دراصل عمران خان کی حکومت ایک سکرپٹڈ اور سلیکٹڈ حکومت تھی اگر عمران خان یہ یاد رکھتے تو شاید ایسے بھیانک انجام سے دوچار نہ ہوتے۔ ایک میگا پروڈکشن کے لیے جو سکرپٹ تیار کیا گیا اس میں عمران خان وزیراعظم سلیکٹ کیا گیا مگر موصوف نے سوائے کھانے پینے سونے دشنام الزام انتقام کے تمام کام لانے والوں کے کندھوں کا بوجھ بنا دیئے. پھر اس کے بعد سکرپٹ کا اگلا منظر سابقہ وزیراعظم اسمبلی تحلیل کرتا اور پھر بریکنگ نیوز آتی ہے کہ اسمبلی تحلیل ہو گئی۔ بہر حال اس سارے سکرپٹ کو عدالت عظمیٰ غیر آئینی غیر قانونی قرار دے چکی حالانکہ ان کی کوشش تھی کہ معاملات آگے بڑھائے جائیں مگر آئین میں کسی دوسرے فیصلے کی گنجائش نہیں تھی اور نہ ہی آگے بڑھنے کے لیے عمران حکومت نے ملک کو چھوڑا تھا۔ 1971 اور پرویز مشرف کے جانے کے بعد جو ملک تھا آج ایسی ہی ملک کی حالت کر دی گئی ہے۔ ’’عمران دی جلسے وچ نچنے نوں جی کردا‘‘ والے لوگ اور تھے جب حکومت بنی تو بابر اعوان، شیخ رشید، شہباز گل آ گئے جن کا پارٹی ورکر سے کوئی تعلق نہ تھا۔ جناب علیم خان، جنہوں نے کاروبار سے کمایا اور سیاست پر لگایا، نے اربوں خرچ کیے مگر نیازی کے دور میں جیل دیکھی۔ جہانگیر ترین نے مال، پیسہ، وقت، سیاست سب کچھ قربان کیا، گھر والوں پر بھی مقدمے بنے اور کوئے یار میں داخلہ ممنوع ہو گیا۔ بنی گالہ پاکستان کا پینٹا گان بن گیا۔ گیم چینجر آصف علی زرداری تھے، گوادر معاہدہ، سی پیک ایم او یو، ایران سے گیس پائپ لائن معاہدہ کیا۔ آزاد خارجہ پالیسی نہ تھی، چین کے درجنوں دورے کیے پوٹن سے ملاقاتیں کیں کیا وہ آزاد خارجہ پالیسی نہ تھی۔ 2014 میں چین کے صدر کے دورے پر دھرنا دیئے رکھنا اور دورہ منسوخ کرا دینا کیا عالمی سازش کا آلہ کار بننا نہیں تھا۔ بیانیہ کسی بنیاد پر بنایا جا سکتا ہے محض گفتگو روڈ کے چیئرمین بن کر باتوں سے ارطغرل اور گریٹ بھٹو نہیں بنا جا سکتا۔ یاد آیا دوران سماعت چیف جسٹس نے بلاول بھٹو جب روسٹرم پر آئے تو ان کی تعریف کی۔ ’’سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ڈپٹی سپیکر رولنگ کے خلاف ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران بلاول بھٹو کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ آپ کا شکریہ آپ نے ٹو دی پوائنٹ بات کی، آپ واحد ہیں جن کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ سماعت کے دوران بلاول بھٹو زرداری نے روسٹرم پر آ کر اپنے بیان میں کہا کہ الیکشن ریفارمز کے ہونے چاہئیں، اگر اسی طرح رہا تو یہ گزشتہ الیکشن کی طرح متنازع رہے گا، ڈپٹی سپیکر کی غیر قانونی رولنگ نے جمہوریت پر سوال اٹھا دیئے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہمیں آئین پر سختی سے عمل کرتے ہوئے فیصلہ جاری کرنے دیں، معلوم ہے بلاول بھٹو زرداری کی تین نسلوں نے جمہوریت کی بقا کے لیے قربانی دی ہے۔ عدالت کے ریمارکس نے بلاول بھٹو کے خاندان کی تین نسلوں کی جدو جہد اور قربانیوں کا ذکر کر کے گریٹ بھٹو کو مقدمہ قتل سے بری کر دیا۔ ان کی شہادت کو وطن کے لیے قربانی کا درجہ دیا گیا۔ یہ وہی سپریم کورٹ ہے جہاں قائد عوام کو ایک جج کی اکثریت سے پھانسی کی سزا کی توثیق کی گئی آج وہ عدالت قربانی تسلیم کر رہی ہے، وقت ایک سا نہیں رہتا۔ بہرحال سپریم کورٹ کا فیصلہ آ گیا۔ آگے نئے حکمرانوں کا کڑا امتحان ہے کیونکہ انہیں برباد ترین معیشت، معاشرت اور ملک ملے گا۔ رہی بات عمران خان کے تکبر کے زوال کی وہ تو اسی دن ہی شروع ہو گیا تھا جب لوگ ان کے جھوٹ پر اعتبار کر رہے تھے۔ آئندہ مقتدرہ کو ہاتھ باندھ کر عرض کیے دیتے ہیں کہ اگر کسی کو
سلیکٹ کرنے کی نوبت آ جائے تو ذہنی معائنہ اور ماہر نفسیات کی رائے ضرور لے لیا کریں۔ اللہ نے عمران خان کو موقع دیا تھا یہ لوگوں کی بھلائی سوچتے مگر انہوں نے حملہ آوروں کی طرح حکومت کی اچانک پٹرول، گیس، ادویات کی قیمتیں بڑھا دی جاتیں۔ لوگوں کا جینا کیا مرنا محال کر دیا۔ ملک کا ہر شعبہ اخلاقی طور پر کنگال کر دیا۔ نفرت کی سیاست کی، دھرنے میں ملک پر یلغار تو چھوڑیں بل جلانے پر مجبور ہوئے۔ اب حکومت تحلیل کرنے کے بعد اپنے عبوری ایک ہفتے میں موصوف حکم دے رہے ہیں فلاں جگہ جاؤ، حملہ کر دو، گھروں پر، ہوٹلوں پر
حملے کر دو۔ عمران خان صاحب! تب سیاں کوتوال تھے۔ اور اب پچھتائے کیا ہووت جب چڑیا چگ گئیں کھیت۔ عمران خان نے سوچا میں خطرناک ہو جاؤں گا مگر قدرت نے عبرتناک بنا دیا۔ کوئی بیرونی سازش تھی نہ ہو سکتی تھی یہ اپنے خلاف خود بہت بڑی سازش تھے ان کے حواری ان کی سپاری پکڑ چکے تھے۔ ان کے دور میں کھڑکی توڑ کرپشن کی گئی۔ ٹک ٹاکر لڑکیاں اور بازار کی مصنوعات معتبر بن گئی۔ عمران خان کی حکومت اسی دن ہی یوٹرن لے گئی تھی جس دن ترین کو بدترین ثابت کرنے کی کوشش کی گئی اور بے توقیر کر دیا گیا مگر جس دن جناب علیم خان نے استعفیٰ دیا تھا میں نے 30 نومبر 2021 کو کالم لکھ دیا تھا ’’علیم خان کا استعفیٰ! حکومت کی آخری رسومات‘‘۔ شہبازشریف نے ٹھیک کہا ہے کہ عمران جھوٹا اور ایبسولوٹلی فراڈیا ہے مگر مخالف ہونے کے ناتے لوگ اس بات سے شاید ابھی اختلاف کریں مگر علیم خان کی پریس کا نفرنس جس پر میں نے کالم دینا تھا کا ذکر نہ کرنا سیاسی حالات پر تجزیہ ادھورا رہے گا۔
