حمزہ شہباز کا صبر وتحمل…

34

چوہدری پہلی فہرست اور اعلیٰ پائے کے سیاستدان کبھی نہیں رہے مگر گجرات میں ان کے رکھ رکھائو، ملن ساری اورگجرات پروری کے باعث ایک معتدل سا پنجاب سے رغبت رکھنے والا عکس ضرور بن گیا تھا… جسے پہلا دھچکہ تو مشرف کی غلامی ،اسے سو سال وردی والا صدر دیکھنے کی خواہش عوامی امنگوں سے متصادم رہی اور انہیں معتبر ادارے کا زبردستی کا غلام ثابت کرتی رہی… اس کے باوجود 1122 اور چار چھ کاموں نے کچھ امیج بنایا ہی تھا کہ پرویز الٰہی کا وزارت اعلیٰ کے منصب کے لئے پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم کے پلے گرائونڈ میں شٹل کاک بن جانا ان کی ساکھ کو بہت گرا گیا… اس پر ہی بس نہیں سیاسی فٹ بال گرائونڈ میں متضاد ککس لگانے پر بہت ’’ٹھڈے‘‘ بھی پڑے انہوں نے وزیر اعلیٰ بننے کی خاطر ہر دائو پیج کھیلا قانون کی دھجیاں اڑ کر پنجاب اسمبلی کو اکھاڑا بنا دیا اس سے قبل کہ عدالت منحرف ارکان کو جرم کے بعد سزا دیتی موصوف نے پہلے ہی عدالت لگا کر لوٹے، ہیلمٹ ، گھن برسوا دیئے یہی نہیں ڈپٹی سپیکر کے بال نچوائے نوجوان پولیس والوں سے فربہہ خواتین ’’بھڑوا‘‘ دیں۔ ’’لڑا دے اسمبلی کو شہباز سے‘‘ کے مصداق فتح کے اشارے کرتے رہے اتنی شدید مار کٹائی جہاں بھی ہو گی ریاست یعنی پولیس فورس تو جانیں بچانے آئے گی ۔ پانچ مئی کو اگر پولیس اسمبلی میں نہ آتی اور پانچ سات بندے مر جاتے تو بھی ریاست پر وزن آتا۔
جیسے قومی اسمبلی میں اپنی واضع شکست دیکھتے ہوئے پی ٹی آئی کے ’’بڑھک ماروں‘‘ نے ہر حربہ آزمایا کبھی اسے امریکی سازش کہا کبھی عدالت اور فورسز کو مجرم ٹھہرایا نہیں گیا تو عدم اعتماد کا سامنا نہیں کیا ۔یہی حال پنجاب اسمبلی کا ہوا۔ حمزہ شہباز پوری گنتی کے ساتھ وزیر اعلیٰ بنے تو حلف نہیں اٹھانے دیا گیا۔ گورنر اور صدر اپوزیشن لیڈر بن کر بیٹھ گئے اسمبلی آئو تو ماریں گے کہیں اور جائو تو غیر قانونی کہیں گے۔ گورنر ایسا اپنی کرسی سے چمٹا کہ جیسے پرویز الٰہی پنجاب اسمبلی سے’’جن جپھا‘‘ ڈال کر لٹک گیا۔
پی ٹی آئی کے ہر رکن کی طرح پرویز الٰہی نے بھی ثابت کیا کہ وہ معزز ایوان کے قابل نہیں تھے جس کی غلیظ ترین مثال یہ دی کہ بارہ کروڑ عوام کا پنجاب بجٹ ’’ڈک‘‘ کر موصوف اس شرط پر ڈٹ گئے کہ پہلے ہمارے مقدمات ختم کرو حالانکہ یہ کہاں کا قانون ہے کہ بجٹ مشروط پاس ہو کہ پرویز الٰہی کے مقدمات ختم کئے جائیں یوں بھی گورنمنٹ از خود مقدمات کو کیسے ختم کر سکتی ہے۔ یہ بھی پہلی مرتبہ ہوا کہ ذاتی شرائط بجٹ اجلاس کی راہ میں حائل کر دی گئیں۔ اس پر بھی بس نہیں پنجاب کا بجٹ کیا اتنا بے توقیر ہے کہ پرویز الٰہی کی ذاتی انا کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ایک شخص اگر کسی عہدے پر بیٹھا بیٹھا ذہنی توازن کھو دے اور اس بات پر آئی جی اور چیف سیکرٹری کو طلب کرے کہ 5 مئی کو کھل کھلا کر مزید مارکٹائی کیوں نہیں کرنے دی اس لئے اس کے روبرو معافی مانگی جائے نہیں تو وہ بجٹ نہیں پیش کرنے دے گا یعنی ایک سرکاری کام کو روک دے گا کہ پہلے اس کی انا کی تسکین کی جائے۔ پرویز الٰہی جو اردو کا ایک جملہ بھی سیدھا نہیں بول سکتا انگریزی کا تو سوال نہیں پنجابی کے لئے بھی کچھ نہ کیا انتہائی سنجیدہ امتحانوں سے گزر کر آئے ہوئے آئی جی اور چیف سیکرٹری سے معافی منگوانا چاہ رہا ہے۔
