ہمارے سارے حکمران کہتے ہیں کہ وہ اپنی مرضی سے کام کرتے ہیں۔ ان کے چلے جانے کے بعد پتا چلتا ہے کہ ان کا یہ کہنا دراصل اُس بچے کی مانند ہوتا ہے جو اپنے باپ کے جوتے میں پائوں ڈال کر اپنے آپ کو بڑا ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ مصنف ’’کورا میسن‘‘ کی تحقیق کے مطابق فلسفہ کے بادشاہ ’’سقراط‘‘ نے شہر ایتھنز کے نوجوان خوبرو امیرزادے ’’ایلسی بیادیز‘‘ کو اسی نفسیاتی خوش فہمی کے بارے میں سادہ الفاظ میں سمجھایا جس کا واقعہ کچھ یوںہوا۔ ’’جب سقراط کی عمر بیس اور تیس کے درمیان تھی اور وہ شاید ابھی تک سنگ تراشی کرتا تھا۔ اگرچہ اس کا دماغ حقیقت کی جستجو کی طرف مائل ہونا شروع ہوگیا تھا۔ ایتھنا کے مندر پارتھینان کی تعمیر میں دس برس صرف ہوچکے تھے۔ اس شاندار جلوس کے نقش و نگار تھوڑے دن ہوئے مندر کی دیوار پر ثبت کئے گئے تھے جس میں بھڑکتے ہوئے گھوڑے اور صدر نشین دیوتا بہت خوشنما دکھائی دیتے تھے۔ سونے اور ہاتھی دانت سے بنا ہوا دیوی کا مجسمہ اندر نصب ہو چکا تھا۔ صرف چھجوں کا کام باقی تھا اور یہاں کی نازک سنگ تراشی صرف شہر کے ماہر فنکار ہی کرسکتے تھے۔ سقراط کی قسم کے سنگ تراش پہاڑی کے مغربی کنارے الیکروپولس کے شاندار پھاٹک کا کام کرنے کے لیے بھیج دیئے گئے تھے۔ موگری اور تیشہ سے اب سقراط کام لینا خوب جانتا تھا۔ کام کرتے وقت اسے نئی عمارت کے گردوپیش کی چہل پہل صاف دکھائی دیتی تھی۔ کہیں غلاموں کے گروہ سنگ مر مر کی سلیں اٹھائے لارہے ہیں، کہیں بڑھئی مچان کھڑی کررہے ہیں اور کہیں سنگ تراش بنیادوں اورتختوں کو ٹھیک ٹھاک کررہے ہیں۔ اُسی وقت اس نے ایک لڑکے کو ڈھلوان پر چڑھتے دیکھا۔ لڑکا کاریگروں کے ہجوم میں اپنا راستہ کاٹتا بڑھ رہا تھا۔ اُس کے پیچھے کافی فاصلے پر اُس کا ایک غلام تھا لیکن لڑکے کو گویا اس کی کوئی پروا نہیں تھی۔ اس کا سبب سقراط کو بعد میں معلوم ہوا۔ لڑکے کا چہرہ دلکش تھا اور وہ اس طرح چل رہا تھا جیسے اسے احساس ہوکہ لوگ اسے دیکھ رہے ہوں گے۔ و ہ سقراط کے
قریب آیا اور بغیر کسی جھجک کے اس کی طرف بغور دیکھنے لگا۔ لڑکے نے کہا ’’کہئے جی‘‘۔ سقراط نے نرمی سے جواب دیا ’’ہاں میاں‘‘ اور اپنے کا م میں مشغول رہا۔ لڑکے نے اسے دوبارہ مخاطب کرنے کی کوشش کی۔ ’’تمہیں معلوم بھی ہے میں کون ہوں؟ میں ایلسی بیادیز ہوں‘‘۔ اس کے شیریں تبسم نے گویا اس کے چہرے کے خدوخال کو منور کردیا تھا۔ سقراط نے گردن ہلائی اوردوسرا تیشہ اٹھا لیا۔ لڑکے نے سلسلہ کلام جاری رکھا ’’تم سقراط ہونا؟ دانشور؟ گزشتہ رات فارقلیس تمہارے متعلق باتیں کررہا تھا۔ اگرچہ کھانے کے وقت مجھے یہاں نہیں آنا چاہیے مگر میں آہی نکلا ہوں۔ اگر میں آنا چاہوں تو کوئی مجھے روک نہیں سکتا‘‘۔ دفعتاً وہ بات کرتے کرتے رک گیا۔ اس نے ایک پتھر اٹھا لیا۔ سقراط نے کسی کے چیخنے کی آواز سنی۔ گردن اٹھا کر دیکھا تو اسے سنگ مرمر کی ایک سل کے پیچھے ایک بوڑھے کاسر غائب ہوتا ہوا نظر آیا۔ پتھر اس کے کان کے قریب لگا تھا۔ امیرزادہ ایلسی بیادیز نے خوش طبعی کے انداز میں کہا ’’یہ میرا غلام زوپی رس ہے۔ فارقلیس نے اسے میرا اتالیق مقرر کیا ہے اور ہروقت میرے ساتھ رہنے کو کہا ہے۔ میں کسی غلام کی نگرانی میں رہنا پسند نہیں کرتا‘‘۔ سقراط نے تعجب سے پوچھا ’’تم کو یہ کیسے معلوم ہوا کہ وہ غلام ہے؟‘‘ امیرزادے ایلسی بیادیز نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا اور بولا ’’اس لیے کہ فارقلیس نے کہا یہ لو غلام اپنا۔ وہ میرے یا فارقلیس کے حکم پر عمل کرتا ہے۔ وہ اپنی مرضی سے کچھ بھی نہیں کرسکتا‘‘۔ سقراط نے پہلی بار امیرزادے ایلسی بیادیز کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھا اور پوچھا ’’تم کو یہ کیسے معلوم ہوا کہ تم بھی غلام نہیں ہو؟‘‘ زوپی رس چھپا ہوا تھا پھر بھی یہ بات سن کر اس نے وہیں جھک کر اپنی سانس روک لی لیکن معلوم نہیں امیرزادے ایلسی بیادیز کو کیوں غصہ نہیں آیا۔ اس نے گھور کر سقراط کی طرف دیکھا اور آہستگی سے بولا ’’تمہیں معلوم ہے کہ میں کلی آنیئیس اور ڈی آینو میکے کا بیٹا ہوں۔ میرے باپ کے چچا کو ایرانیوں کے خلاف بحری جنگ میں بہادری کا تمغہ ملا تھا۔ میرا باپ کرونیا پر چڑھائی کرنے والی فوجوں کی کمان کرتے ہوئے مارا گیا تھا۔ میری ماں فارقلیس کی بہن تھی اور میں فارقلیس کے گھر ہی رہتا ہوں۔ میں غلام کیسے ہو سکتا ہوں لیکن تمہارا شاید یہ مطلب ہی نہیں تھا‘‘۔ سقراط نے جواب دیا ’’نہیں، میرا یہ مطلب نہیں تھا‘‘۔ امیرزادے ایلسی بیادیز ایک لمحے کے لیے سوچ میں پڑگیا پھر بولا ’’تمہارا مطلب ہے کہ جو لوگ اپنی مرضی سے کام نہیں کرسکتے وہ غلام ہوتے ہیں اور تم مجھ سے پوچھ رہے ہوکہ اس طرح میں بھی غلام ہوں کہ نہیں‘‘۔ سقراط نے اشارے سے کہا ’’ہاں‘‘۔ امیرزادہ ایلسی بیادیز ہنسا۔ اس نے کہا ’’اس کا جواب آسان ہے۔ تم نے مجھے میرے غلام زوپی رس کو پتھر مارتے دیکھا ہے۔ جب میرا جی چاہتا ہے میں اسے مارسکتا ہوں۔ یوں بھی میرا جو جی چاہے وہی کرتا ہوں۔ اپنی مرضی کے خلاف میں کوئی بات کرتا ہی نہیں‘‘۔ سقراط نے کہا ’’سوچنے کی بات ہے‘‘۔ امیرزادہ ایلسی بیادیز بولا ’’میں بالکل سچ کہہ رہا ہوں۔ میرے غلام زوپی رس سے پوچھ لو۔ بعض اوقات تو میں سوچتا ہوں کہ میں ایتھنز میں سب سے زیادہ آزاد آدمی ہوں۔ یہاں تک کہ فارقلیس کو بھی ایوان کے احکامات پر عمل کرنا پڑتا ہے لیکن میں تو جو چاہتا ہوں سو کرتا ہوں۔ میں اپنے بھائی کلی آئینیئس کو بھی یہی سکھا رہا تھا کہ بھائی وہی کام کرو جو کرنا چاہو لیکن ان لوگوں نے اسے کہیں اور بھیج دیا۔ فارقلیس کہتا تھا کہ میں بھائی پر برا اثر ڈال رہا ہوں لیکن میرا یہ خیال نہیں ہے۔ میں تو اسے رہنے کا طریقہ سکھا رہا تھا۔ جب وہ چلا گیا تو میں نے سکول میں بانسری کے درس کے خلاف ہڑتال کرا دی۔ شاید تم نے کسی سے اس بارے میں سنا بھی ہو۔ آخرکار استادوں کو مجبور ہوکر ہار ماننا پڑی۔ ہاں ہاں میں اپنی مرضی کا مالک ہوں‘‘۔ سقراط پر اس کی باتوں کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ وہ اپنے کام میں مصروف ہوگیا اور بولا ’’ایلسی بیادیز میں سوچ رہا ہوں کہ کیا واقعی تم وہی کام کرتے ہو جوتم کرنا چاہتے ہو؟‘‘ سقراط کا نوجوان خوبرو امیرزادے سے مندرجہ بالا سوال ہم اپنے موجودہ حکمرانوں سے بھی کرسکتے ہیں کہ کیا واقعی تم وہی کام کرتے ہو جوتم کرنا چاہتے ہو؟ یعنی جو لوگ اپنی مرضی سے کام نہیں کرسکتے وہ غلام ہوتے ہیں۔
Prev Post
تبصرے بند ہیں.