جنا ب علیم خان کی پریس کانفرنس وطن عزیز کے لوگوں کو اتنی پسند آئی کہ چھوٹے چھوٹے کلپ شیئر کیے گئے۔ کہتے ہیں خان صاحب! میں نے آپ کو کرپشن کے متعلق بتا دیا تھا۔ تین کروڑ ڈی سی کا ریٹ تھا، انہوں نے تما تعیناتیوں کے ریٹ بتائے۔ ہر ایک سے منی ٹریل مانگنے والے کو کرپشن کی ٹریل بنی گالہ تک بتا دی اور یہ بھی بتایا کہ اس میں ایک ڈی جی آئی ایس آئی کو ایسی رپورٹ دینے پر تبدیل کر دیا گیا گویا بنی گالہ میں پاکستان کا قانون لاگو نہیں ہوتا تھا۔ علیم خان نے عمران خان کو چیلنج کیا کہ میرے سامنے آنا اگر میں جھوٹا ہوں تو پوری قوم کے سامنے اپنے آپ کو گولی مار لوں گا اور اگر تم جھوٹے ہو تو ہمت کرنا۔ دراصل سچ بڑا بے باک، نڈر، بے دید ہوا کرتا ہے۔ یہ آنکھیں پھاڑ کر سامنے کھڑا ہو جاتا ہے۔ جناب علیم خان کی کریڈیبلٹی ہے، عامر لیاقت حسین نے جو عمران خان کے ساتھ کی وہ کافی تھی۔ اس بات کی خبر دینے کے لیے آسمان پر حکومت کی بربادیوں کے مشورے ہو چکے ہیں۔ اللہ کریم عمران خان کو زندگی دے، اللہ کا شکر ہے کہ وہ وزیراعظم بن گئے۔ اگر ٹرک سے جب گرے تھے اور کچھ ہو جاتا تو قوم سوچتی کہ قائد اعظم کے بعد بھٹو لیڈر ملا تھا، سازش سے مار دیا گیا۔ جب عمران خان نے سیاسی پارٹی بنائی ، مجھے یاد ہے ٹی وی پر کرکٹر ظہیر عباس کا انٹرویو آیا۔ ان سے پوچھا گیا کہ آپ 10/12 سال روم میٹ رہے ہیں، اکٹھے رہے ہیں، آپ کی رائے کیا ہے۔ ظہیر عباس نے مسکراتے ہوئے کہا، ’’جو میری آنکھوں نے دیکھا وہ دنیا میں کسی نے نہیں دیکھا‘‘۔ یہ انٹرویوں آپ بھی پی ٹی وی کے پاس ہو گا۔ بین الاقوامی سازش بھی امریکہ کے خلاف درخواست ہے جیسے لوگ جھوٹی درخواست دے کر فلاں سے میری جان کو خطرہ ہے مطمئن ہو جاتے ہیں کہ اب وہ مارے گا نہیں، حفاظت کرے گا۔ عالمی سازش ان کے خلاف نہیں یہ امریکہ کے خلاف سازش کا حصہ بن رہے ہیں۔ علیم خان نے عمران خان کو آئینہ دکھاتے ہوئے کہا کہ جو آپ کے ساتھ ہے وہ محب وطن اور جو خلاف ہے وہ غدار، آپ کیا پاکستان کے مامے ہیں؟ تقریباً یہی کچھ عدالت عظمیٰ کا فیصلہ ہے جب میں نے لکھا تھا ’’علیم خان کا استعفیٰ! حکومت کی آخری رسومات‘‘ تب تو کسی بیرونی دورے کا ذکر تک نہ تھا۔ یہ بھی لوگوں کو بھول ہے کہ پی ٹی آئی استعفے دے گی، وہ کبھی نہیں دیں گے کیونکہ دوبارہ اسمبلی میں آنے کے لیے ن، پیپلز پارٹی یا مولانا کا ٹکٹ درکار ہو گا۔ بالآخر تاریک ترین دور ختم ہوا اور علیم خان نے کہہ ہی دیا کہ آپ پاکستان کے مامے ہیں؟؟؟
تبصرے بند ہیں.