ہر قومی معاملے پر سیاست کیوں؟

80

گزشتہ کئی ماہ سے ملک کو سنگین معاشی بحران اور مہنگائی کے طوفان کا سامنا ہے۔ ان مشکل حالات میں یہ خبر ایک خوشگوار ہوا کے جھونکے کی مانند ہے کہ دوست ملک چین سے 2.3 ارب ڈالر کی رقم ایک دو روز میں موصول ہو جائے گی۔آئی۔ ایم۔ایف بھی پاکستان کیساتھ معاملات طے کرنے سے گریزاںتھا ۔ شہباز حکومت کو اس نے قرض کی قسط جاری کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ اب وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے اطلاع دی ہے کہ آئی۔ ایم۔ ایف سے بھی معاملات جلد طے ہونے کی امیدبندھی ہے۔ غالبا انہی اطلاعات کے اثرات ہیں کہ ڈالر کی قیمت گرنا شرو ع ہو گئی ہے اور روپے کو کچھ استحکام نصیب ہوا ہے۔ ا للہ کرئے کہ موجودہ حکومت ملک کی معاشی سمت درست کرنے میں کامیاب ہو جائے، تاکہ پاکستان کے عوام کو مہنگائی کے عذاب مسلسل سے نجات نصیب ہوسکے۔ آمین۔
ملکی سیاست کی بات کی جائے تو اس کے وہی رنگ ڈھنگ ہیں جو ہم برسوں سے دیکھتے چلے آرہے ہیں۔ ہر چھوٹے بڑے معاملے کو سیاست کی عینک سے دیکھنا جیسے ایک قومی مزاج بن چکا ہے۔ ۔ عوام کے مسائل کے حل کی طرف توجہ دینے کے بجائے سیاسی جماعتیں بیشتر وقت اپنے اپنے سیاسی اور شخصی مفادات کی جنگ میں الجھی ہیں۔یہ افسوسناک سلسلہ اسی طرح جاری و ساری ہے۔ان حالات میں کسے پرواہ ہے کہ بجٹ جیسے اہم معاملے پر توجہ مرکوز کی جائے۔ایک لمحے کے لئے غور کیجئے کہ سالانہ بجٹ کس قدر اہم او ر حساس معاملہ ہوتا ہے۔بجٹ دراصل ملک کے سال بھر کے مالیاتی حساب کتاب کا ایک گوشوارہ ہوتا ہے۔ اس گوشوارے میں یہ طے کیا جاتا ہے کہ سال بھر کی آمدن کتنی ہو گی۔ اخراجات کا تخمینہ کیا ہو گا۔ کس کس شعبے کو کتنی رقم دی جائے گی اور وہ کیسے خرچ ہو گی۔ کس شعبے کا گزارہ کم رقم سے چل جائے گا اور کس شعبے کو ہر قیمت پر بھاری بھرکم بجٹ دینا پڑے گا۔ ا صولا اس سارے معاملے کو نہایت سنجیدگی سے لینا چاہیے۔ وفاق اور صوبوں میں حکومت کے بجٹ پیش کرنے کے بعد اپوزیشن کو بجٹ کا اچھی طرح سے جائزہ لینے کے بعد قومی اور ملکی مفاد میں تجاویز پیش کرنی چاہییں۔ عوام کی آسانی اور سہولت کے پیش نظر حکومت سے کچھ مطالبات منوانے چاہییں۔ مگر ہمارے ہاں ایسا نہیں ہوتا۔ برسوں سے ہم یہ مناظر دیکھتے چلے آ رہے ہیں کہ کس طرح قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں بجٹ تقریر کے دوران اپوزیشن کی طرف سے شور شرابا کیا جاتا ہے۔سیاسی نعرے بازی ہوتی ہے۔ ڈیسک پیٹے جاتے ہیں۔بجٹ کی کاپیاں پھاڑی جاتی ہیں۔ یہ بھاری بھرکم کاپیاں ایک دوسرے کی طرف اچھالی جاتی ہیں۔ ہم یہ قصے بھی سنتے چلے آرہے ہیں کہ حکومت اور اپوزیشن بنچوں پر بیٹھے بیشتر اراکین اسمبلی بجٹ پڑھنے کی زحمت نہیں کرتے۔ بجٹ کی کاپیاں ان کے ڈیسکوں، دفتروں اور گھروں میں جوں کی توں پڑی رہتی ہیں۔ یا پھراسمبلی میں ماردھاڑ کے کام آ تی ہیں۔ ان حالات میں تمام اراکین اسمبلی سے سنجیدہ قسم کی بحث کی توقع نہیں کی جا سکتی۔  ان اراکین کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے، جو بجٹ پڑھتے اور سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انہی گنے چنے اراکین کی وجہ سے ہمیں بسا اوقات بہت عمدہ اور پر مغز بجٹ تقاریر اور تجاویز سننے کو ملتی ہیں۔
