تحریک انصاف کا نیا بیانیہ کیا ہو گا؟

31

پوری دنیا کی طرح ہمارا معاشرہ بھی رویوں، تعلقات اور معاملات میں ماڈرن طرز عمل اپنا رہا ہے۔ لیکن اس سارے عمل میں اگر جھوٹ کو یو ٹرن، دھوکا دہی کو سیاست بے حیائی کو فیشن، بے غیرتی کو ماڈرن ازم،سادگی کو جہالت اور ڈھٹائی کو حاضر جوابی قرار دیا جائے گا تو یہ کم از کم مجھ جیسے لوگوں کے لیے کسی بھی صورت قابل قبول نہیں۔
ہماری تقریباً تمام ہی بڑی سیاسی پارٹیوں کے پاس لاکھوں کی تعداد میں جاں نثاران موجود ہیں جو اپنے لیڈرز کی بات پر اندھا دھند اعتماد کرتے ہیں، لیکن مجال ہے کہ ہمارے کسی قومی راہنما نے کبھی اپنے کارکنوں کو بتایا ہو یا سمجھایا ہو کہ وہ قانون پر سختی سے عملدرآمد کریں، دوسروں کے حقوق کا خیال رکھیں، سڑکوں، پارکوں اور بازاروں میں گندگی نہ پھیلائیں، جھوٹ نہ بولیں یااپنی عام گفتگو میں گالی گلوچ سے پرہیز کریں۔
ویسے تو ہمارے ہاں جس قسم کی سیاست رائج ہے اسے بلا خوف تردیدجھوٹ کا دوسرا نام قرار دیا جا سکتا ہے۔ حالات نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ جو جتنا بڑا لیڈر ہونے کا دعویدار ہے اس کے لیے اتنا ہی بڑا جھوٹا ہونا بھی ضروری ہے۔ ویسے تو اے کیٹیگری کے تمام ہی لیڈرز بشمول نوازشریف، شہباز شریف اورمریم نواز ٹکا کے جھوٹ بولنے میں ایک سے بڑھ کر ایک ہیں لیکن آصف زرداری صاحب تو یہ کہتے ہوئے بھی نہیں چوکتے کہ کہی ہوئی بات کوئی آسمانی صحیفہ نہیں ہوتی۔
ان سب سیاسی ر ہنماوں کے جھوٹ اپنی جگہ لیکن جھوٹ کی اس سیاست (جس کو مہذب سیاسی زبان میں یو ٹرن کہتے ہیں) میں پی ٹی آئی کے چیئرمین جناب عمران خان اپنا ہی مقام رکھتے ہیں۔ موصوف کا طریقہ ہے کہ اس قدر سٹائل اور تسلسل کے ساتھ جھوٹ بولا جائے کہ ان کے چاہنے والوں کو وہ سچ ہی محسوس ہونا شروع ہو جائے۔
سچائی، ایمانداری، اصول پسندی اور خود احتسابی جیسے دلفریب نعروں سے سیاست کا آٖغاز کرنے والے عمران خان نے 2018  میں حکومت میں آنے سے پہلے ہی جھوٹ اور پراپیگیڈہ کے اصولوں کو اپنا لیا تھا، پھر حکومت میں آنے کے بعد تو ان کاموں میں خوب نکھار پیدا ہوا اور اس کی نئی نئی جہتیں متعارف ہوئیں لیکن اپنی حکومت کے خلاف ایک مضبوط تحریک عدم اعتمادپیش کیے جانے اور بعد ازاں حکومت کے خاتمہ کو تویہ زیادہ ہی دل پر لے گئے۔
اقتدار سے چمٹے رہنے کی ہر ممکن کوشش کی ناکامی کے بعد تو انہوں نے جھوٹ اور الزامات کا دریا ہی بہا دیا۔ تحریک عدم اعتماد کی منصوبہ بندی کرنے والوں اور اسے کامیابی سے ہمکنار کروانے کی کوشش کرنے والے سیاستدانوں کی شامت توخیر آنی ہی تھی لیکن انہوں نے ہر اس شخص پر بھی الزامات کی بوچھاڑ کر دی جس کو انہوں نے کسی بھی حولہ سے بااثر پایا۔ اگر ماضی کے جھروکوں سے دور تک دیکھیں گے تو بات طوالت کا شکار ہو جائے گی اس لیے صرف انہی باتوں کا ذکر کر لیتے ہیں جو تحریک عدم اعتماد پیش ہونے اور حکومت کی تبدیلی کے بعد کی گئیں۔
سب سے پہلے تو جمہوری طریقے سے قومی اسمبلی میں پیش کی گئی تحریک کو ایک غیر ملکی سازش کا شاخسانہ قرار دیا گیا (اگرچہ دفاعی اداروں اور خفیہ ایجنسیز نے اس بات کی واضح الفاظ میں تردید کی) اور بعد ازاں امریکہ کا براہ راست نام لے لے کر الزامات کی بوچھاڑ کی گئی۔ پھر اپنے سیاسی مخالفین کے ساتھ کسی بھی سطح پر بات چیت کرنے سے انکاری رہے۔
