وینس کے سوداگرسے تو بچوں کے ایک رسالے نے بچپن ہی میں واقف کرا دیاتھا لیکن اب وینس کے مسافرکا انتظارتھا۔میںخود وینس نہ جاسکا تو ایک پاکستانی نوجوان کے ساتھ حذیفہ کووینس بھجوادیاکہ میری علالت کا خمیازہ وہ کیوں بھگتے لیکن اب اس کی واپسی میں تاخیرہورہی تھی، جس سے پریشانی تھی۔ طبیعت کی خرابی کا وہی عالم تھا کہ جو تھا ۔بریشیامیں آنے والوں اورملنے والوں میں سے جس نے جو دوابھی تجویزکی تھی اب تک وہ تمام دوائیں آزما کردیکھ چکاتھا ۔ حذیفہ، وینس سے لوٹ کربہت دیرسے آیاپھر اس کی رودادِسفرسنی ۔وہ وینس ہی نہیں ویرونا سے بھی ہوآیاتھا۔اس نے رومیوجیولٹ کا مقام بھی دیکھ لیاتھا اور پانیوں میں سانس لیتاہوا وینس بھی ۔ویرونااور وینس میں اس کی سیاحت کی رودادسن کراورتصویریں دیکھ دیکھ کرمیںنے بستر علالت پر لیٹے لیٹے ان دونوشہروں کی سیرکرلی۔میں اس کے ساتھ وینس کے گنڈولوں میں بیٹھ کر جانے کہاں کہاں گھوما ،وہاں جہاںپورانگرپانی میں سانس لے رہاتھا۔گلیاں ،بازار،محلے ،شاہراہیں ،قدیم گرجے،تاریخی عمارتیں،سیرگاہیں، وینس کے پُل ہرجانب پانی ہی پانی تھا،پانی جو بنیادحیات ہے ،زندگی خودایک جو ئے رواں ہے جوبہ قول اقبال مے کہنہ کی طرح جواں ہے اوراسی طرح جواں رہے گی۔میرصاحب نے پانی کی روانی میں انکسارکا پہلو دریافت کیاتھا’’ دیکھ سیلاب اس بیاباں کا+ کیسا سرکو جھکائے آتاہے‘‘ لیکن فارسی شاعر نے اس عاجزی میں کمال کا تخریبی پہلو دریافت کیا جس نے کہاکہ ’’پای ِبوس ِسیل بر می افکنددیواررا‘‘ …پانی جب آکر دیوارکے قدموں کو بوسہ دیتاہے تو اس کی بنیاد ڈھا دیتا ہے (اس لیے قدم بوسی کرنے والوں سے بچیں) …’یہ پانی خامشی سے بہہ رہاہے +اسے دیکھیں کہ اس میں ڈوب جائیں ‘‘صوفیاکاقول یاد آیا…لون الماء لون انائہ …پانی کا رنگ ہی برتن کا رنگ ہوتاہے…
دورتک پھیلاہوا پانی ہی پانی ہر طرف
اب کے بادل نے بہت کی مہربانی ہر طرف
کیا حسیں منظر ہے بلکہ مناظرہیں اور کیسی اداسی بلکہ علالت کا سامناہے…اور پھرویرونا میں رومیو جیولٹ کا مقام…یورپ والے بھی کیسے باذوق ہیں افسانوی کرداروں کی بھی یادگاریں بنالیتے ہیں ۔لندن کے Sherlock Holmes Museum ہی کو دیکھ لیں شرلک ہومزکوئی حقیقی کردارنہیں محض آرتھرکوننڈائل (۱۸۵۹ء…۱۹۳۰ء)کے ذہن کی تخلیق تھا لیکن بنانے والوں نے اس کی یادمیں پورامیوزیم بناڈالاظاہرہے یہ محض فکشن ہے، زیادہ سے زیادہ آپ تلمیح کہہ سکتے ہیں ۔ایک اہل مشرق ہیں کہ جو تاریخ عالم پر اپنا نقش ثبت کرگئے ان کی حقیقی یادگاروں کی بھی پروانہیں کرتے ۔مجھے ابن خلدون یادآیا ،مصر میں جس کا حقیقی مدفن بھی مٹادیاگیا۔مجھ ایسا اس کا مداح سارے قاہرہ میں اس کا نشان ڈھونڈتاپھرالیکن جو نشان مٹایاجاچکاہو وہ کسی مداح کو کیسے مل سکتاتھا …؟ وینس کا پانی ویروناکے رومیو جیولٹ سے جاملا …
