھی اسے خرید لائے کیونکہ وہ بغیر نیکلس کے مادام جین کا سامنا نہیں کرسکے گی۔ اگلے روز کلرک شوہر نے مارکیٹ سے ہیروں کے بالکل ویسے ہی نیکلس کی قیمت پتہ کی تو دونوں کے ہوش اڑ گئے۔ نیکلس کی قیمت چالیس ہزار فرانکس تھی۔ انہوں نے انتہائی زیادہ شرح سود کے ساتھ رقم ادھار لے کر نیکلس خریدا اور مادام جین کو لوٹا دیا۔ دونوں نے ادھار واپس کرنے کے لئے پہلے سے بھی زیادہ محنت مزدوری کرکے، کم کھانا کھاکر اور پرانے کپڑے پہن کر رقم بچانا شروع کی۔ اس منصوبے پر عمل کرتے ہوئے انہوں نے زندگی کی سب لذتیں اپنے اوپر حرام کرلیں اور سود پر حاصل کی گئی رقم واپس کرنے کے لئے دس برس تک انتہائی محنت مشقت کی۔ اس عرصے میں بے حد مشقت کے باعث وہ بیمار اور لاغر ہوگئے۔ دس برس کے بعد ایک روز انہیں مادام جین اچانک راستے میں مل گئی۔ مادام جین ان کی حالت دیکھ کر بے حد پریشان ہوئی۔ اس نے ان کے جوان چہروں پر پڑی جھریوں کا سبب پوچھا۔ جب بیوی نے ساری کہانی سنائی تو مادام جین سناٹے میں آگئی اور بولی کہ ”میرا ہیروں کا وہ نیکلس جوتم سے گم گیا نقلی ہیروں کا تھا اور اس کی کل قیمت صرف پانچ سو فرانکس تھی اور میں نے تمہارے واپس کیے ہوئے اصلی ہیروں کے نیکلس پر بھی کبھی غور نہیں کیا“۔ مادام جین کے اس انکشاف سے دونوں میاں بیوی صدیوں کے بوڑھے نظر آنے لگے۔ انہیں اپنی جوان زندگی کے گزارے اُن تکلیف دہ برسوں کا ہرلمحہ دوزخ سے بھی زیادہ تکلیف دینے لگا“۔ کہانی یہاں ختم ہوتی ہے لیکن اس کا پاکستانی ووٹروں اور جمہوری حکومتوں سے اب بالکل نیا موازنہ لکھنا شروع کرتے ہیں۔ پاکستانی ووٹرز گزشتہ 75 برس سے کئی مرتبہ ووٹ کے ذریعے اپنی جمہوری حکومتیں منتخب کرچکے ہیں۔ جب ووٹروں کے ذریعے جمہوری حکومت قائم ہوتی ہے تو اُس وقت اس حکومت میں لاجواب خوبیاں ہوتی ہیں۔ ہرطرف اس کے چرچے ہوتے ہیں۔ ووٹر اپنے انتخاب پر پُرمسرت ہوکر مستقبل سے اچھی امیدیں وابستہ کرلیتے ہیں لیکن کچھ عرصے بعد انہی ووٹروں کو خبر ملتی ہے کہ اُن کی منتخب کردہ جمہوری حکومت جعلی تھی۔ اُس حکومت کی سب چمک دمک نقلی تھی۔ وہ حکومت کھوکھلی اور ناکارہ تھی۔ یہ سب کچھ سننے کے بعد ووٹروں کی نفسیاتی مایوسی کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہوسکتا۔ پاکستانی ووٹرز جنہوں نے 75برس سے اچھی جمہوری حکومتوں کے انتخاب کے لیے انتھک محنت کرکے دن رات ایک کیے مگر ہربار انہیں حکومتوں کے اختتام پر نقلی جمہوری حکومتوں کی خبرکا تازیانہ سہنا پڑا۔ پاکستانی ووٹروں کی مایوسی اور کسمپرسی کہانی ”دی نیکلس“ کے میاں بیوی کی مایوسی اور کسمپرسی کے دکھ سے کچھ نہ کچھ ضرور ملتی ہے جو نیکلس کے نقلی ہونے کی خبر سن کر صدیوں کے بوڑھے نظر آنے لگے۔

تبصرے بند ہیں.