ہمارے ایک مرحوم دوست ڈاکٹر ہارون رشید چودھری معروف ماہر نفسیات تھے، اُن کے والدِ محترم ڈاکٹر رشید چودھری کا تعلق بھی اسی شعبے سے تھا۔ وہ عالمی شہرت کے حامل تھے، وہ ہمارے اخوت اور محبت والے بھائی ڈاکٹر امجد ثاقب کے سگے ماموں تھے، ڈاکٹر ہارون رشید نے ایم بی بی ایس کرنے کے بعد مختلف شعبوں میں اسپیشلائزیشن کا سوچا اُن کے والدِ محترم نے اُنہیں مشورہ دیا وہ سائیکاٹری کے شعبے کا انتخاب کریں،ڈاکٹر ہارون رشید چودھری کا خیال تھا یہ شعبہ بہت ہی تھکا ہوا ہے، تب لوگ ذہنی امراض میں بہت کم مبتلا ہوتے تھے، ڈپریشن اور انگزائٹی نامی بیماریوں کا کِسی نے سُنا تک نہیں تھا، مجھے یادہے آج سے بیس پچیس برس قبل کِسی دوست نے مجھ سے کہا ”اسے انگزائٹی ہوگئی ہے“ …… مجھے لگا جیسے وہ کہہ رہا ہے ”اُسے ٹی بی ہوگئی ہے“…… میں نے اُسے حوصلہ دیا، میں نے کہا ”کوئی مسئلہ نہیں، ٹی بی اب ایک قابل علاج مرض ہے“……وہ بولا ”میں ٹی بی نہیں انگزایٹی کہہ رہاہوں“، میں نے اُس سے اِس بیماری کی تفصیل پوچھی، پہلی بار مجھے پتہ چلا یہ بھی کوئی بیماری ہوتی ہے، یہ بیماری اب ایک بڑی بیماری کی صورت میں پاکستان کے گھر گھر میں پھیل چکی ہے۔ ڈاکٹر ہارون رشید چودھری نے شعبہ نفسیات میں اسپیشلائزیشن کرکے اپنے گھر واقع شاہ جمال میں کلینک کھولا، ابتدائی دِ نوں میں وہ سارا دِن مکھیاں مارتے رہتے، نفسیاتی امراض نہ ہونے کے برابرتھے، اُنہیں افسوس ہوتا تھا اپنے والد محترم کا مشورہ مان کر اِس شعبے میں اسپیشلائزیشن اُنہوں نے کیوں کی؟۔ وہ کِسی اور بیماری میں اسپیشلائزیشن کرتے۔ …… آہستہ آہستہ اِس شعبے میں مریضوں کی تعداد بڑھتی چلی گئی، خوف خُداکی کمی، انسانوں کے خوف کی زیادتی، ایمان کی کمزوری، یا دُوری، ملاوٹ شدہ اشیاء کا بے دریغ استعمال، معاشرے میں روز بروز بڑھتے ہوئے ظلم وزیادتی، مختلف اقسام کے خوف، وہم، مختلف معاملات میں احساس محرومی، باہمی محبت کا فقدان، اخلاقی معاملات میں کمزوری، رشتوں کے تقدس کی پامالی، اور اِس نوعیت کی بے شمار بُرائیوں اور تباہیوں نے لوگوں کو آہستہ آہستہ ذہنی امراض میں مبتلا کرنا شروع کردیا، پھر یہ ہوا دوسرے ماہرین امراض کی طرح ماہرین نفسیات کا ”کاروبار“ بھی چمکنا شروع ہوگیا، اُن کے مریضوں یعنی اُن کے ”گاہکوں“ کی تعداد بھی آہستہ آہستہ بڑھنے لگی۔ اب حالت یہ ہے سب سے زیادہ رش ماہرین نفسیات کے کلینکوں یعنی ”دکانوں“ پر ہوتا ہے۔ اُن کی ”دکانیں“ اب باقاعدہ ”فیکٹریوں“ میں بدل چکی ہیں، جِس طرح ملک کے مشہور ماہرین امراض دِل، ماہرین امراض جگر ومعدہ، ماہرین امراض گردہ ومثانہ، ماہرین امراض ہڈی جوڑ، ماہرین امراض اعصاب وپٹھہ، کے پاس چھ چھ ماہ کی اپوائٹمنٹ نہیں ملتی، اُسی طرح اب مشہور ماہرین نفسیات کی چھ چھ ماہ اپوائنٹمنٹ نہیں مِلتی،…… میں عرض یہ کرنا چاہتا ہوں آج سے بیس پچیس برس قبل سائیکاٹری کے شعبے کو کوئی منہ تک نہیں لگاتا تھا اب میڈیکل کے طالب علِم اُس شعبے کو انتہائی اہمیت دینے لگے ہیں، معاشرے میں تیزی سے پھیلنے والی لعنتوں، خصوصاً مہنگائی نے لوگوں کے دماغ یالوگوں کی ذہنی حالت اس قدر برباد کرکے رکھ دی ہے ہرکوئی ایک دوسرے کو کھانے کو دوڑتا ہے، جب انسانوں کے پاس کھانے کو کچھ نہیں ہوگا ظاہر ہے وہ اپنے جیسے انسانوں کو ہی کھانے کودوڑیں گے ناں؟۔ چڑچڑاپن بڑھتا اور پھیلتا جارہا ہے، رویوں سے ہر شخص اب پاگل لگنے لگا ہے، ہر شخص کو ضرورت ہے وہ کِسی ماہرامراض نفسیات سے رابطہ کرے۔خود میں اب دِن میں کئی بار اپنے بارے میں سوچتا ہوں میں کہیں پاگل تو نہیں ہوگیا؟“……کل ایسے ہی بیٹھے بیٹھے میرا اپنے کتے کو کاٹنے کو جی چاہ رہا تھا۔ پھر مجھے اُس پر ترس آگیا، میں نے سوچا ”کوئی کُتاانسان کو کاٹ لے تو اُس کی ویکسین مِل جاتی ہے لیکن کوئی پاکستانی کِسی کتے کو کاٹ لے اُسے بھلا کون بچا سکتا ہے؟……لوگوں کے نفسیاتی امراض اِس قدر بگڑ چکے ہیں ایک صاحب کے بارے میں مجھے پتہ چلا اُنہوں نے بکریاں اور مُرغیاں صرف اِس لیے رکھی ہوئی ہیں اُن کی بیوی اکثر روٹھ کر میکے چلی جاتی ہے …… اِسی طرح ایک وقت تھا، آج سے بیس پچیس برس قبل کوئی مُلک چھوڑ کر باہرنہیں جانا چاہتا تھا، آج ہمارے سیاسی واصلی حکمرانوں نے اِس ملک کواِس قدر برباد کرکے رکھ دیا ہے اُمید کا کوئی ایک چراغ لب روشن دکھائی نہیں دیتا، اچھے دِل ودماغ والے حساس لوگ ایک پل کے لیے اب یہاں نہیں رہنا چاہتے، اِس وقت سب سے زیادہ حسرت لوگوں کے دِلوں میں یہ پل رہی ہے وہ کِسی ایسے ملک میں شفت ہوجائیں جِس کا کم ازکم مستقبل اُنہیں محفوظ دکھائی دے رہا ہوں، سو جس طرح ایک زمانے میں ”ماہرین امراض نفسیات“ ویلے (فارغ) بیٹھے رہتے تھے اُسی طرح ”ٹریول ایکسپرٹس“ یا ”امیگریشن کنسلٹنٹ‘، بھی پاکستان میں فارغ بیٹھے رہتے تھے، اب وہ بھی اتنے مصروف ہوگئے ہیں اُن سے مشاورت کے لیے بھی مہینوں انتظار کرنا پڑتا ہے، …… پاکستان میں خصوصاً گزشتہ پانچ چھ برسوں میں جو تباہی ہوئی، سیاسی واصلی حکمرانوں کی مسلسل نااہلیوں نے پاکستان کومعاشی تباہی کے جس بدترین مقام پر لاکر کھڑے کردیا، اور رہی سہی کسراب سیلابوں نے نکال دی اُس کے نتیجے میں لوگوں کا خوف اِس قدر بڑھتا جارہا ہے آج اگر لوگوں کو پاکستان سے باہر جانے کا کوئی آپشن مِلے، کوئی موقع ہے، سارا پاکستان شاید خالی ہو جائے……جنہوں نے حرام کمائے، جنہوں نے اِس ملک کا خون تک چُوس لیا، اِس کی ہڈیاں تک چباگئے، نوچ نوچ کر اِس کی بوٹیاں کردیں، اُن کے پاس پہلے ہی غیر ملکی شہریتیں ہیں،…… جنہوں نے محنت کی، جنہوں نے حلال کمائے، وہ بھی یہاں سے نکلتے جارہے ہیں۔ پچھلے کچھ عرصے میں میرے جاننے والے بیسیوں لوگ اب تک مستقل طورپر دبئی، ترکی، برطانیہ، امریکہ اور کینیڈاشفٹ ہوچکے ہیں، اِس لیے کہ وہ اب یہ سمجھنے لگے تھے، یا اِس یقین میں مبتلا ہو چکے تھے ایک انتہائی مضبوط کریمنل،کرپٹ اور ظالم سسٹم کا اُنہوں نے تو مقابلہ کرلیا، اُن کے بچے بے چارے، یا اُن کی آنے والی نسل اِس قابل نہیں اِس منہ زورسسٹم کے سامنے کھڑی ہوسکے، چنانچہ لوگ یہاں سے جاتے جارہے ہیں۔ ”حادثے“ سے بڑھ کر ”سانحہ“ یہ ہورہا ہے جو بے چارے نہیں جاسکتے وہ کہاں جائیں؟؟؟
Prev Post
تبصرے بند ہیں.