وہ شوخ پانی میں پائوں بھگوئے بیٹھاتھا
زراسی دیرمیں رنگوں سے بھرگیاپانی
وینس اور ویرونا کو اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ سکا تو کیاہوا حذیفہ کی آنکھوں سے دیکھ لیا…بچے، باپ کی ہستی کی توسیع ہی تو ہوتے ہیں …حذیفہ کو خوش دیکھ کر خوشی ہوئی کہ میںنے اپنی علالت سے اس کی سیرکا کوئی نقصان نہیں ہونے دیا…
وہ بریشیامیں ہماراآخری دن تھا، صبح چار بجے بیدارہوا، بخاربدستورتھاکچھ معمولات کے بعد دوبا رہ لیٹ گیااورپھر چھ بجے آنکھ کھلی ۔ فجرکا فریضہ اداکیااور پھر سورہا۔اب کے نو بجے صبح آنکھ کھلی ۔خیال تھاکہ رات جو اینٹی بائیوٹک شروع کی تھی اس کے نتیجے میں اب طبیعت ٹھیک ہوجائے گی لیکن جب سے یہاں آیاتھارات کے اوقات میں طبیعت، زیادہ خراب ہوجاتی رہی ،ایسا غالباً منہ سے سانس لینے سے ہوتاہے ،صبح اٹھ کر طبیعت کی بحالی کے لیے وہ سب کچھ کیاجو ممکن تھا لیکن گلے کا گِلہ دورنہ ہوا،وہ کانٹوں سے بھراپڑاتھا ۔باغ اطالیہ میں علالت کے پھول سمیٹتے سمیٹتے یہاں سے کوچ کادن آن پہنچاتھا۔ہماری فلائٹ کاوقت رات کے آٹھ بجے تھالیکن خرم نے یہ بتاکر طبیعت بوجھل کردی کہ ہمیں دن کے ایک بجے بریشیاسے رخصت ہونا ہوگا۔انھوںنے جس گاڑی والے سے بات کی، اس نے کسی ایسی سواری کو بھی لے کر جاناہے جس کی فلائٹ ہم سے بہت پہلے ہے اوروہ ایک ہی ہلے میں دونو سواریوں کو بھگتانا چاہتاہے ۔’’دست بدست دگری و پابدست دگری ‘‘کی کیفیت تھی چنانچہ اسی پروگرام پر سمجھوتہ کرنا پڑا۔اس پروگرام میں ایک خیال البتہ خوش کن تھا کہ اس بہانے سے ہم میلان بھی دیکھ لیں گے۔
چندبرس پہلے میلان سے پروفیسرویٹو سالرینو نے مجھے ایک خط لکھاتھا۔اس سے پہلے جب میں نے ماریشس میں فکراقبال پر خطبات دیے تو انھوںنے مجھے اس پر مبارک بادکا پیغام بھیجاتھا ۔افسوس کہ اب ویٹوسالرینواس دنیامیں نہیں ہیں ورنہ توان سے رابطہ کرتا اور ممکن ہوتاتوان سے ملاقات بھی کی جاتی لیکن اب یہ ممکن نہ تھا، ان کا خط البتہ یاد آیا ؛
اقبال فائونڈیشن یورپ
صدرپروفیسرڈاکٹرویٹو سالرینو(ستارئہ قائداعظم)
میلانو،اٹلی ۴نومبر ۲۰۱۱ء
مائی ڈیرڈاکٹرعامر۔آپ کے مضمون کا شکریہ ۔ اقبال فائونڈیشن کا مقصد علامہ اقبال کے افکارکو یورپ(ماسوائے برطانیہ) میں پھیلاناہے ۔اٹلی میں، میں نے روم یونی ورسٹی میں ایک لیکچرکا اہتمام کیا ہے۔ ایک لیکچرکا اہتمام ٹیورن یونی ورسٹی میں کیاگیاہے اور میلانومیں ۲۰۰۹ء سے سالانہ اجلاس کاانعقادکیاجارہاہے ۔اگلا اجلاس ۲۳نومبرکو ہوگا جس کا موضوع ’’علامہ اقبال اور تشکیل پاکستان‘‘ہوگا۔۱۸اپریل کو میلان میں ایک بین الاقوامی کانفرنس ہوگی جس سے دوپاکستانی اور دواطالوی مقررین خطاب کریں گے ۔میںنے بانگ دراکااردوسے اطالوی زبان میں ترجمہ کیاہے جو اقبال اکادمی پاکستان سے شائع ہوچکاہے اور بال جبریل کا ترجمہ بھی کیاہے جو لاہورمیںزیراشاعت ہے ۔آپ کے لیے اپنی ایک کتاب ’’پاکستان کے لیے محبت کے ساتھ‘‘منسلک کررہاہوں جو کسی حد تک پاکستان کے بارے میں میرے کاموں سے متعلق ایک یادداشت کی حیثیت رکھتی ہے اسی کتاب میں آپ میری کتابیات بھی ملاحظہ کرسکتے ہیں ۔
