ہم نے بچپن میں اک بے ہودہ سا لطیفہ سنا تھا:
”ایک مراثی کا گدھا مسجد میں چلا گیا مسلمانوں نے برا منایا اورڈانٹنے کے ساتھ ساتھ مراثی کی دھلائی بھی کر ڈالی۔
”سوری جی …… بے زبان تھا آگیا …… آپ نے مجھے کبھی آتے دیکھا ہے“۔
مراثی نے بھاگتے ہوئے کہا
میں سو رہا تھا کہ مجھے بیٹے نے جگا دیا …… میں نے برا منایا تو وہ …… ”بولا“…… اٹھیں آپ کی مرضی کی بات ہے“……! کیا ہوا…… میں نے غنودی میں تھکتے ہوئے پوچھا
یہ پڑھیں …… سوشل میڈیا پے کیا چل رہا ہے……؟! ”ایک گدھے کے ہاتھوں اکاون لوگوں کی موت“…… میری نیند یہ جا وہ جا……!
افغانستان کے ایک قصبے میں مسجد میں ایک گدھا گھس گیا…… نمازیوں نے غصے میں گدھے پر برسٹ فائر کیے اور گدھا موت کے منہ میں چلا گیا۔
گدھے کا مالک آیا اس نے غصے میں نمازیوں پر گن سے فائر کھول دیا۔ اس نے گدھے کا بدلہ کیا لیا۔ گیارہ نمازیوں کو موت کی نیند سلا دیا بس پھر کیا تھا…… گاؤں اکٹھاہوا اور انہوں نے گدھے کے مالک اور اس کے ارد گرد گھروں پر فائرنگ کی کہ تئیس لوگ مزید لقمہ اجل بن گئے۔ جن میں زیادہ تعداد معصوم خواتین کی ہے جن بے چاریوں کا کوئی قصور نہیں ……! کل ملا کے اک گدھے کے بدلے اکاؤن افراد موت کے منہ میں چلے گئے۔ ”یہ ہوتی ہے آزادی……“ جہاں …… جاہل اتنی بڑی تعداد میں ہوں اور پھر ان کے ہاتھوں میں اسلحہ بھی ہو وہاں وہ آزادی ایسے مناتے ہیں۔
ہمارے ہاں قبائلی علاقوں میں گنڈیریاں بیچنے والے بھی گلے میں برسٹ بھری گن ڈالے گنے سے گنڈیریاں کاٹ رہے ہوتے ہیں ……؟! اس کے علاوہ ہمارے ہاں گدھے بھی عام ہیں اسلحہ بھی عام ہے اور لوگوں کو اپنی مرضی سے زندگی گزارنے کا مشورہ دینے والے بھی عام ہیں اور بڑی تعداد میں موجود ہیں۔
عورتوں کی آزادی کی علمبردار ایک بیوی نے شوہر سے کہا:
”اگر میں آپ کو چار دن نظر نہ آؤں تو آپ کو کیسا لگے گا……؟!
شوہر نے (سینہ تان کے کہا) اچھا لگے گا……!
پھر پیر کو بیوی نظر نہ آئی منگل کو بھی نظر نہ آئی بدھ کو بھی نظر نہ آئی اور جمعرات کو بھی نظر نہ آئی…… آخر کار جمعہ کو آنکھوں کی سوجن کم ہوئی تو پھر تھوڑی تھوڑی دکھائی دی۔
بات شروع ہوئی تھی آزادی سے…… ہمارے ہاں ہر طرح کی آزادی کے باوجود ہمیں ابھی کسی اور طرح کی آزادی کی تلاش ہے۔ عورتوں کی آزادی، کھسروں کی آزادی، تیسری میری ہر طرح کی آزادی کے ہم متلاشی ہیں۔ دنیا میں چھوٹی چھوٹی غلطی کوتاہیوں کے لیے سزائیں موجود ہیں۔ ہمارے یہاں سزائیں قانون میں تو موجود ہیں لیکن عام طور پر ان پر عمل درآمد ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ سڑک پر ریڈ سگنل کراس کرنا ہم بہادری سمجھتے ہیں۔ طاقت اور دوسرے کو الو بنانے کو فن سمجھتے ہیں …… حالانکہ ہمیں ایسی حرکت کر کے شرمندہ ہونا چاہیے۔
اکبر بادشاہ یا ملکہ برطانیہ دو ایسی ہستیاں تھیں جنہیں لوگ طاقت کی علامت سمجھتے تھے۔ ملکہ برطانیہ دنیا سے طویل زندگی گزار کے رخصت ہو رہی ہیں اس ماڈرن دور میں بھی ہم ملکہ کو صحیح معنوں میں ملکہ ہی مانتے ہیں۔ میں نے کل ملکہ برطانیہ کے اختیارات پڑھے ہیں دنگ رہ گیا…… اوپر سے ان کے عوام بھی ان کو ملکہ ہی سمجھتے تھے۔
دوسرا مجھے لگتا ہے کہ جلال الدین اکبر بادشاہ تھا۔ ہر کام بادشاہوں والا، ہر حرکت بادشاہوں والی۔ بادشاہ دربار میں وہ عجیب کام کرتا کہ ہنس ہنس کے پیٹ میں بل پڑ سکتے تھے مگر مجال ہے جو کوئی ہنس پائے یاانجوائے کر سکے حالانکہ وہ خود اس ماحول کو خوب انجوائے کرتا۔ وہ مختلف مذاہب کے لوگوں کواکٹھا کرتا الٹا سیدھا موضوع پیش کرتا اور پھر ہونٹوں پر انگلی رکھ کے بیٹھ جاتا۔ علماء، مفکر عجب الجھن کاشکار ہو جاتے دست و گریبان ہوتے تو وہ شور مچاتا۔ کہا تم سمجھتے وہ اکبر بادشاہ پاگل ہو گیا چونکہ اس دور میں گردن کاٹ ڈالنے کارواج تھا وہ سب یکدم چپ کر جاتے۔ آج کا دور تو انہیں تھا ہمارا سابقہ وزیراعظم آزادی دلوانے نکل پڑاہے۔ جب لوگوں نے ہلکا پھلکا احتجاج کیا کہ ہم تو آزاد ہیں تو اس نے کہا حقیقی آزادی…… شکر ہے عمران خان کو اپنے دور حکومت میں کسی نے اکبر بادشاہ کے اس طرح کے مذہبی اجتماعات کے بارے میں نہیں بتایا ورنہ وہ اپنے پسندیدہ چینلز پر ایسے اجتماعات کراتا اور منصف کے طور پر شہباز گل یا مراد سعید کو بٹھا دیتا اور قوم ہنس ہنس کر پاگل ہو جاتی۔ میری اور مجھ جیسے بہت سے لوگوں کی میاں شہباز شریف سے درخواست ہے کہ ملک بھرمیں ایک حکم کے ذریعے علماء کرام سے کہا جائے کہ وہ اگلے جمعے کے اجتماعات میں ”حقیقی آزادی“ پر روشنی ڈالیں ورنہ عمران خان تو ہر جلسہ میں ”حقیقی آزادی“ کے موجوع پر حسب توفیق اندھیرا ڈال رہے۔حافظ مظفر محسنؔ
جستجو ستاروں کی روشنی میناروں کی
دیکھ تیرتی لاشیں، ہیں یہ کن بیچاروں کی؟
گھر تھے بن گئی قبریں
خیر ہو مزاروں کی؟
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.