اس مرتبہ بھی بجٹ کے حوالے سے اپوزیشن کا رویہ وہی تھا جو عمومی طور پر ہر اپوزیشن کا ہوا کرتا ہے۔ کوئی سنجیدہ بحث سننے دیکھنے کو نہیں ملی۔ وفاق میں بجٹ پیش ہوا تو حکومت نے اپنے بجٹ کو عوام دوست قرار دیا۔ جبکہ تحریک انصاف نے پریس کانفرنسوں اور ٹیلی ویژن پروگراموں میں اسے ہدف تنقید بنایا۔ پنجاب میں صورتحال زیادہ ابتر رہی۔ پنجاب میں یہ تماشا ہوا کہ اپوزیشن اور حکومت نے اسمبلی کے دو الگ الگ اجلاس منعقد کئے۔ ایک اجلاس پنجاب اسمبلی میں، جبکہ دوسرا ایوان اقبال میں۔ اللہ اللہ کر کے پنجاب کا بجٹ بھی پیش کر دیا گیا ہے۔ اس بجٹ کے حوالے سے بھی تعریف اور تنقید کا سلسلہ حسب روایت جاری ہے۔ پنجاب حکومت نے اپنے بجٹ کو غریب دوست، اور عوام دوست قرار دیاہے، جبکہ اپوزیشن اسے عوا م دشمن قرار دے رہی ہے۔
اخبارات میں حکومت اور اپوزیشن کے بے معنی سیاسی بیانات پڑھ کر خیال آتا ہے کہ کیا ہی اچھا ہو کہ سیاسی جماعتیں بجٹ جیسے اہم معاملے کو سیاست کی عینک سے دیکھنے کے بجائے قومی مفاد کی عینک سے دیکھا کریں۔ اس معاملے میں اپوزیشن کی ذمہ داری حکومت سے کہیں زیادہ بنتی ہے۔ حکومت تو بجٹ بنا کر پیش کر دیتی ہے۔ اپوزیشن کا فرض ہے کہ اس کو سنجیدگی سے زیر غور لائے اور اس میں عوام کو ریلیف پہنچانے کیلئے اچھی اچھی تجاویزپیش کرئے۔ یہ بھی اپوزیشن ہی کی ذمہ داری ہے کہ کچھ اہم معاملات کا بجٹ بڑھانے کیلئے حکومت کو دباو میں لائے۔ مثلا تعلیم، صحت کے معاملات۔ کیا یہ اچھا نہ ہو کہ کم از کم تعلیم اور صحت جیسے شعبوں کے بجٹ کو اپوزیشن جماعتیں غور سے دیکھیں۔ اس پر بحث کرئیں اور ان میں کوئی کمی ہے تو اس میں اضافے کی کاوش کریں۔
بالکل اسی طرح سرکاری ملازمین کی تنخواہیں اور پنشن بھی ایک نہایت اہم معاملہ ہے۔ حاضر سروس اور ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کو بجٹ سے بہت امیدیں ہوتی ہے۔ تنخواہوں اور پنشن میں اضافے کے معاملے پرا پوزیشن کی ذمہ داری بنتی ہے کہ سرکاری ملازمین کی ترجمانی کرئے۔ تنقید برائے تنقید کے بجائے،اس پہلو کو سنجیدگی سے زیر بحث لائے اور ملازمین کیلئے زیادہ سے زیادہ ریلیف حاصل کرئے۔ لیکن افسوس کہ ایسی کوئی سنجیدہ کاوش ہمیں دیکھنے کو نہیں ملتی۔ اپوزیشن ایک ہی جملے میں یہ کہہ کر فارغ ہو جاتی ہے کہ یہ عوام دشمن بجٹ ہے۔
یہ رویہ کسی ایک سیاسی جماعت کیساتھ مخصوص نہیں ہے۔تھوڑے بہت فرق کیساتھ ہر سیاسی جماعت یہی طرز عمل اختیار کرتی ہے۔ کسی حکومت کے اچھے اقدامات کی تعریف اور تحسین کرنے کا رواج ہمارے ہاں سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ کوئی سیاسی جماعت اتنا حوصلہ اور ظرف نہیں رکھتی کہ مخالف سیاسی جماعت کے اچھے کاموں کی تعریف کرئے۔ سیاست دانوں کا یہی طرز عمل پاکستان میں سیاسی عدم برداشت کے پھیلاو کا باعث ہے۔ سیاسی تقسیم اور نفرت کی لکیریں بھی گہری ہوتی جا رہی ہیں۔  یہ طرز عمل عوام الناس میں ملک کے بارے میں مایوسی پھیلانے کا باعث بھی بنتا ہے۔ عوام سمجھتے ہیں کہ ہمارے ہاں کوئی اچھا اور مثبت کام ہو ہی نہیں رہا۔ کاش ہماری سیاسی جماعتیں اپنے رویے پر غور کریں۔ اپنے رویے میں تبدیلی لائیں۔ حساس قومی معاملات کو سیاست کی عینگ سے دیکھنے کی روش ترک کر یں اور پاکستان کے مفاد کی عینک سے دیکھنے کی عادت اپنائیں۔

تبصرے بند ہیں.