سیلاب کا سانحہ یا عمرانی ایجنڈا

44

ایک سے بڑھ کر ایک انسانی المیہ جنم لے رہا ہے۔ کس کس کو روئیں یہاں تو کوئی آنسو پونچھنے والا بھی نہیں۔ سب کو اپنی اپنی پڑی ہے۔انسانوں سے زیادہ سیاست اہم ہے۔ ان کے لیے عام لوگ دھرتی پر بوجھ ہیں۔ اچھا ہے سیلاب میں بہہ جائیں۔ وہ تو بس فوٹو سیشن کروائیں گے اور یہ جا وہ جا۔ غریب عوام امداد کے منتظر ہیں۔ سوشل میڈیا پر ایک تصویر گردش کر رہی ہے کہ ایک سیاستدان سندھ میں لوگوں میں پچاس روپے تقسیم کر رہے ہیں۔ حاتم طائی کو لات مارنا اسے ہی کہتے ہیں۔ میڈیا کا کردار سیاستدانوں سے بھی زیادہ شرمناک ہے۔ لوگ ڈوب رہے تھے مر رہے تھے، بے گھر ہو رہے تھے اور یہ سیاست کو لے کر بیٹھے ہوئے تھے۔ ان کے نزدیک عمران خان کی ضمانت زیادہ اہم تھی۔ شہباز گل کی گرفتاری پر نان اسٹاپ کوریج جاری رہی۔ بلوچستان ڈوب گیا ہم نے توجہ ہی نہیں دی۔ مشرقی پاکستان میں بھی ہم نے اجتماعی طور پر اسی رویے کا اظہار کیا تھا۔ قوم نے کبھی اپنے عمل سے یہ ظاہر نہیں کیا کہ وہ بھی ہمارے جسم کا حصہ ہیں۔ ایک کو تکلیف ہوگی تو پورا جسم درد محسوس کرے گا۔ سیلاب زدگان کی مدد کے لیے سب سے پہلے جماعت اسلامی کے امیر جناب سراج الحق پہنچے مگر میڈیا کچھ اور دکھا رہا تھا۔ اب دو دن سے آہ و بکا کو دکھانا شروع کیا ہے تو اس سیلاب کی حقیقت کا اندازہ ہو رہا ہے۔
یہ سیلاب 2010 میں آنے والے سیلاب سے کہیں بڑا ہے۔ اس نے سب کچھ تباہ و برباد کر کے رکھ دیا ہے۔ ہماری معیشیت اتنا بڑا جھٹکا برداشت کرنے کے قابل نہیں ہے۔ عالمی برادری سے مدد کی اپیل کرنا کافی نہیں ہے بلکہ وہاں کے لوگوں کو یہاں کی صورتحال سے آگاہ کرنا بھی ضروری ہے۔
آج سے بارہ سال پہلے ستمبر 2010 میں پاکستان میں سیلاب آیا تو اقوام متحدہ کی سفیر مشہور اداکارہ انجلینا جولی پاکستان کے دورے پر تشریف لائیں تاکہ پاکستان کی امداد کا تعین کیا جائے۔
واپسی پر انجلینا جولی نے اقوام متحدہ میں اپنی رپورٹ پیش کی جس سے پاکستان کی بہت جگ ہنسائی ہوئی۔
اس نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ مجھے یہ دیکھ کر شدید دکھ ہوا جب میرے سامنے حکومت کے بااثر افراد سیلاب سے متاثرین کو دھکے دیکر کر مجھ سے ملنے نہیں دے رہے تھے۔ مجھے اس وقت اور تکلیف ہوئی جب پاکستان کے وزیراعظم نے یہ خواہش ظاہر کی اور مجبور کیا کہ میری فیملی کے لوگ آپ سے ملنا چاہتے ہیں ، میرے انکار کے باوجود وزیراعظم کی فیملی مجھ سے ملنے کیلئے ملتان سے ایک خصوصی طیارے میں اسلام آباد آئی اور میرے لئے قیمتی تحائف بھی لائی۔ وزیراعظم کی فیملی نے کئی اقسام کے طعام سے میری دعوت کی ، ڈائننگ ٹیبل پر انواع و اقسام کے کھانے دیکھ کر مجھے شدید رنج ہوا کہ ملک میں لوگ فاقوں سے مر رہے تھے اور یہ کھانا کئی سو لوگوں کیلئے کافی تھا جو صرف آٹے کے ایک تھیلے اور پانی کی ایک چھوٹی بوتل کیلئے ایک دوسرے کو دھکے دیکر ہماری ٹیم سے حاصل کرنے کے خواہشمند تھے۔مجھے حیرت ہوئی کہ ایک طرف بھوک ، غربت اور بدحالی تھی اور دوسری جانب وزیراعظم ہاوس اور کئی سرکاری عمارتوں کی
شان و شوکت ، ٹھاٹھ باٹھ ، حکمرانوں کی عیاشیاں تھیں ، یورپ والوں کو حیران کرنے کیلئے کافی تھا۔
انجلینا جولی نے اقوام متحدہ کو مشورہ دیا کہ پاکستان کو مجبور کیا جائے کہ امداد مانگنے سے پہلے شاہی پروٹوکول ، عیاشیاں اور فضول اخراجات ختم کریں۔ بارہ برس گذر گئے کیا ہمارے رویوں میں ذرا سا بھی فرق آیا ہے؟
