ہم کب آزاد ہوں گے؟

56

ہم نے سکول کی کتابوں میں ایک کہانی پڑھی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ ایک سوداگر نے طوطا پال رکھا تھا۔ ایک مرتبہ جب وہ سوداگر تجارت کے لیے چین جانے لگا تو طوطے کے پنجرے کے پاس آکر پیار سے بولا میاں مٹھو! میں تمہارے لیے چین سے کیا لائوں؟ میاں مٹھو نے جواب دیا آپ میرے لیے وہاں سے کچھ مت لائیں، بس میرا ایک پیغام چین میں میرے طوطے بھائیوں کو دے دیں کہ میں پنجرے میں قید ہوں اور تم آزاد ہو۔ جب سوداگر اپنے سفر سے واپس آیا تو میاں مٹھو نے پوچھا کہ کیا آپ نے میرا پیغام وہاں کے طوطوں کو دیا تھا؟ تو سوداگر بولا ہاں جب میں نے تمہارا پیغام دیا تو ایک طوطا درخت سے زمین پر گرا جیسے مر گیا ہو۔ یہ سن کر پنجرے میں قید طوطا بھی پنجرے کے فرش پر گرکر بے سدھ ہوگیا۔ سوداگر نے افسوس کیا کہ اس نے وہاں کے طوطے کے مرنے کی خبر سنائی۔ شاید اِس طوطے کا اُس طوطے سے کوئی جذباتی تعلق تھا۔ سوداگر نے پنجرے کا دروازہ کھولا اور بے سدھ طوطے کو اٹھا کر باہر پھینک دیا۔ جونہی طوطا جھاڑیوں میں گرا تو اُس نے ایک دم اپنے پر پھڑپھڑائے اور اڑان بھر کر قریبی درخت پر جا بیٹھا۔ طوطا حیران سوداگر کو مخاطب کرکے بولا میرے چینی دوست نے مجھے آزادی حاصل کرنے کی ایک ترکیب بتائی تھی کیونکہ آزادی بڑی نعمت ہے۔ ایک پنجرے کی قید سے محض آزاد ہوجانا چرند پرند کے لیے تو اصل آزادی ہو سکتی ہے لیکن انسانوں کے لیے پنجرے کی قید سے آزادی، آزادی کی پہلی سیڑھی ہوتی ہے جبکہ اصلی منزل تک پہنچنے کے لیے اس راہِ سلوک میں او ربھی بہت سی منزلیں آتی ہیں۔ ہم نے 14اگست 1947ء کو انگریزوں اور ہندوئوں کے مشترکہ پنجرے کی قید سے آزادی حاصل کرلی لیکن خود تیارکردہ قید خانوں سے کس حد تک آزاد ہوئے، آئیے 14اگست 2022ء کے پاکستان کو دیکھتے ہیں۔ قائداعظمؒ محمد علی جناح نے 11اگست 1947ء کو پاکستان کی پہلی آئین ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے گائیڈلائن دی کہ پاکستان میں مذہبی لحاظ سے سب برابر کے شہری ہوں گے۔ ریاست کو اس بات سے کوئی غرض نہیں ہو گی کہ کون کس مذہب
سے تعلق رکھتا ہے لیکن قائداعظمؒ محمد علی جناح کی وفات کے 6ماہ بعد 12مارچ 1949ء کو پاکستان کے آئین کے رہنما اصولوں کے لیے قرارداد مقاصد منظور کی گئی جس کے مطابق ریاست پاکستان کا مذہب اسلام ہوگا۔ کیا ہم آج تک ان دو نظریات کی کنفیوژن میں نہیں ہیں؟ ہم اس کنفیوژن سے کب آزاد ہوں گے؟ قائداعظمؒ محمد علی جناح نے 11اگست 1947ء کی اِسی تقریر میں انتباہ کیا تھا کہ ذخیرہ اندوز اور اقربا پرور ملک کے سنگین دشمن ہیں۔ کیا 2022ء کے پاکستان میں جابجا ذخیرہ اندوز اور اقرباپرور موجود نہیں ہیں؟ ہم اِن ذخیرہ اندوزوں اور اقرباپروروں سے کب آزاد ہوں گے؟ پاکستان ایک جمہوری تحریک کے نتیجے میں بنا۔ علامہ اقبال، قائداعظمؒ محمد علی جناح اور تحریک پاکستان کے دوسرے رہنما اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ پاکستان میں نظام حکومت جمہوری ہوگا مگر یہاں چار مارشل لاء آچکے ہیں۔ اِن غیرجمہوری حکومتوں کے ڈکٹیٹر علامہ اقبال، قائداعظمؒ محمد علی جناح اور تحریک پاکستان کے رہنمائوں کو اپنا لیڈر مانتے تھے۔ کیا یہ ایک کھلی منافقت نہیں تھی؟ ہم اس منافقت سے کب آزاد ہوں گے؟ قائداعظمؒ محمد علی جناح نے برصغیر کے مسلمانوں کے انسانی حقوق کی خراب صورتحال کو دنیا کے سامنے پاکستان کے مقدمے کے لیے ایک اہم ترین دلیل کے طور پر پیش کیا۔ یعنی پاکستان کی ریاست اپنے شہریوں کے انسانی حقوق کی ضامن ہوگی۔ کیا گزشتہ برسوں کی رپورٹوں کے مطابق پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتحال خراب نہیں ہے؟ ہم انسانی حقوق کی خراب صورتحال سے کب آزاد ہوں گے؟ پاکستان برصغیر کے مسلمانوں کے لیے بنایا گیا تھا لیکن اِس پاکستان میں مسلمانوں کے کئی فرقے موجود ہیں جو ایک دوسرے کو قبول نہیں کرتے۔ کیا پاکستان اُن مسلمانوں کے لیے بنایا گیا تھا جو مذہبی تعصب پر یقین رکھتے ہوں گے؟ ہم اس مذہبی تعصب سے کب آزاد ہوں گے؟ 2022ء کے پاکستان میں لسانی بنیادوں پر علاقے تقسیم ہوچکے ہیں۔ 14اگست 1947ء کو سامنے آنے والا پاکستان کیا انہی لسانی جھگڑوں کے لیے معرض وجود میں آیا تھا؟ ہم اِن لسانی جھگڑوں سے کب آزاد ہوں گے؟ اگست 1947ء سے پہلے کے ہندوستان میں مسلمان تعلیمی میدان میں بہت پسماندہ تھے۔ پاکستان بنانے والوں کا خیال تھا کہ مسلمان اپنے ملک میں رہ کر زیادہ سے زیادہ تعلیم حاصل کریں گے۔ 75برس گزرنے کے بعد بھی پاکستان میں تعلیم کا شعبہ حکومت کے لیے کم ترین ترجیح رکھتا ہے۔ یہاں کے شہری اپنی ہمسایہ ریاستوں سے کئی فیصد زیادہ اَن پڑھ ہیں۔ کیا پاکستان جہالت کے فروغ کے لیے بنایا گیا تھا؟ ہم اِس جہالت سے کب آزاد ہوں گے؟ پاکستان بننے سے پہلے ہندوستان کے مسلمان ہندوئوں کے ہاتھوں اپنے معاشی استحصال کا رونا روتے تھے۔ کیا 2022ء کے پاکستان میں مسلمان ہی مسلمان کا معاشی استحصال نہیں کررہا؟ ہم اس معاشی استحصال سے کب آزاد ہوں گے؟ اگست 1947ء سے پہلے کے ہندوستان میں ہندوئوں کے ہاتھوں مسلمانوں کی جان، مال، عزت محفوظ نہیں تھی۔ کیا 2022ء کے پاکستان میں سب شہریوں کی جان، مال، عزت اپنے ہی ہم وطنوں کے ہاتھوں محفوظ ہے؟ ہم جان، مال، عزت کے غیرمحفوظ ہونے کے خوف سے کب آزاد ہوں گے؟ پاکستان دو قومی نظریئے کی بنیاد پر بنا۔ 2022ء کے پاکستان میں کئی قوموں کی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ کیا یہ دو قومی نظریئے سے اختلاف نہیں ہے؟ ہم اس اختلاف سے کب آزاد ہوں گے؟ ہمارے ہاں ادیب، شاعر، رائٹر، دانشور، صحافی اور اساتذہ جیسی علمی و ادبی شخصیات اپنی نوکریوں اور ملازمت میں توسیع کے لیے اپنے قلم، نظریات اور شرافت وزراء کے قدموں میں رکھنے سے بھی دریغ نہیں کرتیں۔ ہمارے ادیب، شاعر، رائٹر، دانشور، صحافی اور اساتذہ کی یہ منافقت پاکستان کو ادب اور علم و دانش کے میدان میں بہت پیچھے لے گئی۔ پاکستان اس ادبی، علمی اور دانشورانہ منافقت سے کب آزاد ہوگا؟ مذکورہ بالا بہت سے قیدخانے ایسے ہیں جن میں ہم نے اپنے آپ کو خود بند کررکھا ہے۔ ان سے آزادی ہی 14اگست 1947ء والے پاکستان کی مکمل آزادی ہوگی۔ لہٰذا ہمیں فیصلہ کرنا پڑے گا کہ ہم کب آزاد ہوں گے؟

تبصرے بند ہیں.