پھر فوج کے نیوٹرل رول اپنانے کے بیانیے کا مذاق اڑاتے ہو ئے کہا گیا کہ نیوٹرل تو جانور ہوتے ہیں، اور اسٹیبلشمنٹ کو تحریک عدم اعتماد کی کامیابی میں سہولت کار قرار دیا گیا۔ اس سب کے ساتھ ساتھ ان سے یہ امید بھی لگائے رکھی گئی کہ وہ اپنا نیوٹرل کردار ترک کر کے ایک مرتبہ پھر سے کھل کر ان کی حمائت کریں۔
مختلف سرکاری افسروں کے علاوہ اعلیٰ اور ماتحت عدلیہ کے کردار پر نہ صرف کڑی تنقید کی گئی بلکہ انہیں سنگین نتائج کی دھمکیاں بھی دی گئیں۔ اور اپنے خلاف درج مقدمات کی تفتیش مکمل کرنے کے لیے کسی بھی قسم کے تعاون کی نفی کرتے رہے اور اس سلسلہ میں قائم کی گئی جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے سے انکاری رہے۔ اور مزے کی بات یہ ہے کہ ان سب اقدامات پر انہوں نے اپنے مداحوں سے خوب واہ واہ بھی سمیٹی۔
پھر اچانک جانے کیا ہوا کہ ہم سب کے ہردل عزیز سیاسی راہنما جناب عمران خان نے 180 ڈگری پر ٹرن لیااور اپنے ترجمانوں، سپورٹرز اور جانثاروں کو حیران و ششدر چھوڑ کر اپنی سیاسی گاڑی مخالف سمت میں بھگانے لگ گئے۔
جس امریکہ کو اپنی حکومت کے خاتمے کا ذمہ دار قرار دے کر صلواتیں سناتے رہے اچانک ہی اس کی سابق سفیر سے خفیہ(اگرچہ وہ خفیہ نہ رہ سکی)ملاقات کی اور اپنے بیانیے کو یکسر تبدیل کرتے ہوئے امریکہ کو اپنا دوست قرار دینا شروع کر دیا اور یہ بیان بھی داغ دیا کہ ہماری امریکہ سے کوئی مخالفت نہیں۔ (یہ الگ بات ہے کہ امریکہ پچھلی باتوں کو درگزر کر کے ان کے نئے بیانیے کو قبول کرتا ہے یا نہیں)۔اپنے مخالف سیاسی راہنماوں پر مستقل طور پر سنگین الزامات لگاتے رہے اور کہتے رہے کہ، ’میں ان کے ساتھ کبھی بھی نہیں بیٹھوں گا‘۔ لیکن آج ان کے ساتھ بات چیت کرنے کے لیے تیار نظر آتے ہیں۔
پھر بات آتی ہے اسٹیبلشمنٹ اور بالخصوص جنرل قمر جاوید باجوہ کی۔ خان صاحب نے براہ راست اور بالواسطہ نہ صرف جنرل باجوہ کو شدید قسم کی تنقید کا نشانہ بنایا بلکہ فوج کو بطور ادارہ بھی متنازعہ بنانے کی کوششیں کرتے رہے۔ پھر اچانک ہی جنرل صاحب کی مدت ملازمت میں توسیع کی بات کر دی لیکن اپنی سوچ پر نظر ثانی (اگرچہ ایسا کم ہی ہوتا ہے) کرنے کے بعد انہیں احساس ہوا کہ انہوں نے غلطی نہیں کی بلکہ بلنڈر مار دیا ہے تو انہوں نے فوری طور پر ایک اور یو ٹرن لے لیا اور اپنے پہلے بیان کی توضیحات بیان کرنے لگے۔
خاتون جج کو دھمکانے پر جب عدالت عالیہ نے طلب کیا تو معافی مانگنے سے گریزاں نظر آئے، لیکن پھر معاملات کو اپنے خلاف جاتے دیکھ کر اس پر بھی رضامندی کا اظہار کر دیا۔ اپنے خلاف درج مقدمات کی تفتیش کے لیے جے آئی ٹی کے سامنے پیش نہیں ہوتے رہے لیکن جب نوبت ضمانت کی منسوخی تک آ گئی تو ایک دن اچانک ہی یو ٹرن لے لیا۔
مذکورہ بالا قدامات اور بیانات کے نتیجہ میں، تحریک عدم اعتماد کے بعد اپنایا گیا بیانیہ تو مکمل طور پر دفن ہی ہو گیا ہے۔ رہی بات عمران خان صاحب اور پاکستان تحریک انصاف کے ترجمانوں اور خان صاحب کے سپورٹرز کی، تو وہ ابھی تک کنفیوژ نظر آتے ہیں کہ اس صورتحال میں کیا کہیں اور کیا نہ کہیں۔

تبصرے بند ہیں.