جس وقت پاکستان میں لوگ سیلابی ریلوں کی زد میں تھے اس وقت پاکستان کے سابق وزیراعظم اور سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف کینیڈا کے دورے پر تھے ، وہاں ان کے نیاگرا فال کے وزٹ کی تصاویر جاری ہوئیں۔ ان کی فیملی بھی ایک عالی شان ہوٹل میں دعوت طعام میں مصروف تھی۔ دوسری طرف عمران خان سیلاب زدگان کے ساتھ فوٹو سیشن کروا کر واپس آ گئے۔ جب ان سے کہا گیا کہ وہ سیلاب زدگان کی امداد کے لیے اپیل جاری کریں تو انہوں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ میں یہ اپیل اس لیے نہیں کر سکتا کہ مجھے علم نہیں کہ یہ پیسہ کہاں لگے گا۔ وہ اس بات کو بھول گئے کہ دو صوبوں میں ان کی حکومت ہے سیلاب زدگان کے لیے امداد آتی تو ان صوبوں میں جاتی۔ انہیں تو بس یہ غرض تھی کہ وہ پی ٹی آئی کے لیے فنڈ ریزنگ کریں، شوکت خانم، نمل اور القادر یونیورسٹی کے لیے عطیات کی اپیل کریں۔ قوم اس وقت سیلاب سے گھری ہوئی ہے اور یہ لیڈر سیاسی جلسہ فرما رہے ہیں۔ کیا اسے بے غیرتی کی حد تک بے حسی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ایسے میں ایم کیو ایم کے رہنماوں کی یہ اپیل کون سنے گا کہ کچھ ہفتوں کے لیے سیاست کو الگ کر کے ریلیف کے کام میں شریک ہو جائیں۔
سوات ، کالام اور بحرین میں سیلاب نے جو تباہی مچائی ہے اس کے پیچھے بھی پی ٹی آئی کے رہنماو¿ں کا ہاتھ ہے۔ اس معاملے کی انکوائری ہونی چاہیے۔ خیبر پی کے کے وزیراعلیٰ کا تعلق اسی علاقے سے ہے اور مراد سعید بھی اس علاقے میں متحرک ہیں۔ دریا کے کناروں پر ہوٹلوں کی تعمیر کے لیے متعلقہ حکام اور ادارے این او سی جاری نہیں کر رہے تھے مگر ان دونوں رہنماوں کے دباو پر یہ این او سی جاری ہوئے۔ ہوٹل جن جگہوں پر تعمیر ہوئے اس نے دریا کے لیے راستہ تنگ کر دیا۔ ہوٹل مالکان نے زیادہ کرایے کے لیے ہوٹل کو دریا کے بیچ میں بنانے کے لیے سب کی مٹھی گرم کی اور اس کا خمیازہ پورے علاقے کو بھگتنا پڑا ہے۔ کیا کوئی اس معاملے کی انکوائری کروائے گا یا سب کچھ دریا برد ہو جائے گا۔
جو علاقے اس وقت سیلاب میں گھرے ہوئے ہیں ان کا انفراسٹرکچر مکمل طور پر تباہ ہو گیا ہے اور ان کی بحالی میں کئی برس لگیں گے۔ لاکھوں افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ مال مویشی سیلاب میں بہہ گیا، فصلیں تباہ ہو چکی ہیں اور اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ سبزیوں کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگی ہیں۔ اجناس کی قلت کا بھی خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔ وہ علاقے جو غذائی ضروریات کو پورا کرتے تھے سیلاب کی زد میں ہیں۔ عالمی برادری نے بروقت امداد نہ کی تو خدشہ ہے کہ پاکستان قحط سالی کا شکار ہو جائے گا۔
پاکستان پہلے ہی دیوالیہ ہونے کے قریب ہے اور عمران خان کی کوشش ہے کہ اسے سنبھلنے کا موقع نہ دیا جائے۔ پاکستان کو آئی ایم ایف کی ایک ارب سترہ کروڑ ڈالر کی قسط جاری کا فیصلہ ہوا تو کے پی کی حکومت نے وفاقی حکومت کو خط لکھ دیا کہ وہ آئی ایم ایف کے پروگرام کو صوبے میں جاری نہیں کرے گی۔ فواد چوہدری نے بھی پریس کانفرنس میں کہا کہ پنجاب اور کے پی دونوں آئی ایم ایف پروگرام میں نہیں جائیں گے۔ ان اعلانات کا مقصد اس کے سوا کیا ہو سکتا ہے کہ آئی ایم ایف اپنی قسط جاری نہ کرے۔ یہ ملک دشمن ایجنڈا ہے جو سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے پروان چڑھایا جا رہا ہے۔ یہ سب عمران خان کی مرضی اور منشا کے تحت ہو رہا ہے۔ آئی ایم ایف سے قسط ملنے کا مطلب یہ ہے کہ ملکی معشیت اپنے پاوں پر کھڑا ہو جائے گی اور باقی ممالک بھی پاکستان کے لیے امداد دیں گے اور یہاں سرمایہ کاری کریں گے۔ جس دن قطر میں وزیراعظم۔شہبازشریف کی قیادت میں اعلی سطحی وفد امیر قطر سے ملاقات کر رہا تھا عمران خان نے ہری پور میں تقریر کر دی کہ آپ کو کوئی پیسہ نہیں دے گا کہ آپ لٹیرے ہیں۔ قطر پاکستان میں تین ارب ڈالر کے منصوبے شروع کرنے کا خواہشمند ہے۔ اومان دو ارب ڈالر سے گوادر کراچی ریلوے کے منصوبے میں سرمایہ کاری کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ یہ ہے وہ منصوبہ جن کو روکنے کے لیے پی ٹی آئی کی حکومت یہ سب کر رہی ہے۔ اسے سیلاب زدگان سے کوئی ہمدردی ہے نہ ملک کے مفادات کی کوئی پرواہ۔ ان کا مطمع نظر یہی ہے کہ ہم نہیں تو کچھ نہیں۔

تبصرے بند ہیں.