سچ کہتے ہیں یہ دنیا ایک بازار ہے اور یہاں اگر خود کی مناسب قیمت نہ لگائی جائے تو بندہ شو کیس میں پڑاسڑتا رہتا ہے یہی پرویز الٰہی کے ساتھ ہوا سپیکر کی کرسی بھی بے توقیر ہوئی اور شرائط بھی حد دسے بڑھنے کی وجہ سے ناتمام رہ گئیں۔ اور جلاس اٹھ کر کہیں اور چل دیا۔ دنیا کے کام بھی کبھی رکے ہیں البتہ کار سرکار میں مداخلت کرنے والے ’’رل‘‘ جاتے ہیں۔
آئی جی تو آئی جی میں سمجھتی ہوں کسی کی ذاتی تسکین کے لئے ایک سپاہی اور چیف سیکرٹری کی جگہ ایک کلرک کو بھی کسی کی ذاتی عدالت میں نہیں پیش کرنا چاہئے سب جانتے ہیں کہ بجٹ ’’یک نکاتی ایجنڈا‘‘ ہوتا ہے اس دن کو دیگر معاملات کے لئے استعمال نہیں کیا جا سکتا اور پھر ’’عادت ہی بنا لی ہے تم نے تو عجیب اپنی…‘‘
حمزہ شہباز نے بہت اچھا کیا بلیک میل نہیں ہوئے اور بطور وزیر اعلیٰ ایک مضبوط کردار کا مظاہرہ کیا کم عمر ہونے کے باوجود ایک ضدی ڈھیٹ بزرگ کے سامنے تحمل برادری اور صبر کا مظاہرہ کیا۔
یہ تربیت انہیں ان کے خاندان سے ملی ہے اس کے علاوہ نہایت کم عمری میں اسیری یرغمالی اور خانہ ویرانی جیسی صعوبتیں جھیل چکے ہیں جو اب بطور وزیر اعلیٰ ان کے کام آ رہی ہیں۔
پرویز الٰہی نے اپنے بچگانہ طرز عمل سے چوہدری شجاعت کو بھی کھو دیا مبینہ شادی کا بھی الزام ہے اس کے علاوہ یوں بھی ان کا سیاسی کریئر آخری دموں پر تھا کہ ہمیشہ بڑی پارٹیوں کے بالمقابل تیسرے دم چھلے کے طور پر رہے مگر آخری دور میں اس درجہ جگ ہنسائی۔ میں نامانوں رے اور بازو تڑوانے کی ایکٹنگ آکسیجن ماسک بنا سلنڈر ان کے تماشے کے لئے کافی تھا۔
پرویز الٰہی کا سیاسی کریئر جس برے انداز میں اختتام پذیر ہو رہا ہے اس سے ثابت ہوتا ہے ابتک بھی ٹکے رہنے کے پیچھے محض چوہدری شجاعت کی فراست تھی اور جیسا کہ ہر شخص کی اولاد ہی اس کا امتحان ہوتی ہے۔ چوہدری پرویز الٰہی مونس کے مقدمات کی وجہ سے پی ٹی آئی کے ہاتھوں کھلونا بنے رہے وزارت اعلیٰ کی دھن ایسی پکی رہی کہ کسی اور کو وزیر اعلیٰ بنے دیکھ ہی نہیں سکتے جلد بازی میں عمران خان کی نیپیاں تبدیل کرنے جیسے بیان دیتے رہے انہوں نے بھی نیپیوں والے بیان کو نظر انداز کر کے پرویز الٰہی کو خوب استعمال کیا کہ وہ جانتے تھے کہ وہ وزیر اعظم نہیں رہے تو یہ وزیر اعلیٰ کیسے ہو سکتا ہے۔ جہاں تک نظر اندازی کی بات ہے اصولوں کا علم اٹھانے والے عمران نے پرویز الٰہی کو پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو قرار دیا۔ یا تو یہ لوگ مان جائیں کہ ان کے جملوں کو سیریس نہ لیا جائے جیسے ان کے وعدے جھوٹے ویسے ہی محبتیں بھی اخلاص سے عاری اور نفرتیں بھی خالص نہیں۔

تبصرے بند ہیں.