سیاست کی بھول بھلیاں

17

اگر یہ کہا جائے کہ سیاسی منظرنامے پر موجود سیاسی جماعتوں میں سے ایک بھی ایسی نہیں جو عوام کے دکھوں کو کم کر سکے ان کے مسائل حل کر سکے تو غلط نہ ہو گا کیونکہ دیکھا جا سکتا ہے کہ اب تک جو بھی جماعت اقتدار میں آئی اس نے لوگوں کی زندگیوں کو پُر آسائش بنانے کے بجائے اذیت ناک بنایا۔ آئی ایم ایف کی شرائط پر من وعن عملدرآمد کیا عوامی خواہش کا احترام نہیں کیا گیا انہیں وہ سہولتیں نہیں دی گئیں جن کا وعدہ کیا گیا مگر شور مچایا گیا کہ وہ عوام کے لئے بہت کچھ کر رہی ہے۔ پی ٹی آئی کو ہی دیکھ لیں اس نے نے کیا کیا نہ وعدے کیے۔ مہکتی وادیوں کے خواب دکھائے۔ تبدیلی کا نعرہ لگایا سٹیٹس کو سے نجات حاصل کرنے کا ارادہ ظاہر کیا گیا انصاف سستا اور آسان مہیا کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی مگر جب وہ اقتدار میں آئی تو اس نے جو کہا اسے بھلا دیا عمران خان کے قریبی ساتھیوں میں سے بعض نے روایتی سیاست کا آغاز کر دیا یعنی وہ بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے لگے۔ بدعنوانی چپکے چپکے سے کی جانے لگی، عزیز و اقارب کو نوازنے کا سلسلہ شروع ہو گیا، بھاری تنخواہوں پر رشتے داروں کو مختلف محکموں میں کھپایا جانے لگا، غریب بے بس عوام پر ٹیکسوں کی یلغار کر دی گئی، مہنگائی شتر بے مہار ہو گئی، مافیاز آزاد تھے انہیں کوئی روکنے والا نہیں تھا ایسا لگ رہا تھا کہ ملک میں کوئی قانون نہیں جس کا جو جی چاہے وہ کر سکتا ہے۔ یہ سب دیکھ کر عوام میں خوف ناک مایوسی پھیل گئی مگر حیرت یہ ہے کہ دو تین سال تک حزب اختلاف نے اپنے آنکھیں کان بند کیے رکھے اس نے کوئی تحریک نہیں چلائی نہ ہی بیانات جاری ہوئے شاید اسے اپنی پڑی ہوئی تھی کیونکہ اس کے خلاف نیب وغیرہ میں کیس کھل گئے تھے پکڑدھکڑ ہو رہی تھی مگر جب آئی ایم ایف کی ہر بات مان لی گئی اور اس حوالے سے قانون سازی ہو گئی تو اسے احساس ہوا کہ عوام کے ساتھ ظلم ہو رہا ہے لہذا اس نے طوعاً و کرہاً رولا ڈالنے کا پروگرام بنایا، پھر باقاعدہ ایک مہم شروع کر دی گئی مگر جونہی وہ اقتدار میں آئی تو مہنگائی بے روزگاری اور ٹیکسوں کو بھول گئی۔ اب وہ بھی احتساب کرنے چل پڑی ہے یقیناً ایسا ہونا چاہئے کیونکہ صوبہ پنجاب کی حکومت نے مبینہ طور سے بہت مال بنایا ہے ہم نے پی ٹی آئی کی حکومت کے دنوں میں بھی عرض کیا تھا کہ جب یہ
عوام کی جان چھوڑے گی تو اس کے بڑے بڑے سکینڈل سامنے آئیں گے، سو وہ آنے لگے ہیں اور یوں کھربوں کی ہیرا پھیریاں ہوئی ہیں، بے ضابطگیاں بھی ہوئی ہیں لہٰذا موجودہ حکومت اس کی کرپشن کی کہانی عام کرنے جا رہی ہے جس سے بخوبی اندازہ ہو جائے گا کہ عمران خان جو کہتے تھے اس پر عمل نہیں کر سکے یعنی نمک کی کان میں نمک ہو گئے۔ اب جو انہوں نے امریکہ مخالف پروگرام ترتیب دیا ہے اور اپنی مقبولیت کو عروج تک پہنچایا ہے یہ لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنا ہے ہم نے اپنے پچھلے کالم میں بھی یہ لکھا تھا کہ انہوں نے ذہنوں میں ایک نئی بات ڈالی ہے جس کا مقصد عوامی فلاح و خدمت نہیں صرف اقتدار دوبارہ حاصل کرنا ہے۔ اقتدار حاصل کرنا ان کا حق ہے مگر وہ یہ بھی تو بتائیں کہ ان کے ہاتھ کوئی الہ دین کا چراغ لگ گیا ہے کہ جس سے وہ تمام مسائل حل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے، ایسا کچھ نہیں ہے وہ پہلے بھی جذباتی سیاست کے ذریعے اقتدار میں آئے تھے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی آئندہ بھی ایسا ہی ہوگا کیونکہ وہ حکومت چلے جانے کا رونا رو رہے ہیں عوامی تکالیف کا نہیں یہ درست ہے کہ ہمیں امریکہ کی غلامی نہیں چاہیے کہ اس کی ڈکٹیشن لیتے لیتے آج ہم آئی ایم ایف کی دی گئی لائن اختیار کرنے پر مجبور ہیں کہ اگر اس کو مطمن نہیں کیا جاتا تو وہ قرضوں کی ترسیل روک دے گا، نتیجے کے طور سے ہماری معیشت کی گاڑی کی رفتار سست پڑ جائے گی۔ اسی امریکہ نے ہمارے شہ دماغوں کو ہم سے جدا کر دیا لہٰذا اس کی آشیرباد کی کوئی ضرورت نہیں۔ ہمیں جو کرنا ہے اپنی مرضی سے کرنا ہے مگر اس اقدام سے کیا کرنا ہے ابھی تک واضح طور سے اس کے خدوخال دکھائی نہیں دیے بہرحال ملک میں ایک ہیجانی کی کیفیت پائی جاتی ہے بجلی گیس اور پٹرول کے دام بڑھائے جانے کی خبریں ہیں وہ تو ایک طرف بجلی اور ڈیزل کے بحران نے ایک اعصاب شکن صورتحال کو جنم دیا ہے۔ اس بارے کچھ سمجھ نہیں آ رہی کہ ایسا کیوں ہے بجلی اور ڈیزل کہاں چلے گئے جن لوگوں نے حکومت کی تبدیلی پر خوشی کا اظہار کیا تھا وہ بھی حیران ہیں کہ یہ کیسی عجیب بات ہے کہ یونہی نئی حکومت آئی ہے مسائل گمبھیر ہو گئے ہیں۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ عمران خان کی حکومت بھی ہوتی تو صورتحال ایسی ہی پیدا ہونا تھی، اس کا اندازہ خود حکومت کو بھی تھا۔ سوال یہ ہے کے اس نے کہ اقتدار میں آنا کیوں ضروری سمجھا اس کا جواب یہی ہو سکتا ہے کیونکہ پی ٹی آئی کی حکومت نے اس کو ای سی ایل کی فہرست میں ڈال رکھا تھا جائز ناجائز مقدمات بنا رکھے تھے ان سے چھٹکارا حاصل کرنا تھا اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ وہ مسائل سے لاتعلقی یا ان میں دلچسپی نہیں رکھتی مگر انہیں حل کرنے میں کچھ وقت لگے گا۔ پھر یہاں دوسرا سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس دوران عوام اس کے خلاف نہیں ہو جائیں گے بلا شبہ اسے ایک ریلیف مل گیا ہے مگر لوگوں کو بھی تو کوئی بڑا ریلیف ملنا چاہیے۔ لگتا ہے آئی ایم ایف کی پالیسیاں اسے متاثر کریں گے کیونکہ وہ عوام کے مفاد کو نہیں دیکھتا اپنے مفاد کو دیکھتا ہے لہٰذا ہم نے جو آغاز میں ہی عرض کیا ہے کہ کوئی ایک جماعت بھی ایسی نہیں جو عوام کے دکھوں کو کم کر سکے تو پھر کیا ہونا چاہیے اس حوالے سے یہ کہا جائے گا کہ جب تک یہ نظام نہیں تبدیل کیا جاتا اس وقت تک کوئی بھی حکومت بگڑے ہوئے معاملات کو ٹھیک نہیں کر سکتی۔ لہٰذا اگر حکمران طبقات غریب عوام سے مخلص ہیں تو انہیں فی الفور آپس میں مل بیٹھنا ہو گا اور کسی نتیجے پر پہنچنا ہو گا اپنی خارجہ پالیسی جو تھوڑی بہت تبدیلی ہوئی ہے اسے مستحکم کرنا ہو گا اس کے بغیر حکومت کرنے کا کوئی فائدہ نہیں کیوں کہ جب کسی کی حکومت کچھ کرنے بھی جا رہی ہوتی ہے تو وہ اچانک ایک الجھن کا شکار ہو جاتی ہے جس سے اس کے اقدامات نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو پاتے۔ حرف آخر یہ کہ عمران خان نے نجانے کیوں پونے چار برس تک ایک ہی رٹ لگائے رکھی کہ این آر او نہیں دوں گا جس کا انہیں کوئی فائدہ نہیں ہوا اور ان کے اپنے ساتھیوں نے اس کا مذاق اڑایا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ خان صاحب اپنی توجہ تعمیر و ترقی کے کاموں پر مرکوز کرتے احتساب کے عمل کو متعلقہ اداروں کے سپرد کرتے مگر وہ ایسا نہ کر سکے اور نہ ہی عوام کو سکھ دے سکے یہ جو انہیں نئی نئی مقبولیت ملی ہے عارضی ہے آہستہ آہستہ ان کے لوگوں کے جذبات ٹھنڈے ہوتے جائیں گے کیونکہ انہیں جب یہ یاد آئے گا کہ وہ حکومت میں آنے سے پہلے بھی جو کہہ رہے تھے اس پر عمل نہیں ہوا آگے بھی کچھ نہیں ہونے والا کیونکہ جب تک یہ نظام نہیں بدل جاتا مسائل و مشکلات کا طوفان نہیں تھمے گا۔

تبصرے بند ہیں.