اللہ پاک کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ہماری زندگیوں میں ایک بار پھر رحمتوں اور برکتوں کا وہ مہینہ جو تمام مہینوں کا سردار ہے سایہ فگن ہونے کو ہے۔ رمضان جو نیکیوں کا موسم بہار ہے اور ایک نیکی کے عوض اللہ پاک اس کا اجر ستر گنا بڑھا کر دیتا ہے۔ رمضان قرآن کا مہینہ ہے اور اس عظیم الشان کتاب کا نزول ہوا جس نے دنیا میں ایک انقلاب برپا کیا۔ اس ماہ مبارک مہینے کی 27ویں شب کو مدینے کے بعد دوسری اسلامی ریاست وجود میں آئی۔ پاکستان جو ماہ رمضان المبارک میں اسلام کے نام وجود میں آیا اور قرآن وسنت کے عملی نظام کے نفاذ کا اللہ سے عہد کیا گیا تھا۔
رمضان کی آمد سے قبل ہی قلبی روحانیت محسوس ہونے لگتی ہے اور دل میں کچھ اس طرح کی اضطرابی کیفیت پیدا ہونے لگتی ہے جیسے مدتوں سے کسی اپنے بہت پیارے مہمان کا انتظار ہو۔دنیا بھر میں بسنے والے مسلمان ممالک نہ صرف رمضان کا احترام اور اہتمام کرتے ہیں بلکہ غیر مسلم ممالک بھی اس ماہ مقدس کے احترام میں اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں کمی کر دیتے ہیں۔ خصوصی رمضان ڈسکاؤنٹ پیکیج متعارف کرائے جاتے ہیں۔ مسلم بھائیوں کے لئے بڑے بڑے افطار دستر اخوان سجائے جاتے ہیں۔لیکن بدقسمتی سے عالم اسلامی کی واحد ایٹمی قوت اور اسلام کے نام پر معرض وجود میں آنے والی مملکت خداداد پاکستان میں رمضان جیسے با برکت اور رحمت کے مہینے کو باعث زحمت بنا دیا جاتا ہے۔
رمضان المبارک کے مہینے میں اللہ تعالیٰ
شیطان کو قید کر دیتے ہیں لیکن شیطان کے چیلے سرگرم ہوجاتے ہیں۔ کسی کو کوئی ڈر اور خوف نہیں ہوتا۔ علماء کرام بڑے زور وشور کے ساتھ اس بات کی نوید اور خوشخبری سناتے ہیں کہ رمضان المبارک میں ایک اجر کا ثواب 70گنا بڑھ کر ملتا ہے لیکن انہیں یہ بھی چاہیے کہ وہ عوام کو یہ بات بھی بتائیں کہ رمضان میں منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی، ملاوٹ کا بھی 70گنا بڑھ کر گناہ ملتا ہے اور منافع خوروں انجام جہنم ہوگا۔ رمضان کی برکات کو سمیٹنے کے لیے ہم سب نے غلط راستہ اختیار کیا ہوا ہے اور لوگ رمضان کو سیزن کا نام دے کر لوٹ مار کا بازار قائم کرتے ہیں۔
ہمارے ہاں رمضان کی آمد کے ساتھ ہی عوام میں تشویش کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ حکومت لاکھ دعوے کرے مگر ضرورت اشیاء کی قیمتیں رمضان المبارک کے شروع ہوتے ہی آسمان پر پہنچ جائیں گی۔ یوٹیلیٹی سٹوربہت کم لوگوں کی ان تک رسائی ہوتی ہے۔ وہ روزے کی حالت میں لمبی لمبی قطاروں میں کھڑے رہتے ہیں اور آخر میں پتہ چلتا ہے کہ ان کی مطلوبہ اشیاء ختم ہو گئی ہیں۔ آئے دن ہم ان سٹوروں کے سکینڈلز کی خبریں بھی سنتے رہتے ہیں۔ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ یہاں ملنے والی اشیاء انتہائی غیر معیاری ہوتی ہیں۔ سو عام آدمی گراں فروشوں کے رحم و کرم پر رہتا ہے۔ جو من مانے نرخوں پر اشیاء بیچتے اور منافع کماتے ہیں۔
حکومت رمضان بازار کے نام سے عوام کے لیے سہولت فراہم کرنے اعلان کرتی ہے مگر افسوس کہ وہ اس بابرکت ماہ میں بھی عوام سے ہاتھ کرجاتی ہے جو اشیا رمضان بازار میں ریلیف کے نام فروخت کی جاتی ہیں ان کا معیار اتنا گھٹیا ہوتا ہے کہ آدمی ان کو خریدنا بھی پسند نہیں کرتا ہے۔ پچھلے سال میں نے خود رمضان بازار کا وزٹ کیا ۔ میں نے دیکھا جو چینی بالکل باریک تھی وہ سستے داموں فروخت کی جارہی تھی جو چینی اس سے موٹی تھی وہ دوکلوایک شناختی کارڈ پر دی جارہی تھی۔ کھجوروں کا معیار اتنا برا ہے کہ کوئی دیکھنا نہیں پسند کرتا۔اگر میں ایک ایک چیز کی تفصیل لکھنا شروع کردوں تو صفحات بھر جائیں گے مگر اشیاء ختم نہیں ہونگی۔
ہم لوگ کتنے بدقسمت ہیں کہ رمضان جیسے مقدس مہینے میں بھی اپنے رب کی رحمتوں کو سمیٹنے کے بجائے الٹا اس کے عذاب کو دعوت دیتے ہیں۔ سیزن کے نام دیکر روز دار کو لوٹ کر یہ لوگ کتنا خوش ہوتے ہوں گے؟ ان منافع خوروں میں بہت سے لوگ اپنے نام کے الحاج اور حاجی لکھوا کر کتنا فخر محسوس کرتے ہونگے مگر وہ بھول رہیں کہ دنیا فانی ہے ۔ سب کچھ ادھر ہی رہ جائے گا اگر کچھ جائے گا تو وہ اس کے اعمال ہیں۔
رمضان کے بابرکت ماہ میں ہمیں چاہیے کہ غریبوں کا خاص خیال رکھیں ۔ سحر سے افطار تک اپنی اردگرد نظررکھیں کہ کوئی مسلمان روزہ سے نہ رہ جائے۔ ویسے تو ہر وقت دوسرے مسلمان کا خیال رکھانا چاہیے مگر رمضان کے ماہ میں ہر مسلمان کا دکھ درد کا احساس کرنا چاہیے۔ اس رمضان کی قدر کریں ، اس کو غنیمت جانیں۔ ذرا اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں کتنے ہی ایسے لوگ تھے جو گزشتہ رمضان تو ہمارے ساتھ تھے لیکن اس رمضان میں ہمارے ساتھ نہیں ہوں گے۔آئیں عہد کریں، اس رمضان میں ہم خوب رحمتیں اور برکتیں سمیٹیں گے اور مخلوق خدا کے لئے آسانیاں پیدا کریں گے۔ کیا معلوم یہ ہماری زندگی کا آخری رمضان ہو۔
Prev Post
تبصرے بند ہیں.