خلوص کے ساتھ
ویٹوسالرینو
اس خط کے ساتھ انھوںنے اپنی مذکورہ کتاب بھی بھیجی تھی ۔اب ان کے دیس آیاتو اس عالم میں کہ ان سے ملاقات کی کوئی سبیل باقی نہیں رہی تھی ۔بہ ہر حال بارہ بج چکے توچمکتی ریش کے ساتھ پگڑی باندھے اور جینز پہنے ڈرائیورسے ملاقات ہوئی اس کانام’’ سنی ‘‘تھا۔یہ اردوالا سنّی نہیں بلکہ انگریزی والا sunnyتھا۔سکھ ہونے کے باعث اسے سردارسنی بھی کہاجاسکتاتھا۔وہ صرف سکھ ہی نہیں بلکہ مشرقی پنجاب کے شہر پٹیالہ سے تعلق رکھنے والا سکھ تھا ۔میںنے اسے بتایاکہ میرے والدین پٹیالہ ہی سے ہجرت کرکے پاکستان آئے تھے اور یہ کہ میں نے اپنی ایک کتاب میں پٹیالہ کے بارے میں ایک باب لکھاہے تو وہ یہ جان کربہت خوش ہو ا۔وہ ایک خوش مزاج اور خوش گوار سکھ تھا۔ حذیفہ صاحب راستہ بھر اس کے ساتھ پنجابی میں گفتگوکرتے رہے ۔ حذیفہ کی پنجابی سن کر مجھے یہ خیال آتارہاکہ پنجاب والوں کوپنجابی پر جیسی دسترس ہونی چاہیے ویسی نہیں ہے۔ نسل نو کوتو ویسی بھی نہیں ہے جیسی کچھ ہمیں حاصل رہی۔ حذیفہ کے ابانے تو اپنے دور طالب علمی میں پنجابی میں نثر ہی نہیں لکھی ،غزل بھی کہہ ڈالی تھی بلکہ حالیہ دورئہ یونان میں اس سے پنجابی کلام سنانے کی فرمائش کی گئی تو اسی زمانے کاکلام یاد آیا ۔بہ ہر حال بریشیا سے میلان کوئی دوگھنٹے کا سفرتھا ۔میلانو جانے کے لیے بریشیا سے پہلے ’’گلراتے‘‘ آئے۔میںنے سنی سے کہاکہ ہمارے پاس کئی گھنٹے ہیںاس دورانیے میں میں میلان شہردیکھناچاہتاہوں، فلائٹ کا وقت ہونے پر ہم ایرپورٹ پہنچ جائیں گے۔ وہ ہمیں گلراتے سے گاڑی ہی میں میلان شہر دکھاتا ہوا ایرپورٹ لے گیا۔جب میںنے سنی سے سابق الذکر شہر کانام پوچھااوراس نے دوباراس کانام دہرایا تو میں نے اسے یاد رکھنے کے لیے کہا ’’گلراتے‘‘ …جیسے ہم’’ جگراتے ‘‘کہتے ہیں تو وہ خوب ہنسا۔ گلراتے سے میلانو پہنچے تو ہم نے میلانو شہرکی زیارت کی۔ اس کی بلندوبالا عمارتیں، فلک رس رہائشی ٹاور،جدید تمدن کے مظاہر ’’ہموار سڑکیں، راہیں مصفا‘‘…وغیرہ وغیرہ۔ بریشیا سے میلانو دوگھنٹے کا سفرتھا، میلانو کے کوچہ و بازار سے گزرتے ہوئے میلانویامیلان کو خوب دیکھا، میرے لیے میلان بھی ایک جدیدافسانوی کردارکی طرح تھا ،ایساافسانوی کردارجو حقیقت میں بھی موجودہے ۔یہاں پہنچ کر بہت سی باتوں نے درِاحساس پر دستک دینا شروع کر دی۔
Next Post
تبصرے بند ہیں.