کسان دوست اقدامات … وقت کی اہم ضرورت !

18

انسان کی غذائی ضروریات زیادہ تر کھیتوں اور باغوں سے پوری ہوتی ہیں۔ کسان ہی وہ محسن ہیں جو ہمارے لئے خوراک کی فراہمی کو یقینی بناتے ہیں۔ جون جولائی کی جھلسا دینے والی گرمی ہو یا دسمبر جنوری کی جما دینے والی ٹھنڈک۔ یہ ہر موسم کی شدت کو برداشت کرتے ہوئے ہمارے لئے ضروریات مہیا کرتے ہیں۔ ان کی محنت سے فائدہ اٹھانے والے لوگ تو معاشی ترقی کے بام عروج تک پہنچ جاتے ہیں لیکن یہ بے چارے اکثر و بیشتر معاشی ترقی میں پیچھے رہ جاتے ہیں جبکہ دراصل کسانوں کی ترقی ہی ملک کی ترقی ہے۔
ایک بیوپاری آڑھتی کاٹن فیکٹری سے لے کر ٹیکسٹائل ملز تک جتنا بھی پیسہ کمایا جاتا ہے اس کے پیچھے سارا ہاتھ کسان کا ہوتا ہے۔ سب کا کاروبار کسانوں کی وجہ سے چل رہا ہوتا ہے۔ اگر کسان فصل اگانا بند کردیں تو یہ سارے لوگ جو بڑی بڑی گاڑیوں میں بیٹھ کر نواب صاحب بنے ہوئے ہیں کہاں جائیں گے؟
اب بات کرتے ہیں کہ موجودہ حکومت کی جانب سے پیش کیا گیا ’’کسان دوست بجٹ‘‘کسانوں کے لئے کتنا فائدہ مند ثابت ہو سکے گا۔ حکومت نے زرعی مشینری اور ٹریکٹرز پر تو سیلز ٹیکس کی مکمل چھوٹ دے دی ہے لیکن زرعی ڈیزل انجن پر سیلز ٹیکس ابھی تک لاگو ہے جو کہ منی بجٹ 2021ء میں لگایا گیا تھا۔ اس کے علاوہ حال ہی میں ڈیزل کی قیمت میں اضافے کی وجہ سے کسان اپنے پرانے زرعی ڈیزل انجن استعمال کرنے پر مجبور ہے جس سے ڈیزل کی کھپت نئے زرعی انجن کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے لہٰذا زرعی انجن پر سیلز ٹیکس کی چھوٹ سے اس کی قیمت میں مناسب کمی ہوگی اور کسان اپنے پرانے انجنوں کی جگہ نئے انجن خرید سکے گا۔ ان انجنوں PCT-8408.9000 اور ان کی CKD کٹ پر سیلز ٹیکس کی چھوٹ سے فیڈرل ریونیو میں زیادہ سے زیادہ چند کروڑ روپے ہوگی جبکہ اس سے زراعت اور کسان کو گراں قدر فائدہ ہوگا جبکہ یہ ڈیزل انجن محض سیلز ٹیکس کی چھوٹ کے بعد ایک لاکھ روپے میں 25ہارس پاور انجن کسان کو میسر ہوگا۔ پچھلے سال گندم کی فصل 25 سے 30 لاکھ ٹن ملکی ضرورت سے کم پیدا ہوئی ہے جبکہ 56 لاکھ گانٹھیں ملک میں درآمد کی گئیں۔ اس کے علاوہ 3 بلین ڈالر سے زیادہ کپاس کی درآمد ہے۔ اور اس سال ہمیں ایک بلین سے زیادہ گندم درآمد کرنا پڑے گی۔ ان حالات میں ہمیں اپنی معیشت کو دوبارہ بحال کرنے کے لئے زرعی سیکٹر کی طرف توجہ دینا پڑے گی۔ اس وقت ملک میں ایک لاکھ سے زیادہ زرعی ڈیزل انجن ملک کی زمینوں کو سیراب کر رہے ہیں اور ان زرعی انجنوں پر سیلز ٹیکس عائد ہونے کی وجہ سے ان کی قیمت میں اضافہ ہوچکا ہے اور کسان نئے انجن خریدنے کی بجائے نہایت پرانے انجنوں سے ٹیوب ویل چلانے پر مجبور ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق پرانے انجنوں کے چلنے کی وجہ سے چاول کی کاشت کے وقت 50 ہزار لٹر روزانہ ڈیزل کی کھپت بڑھ جائے گی جو کہ ملک کے زرمبادلہ پر بہت برا اثر ڈالے گی۔ ان تمام معاملات کے علاوہ یہ سب جانتے ہیں کہ چاول کی فصل کی تیاری اور کاشت کا وقت آن پہنچا ہے۔ لہٰذا فوری طور پر اگر گورنمنٹ اپنے زرعی بجٹ میں سے 10 ہزار انجن کسانوں کو فری دے جس سے ڈیزل کی کھپت میں بھی کمی ہوگی اور چاول کی فصل پر 50 ہزار لٹر روزانہ فائدہ ہوگا۔ ایک لٹر فی گھنٹہ بچایا جا سکے گا۔
دنیا کی کسی بھی ریاست کے لئے اپنا وجود قائم رکھنا اس کی اولین ترجیح ہوتی ہے جس طرح زرعی مشینری پر ٹیکس کی چھوٹ دی ہے، اسی طرح ڈیزل انجن پر بھی سیلز ٹیکس کی مکمل چھوٹ ہونی چاہئے تھی تاکہ کسان کے لئے آسانیاں پیدا ہو سکیں۔ پاکستان میں عرصہ 25 سال سے زرعی ڈیزل انجن ماہر انجینئرز کی زیرنگرانی تیار کئے جاتے ہیں جو کوالٹی کے اعتبار سے بہترین ہیں۔ ملک میں گیارہ لاکھ ٹیوب ویلز ہیں جو نہری پانی کے بعد آبپاشی کا بہترین ذریعہ ہیں۔ ان میں سے ساڑھے نو لاکھ انجن ڈیزل پر چلتے ہیں۔ ڈیزل انجن بنانے والی انڈسٹری کو سیلز ٹیکس کی مد میں مکمل چھوٹ دی جائے تاکہ اس کا فائدہ براہ راست کسان کو ہو۔ کسان کی خوشحالی کا آغاز ہو سکے۔ امید ہے موجودہ حکومت اس ضمن میں فوری کارروائی کرتے ہوئے احکامات جاری فرماکر کسان دوست ہونے کا حق ادا کرے گی۔

تبصرے بند ہیں.