اپو زیشن کی وز یرِاعظم پہ عدم اعتمادکی ریکو زیشن پہ اکیس مارچ تک قومی اسمبلی کا بلایا جانے والا اجلا س پہلے تو پچیس ما رچ کو بلایا گیااور پھر اٹھا ئیس ما رچ تک مو خر کر دیا گیا۔ تو یو ں قا رئین کرا م، امید ہے کہ آج برو ز سو موار یہ اجلا س منعقد ہو نے میں کا میا ب ہو جا ئے گا۔ تا ہم سوموارتک اجلاس ملتوی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ حکومت کو اسلام آباد میں 27 مارچ کا جلسہ کرنے کا بھرپور موقع مل جائے گا اور اس کے بعد حالات کیا رخ اختیار کرتے ہیں، کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ بہرحال ان واقعات کے سیاسی اثرات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ان حالات میں سیاسی تمازت میں بظاہر کمی کے شواہد بھی قابل غور ہیں۔ چند روز پہلے اپوزیشن جماعتوں نے یہ عندیہ دیا تھا کہ اگر سپیکر قومی اسمبلی نے اجلاس کے پہلے ر وز وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی قرارداد پیش نہ کرنے دی تو وہ قومی اسمبلی میں دھرنا دیں گے، مگر گزشتہ روز ایسی کسی صورت کا پیدا نہ ہونا خوش آئند ہے اور اس امر کا ثبوت بھی کہ سیاسی جماعتیں بظاہر جتنے بھی تنائو کا شکار ہیں، پس پردہ منطق اور دانش کا عمل بھی کارفرما ہے۔ ایسا ہی ہونا چاہیے کہ یہی حالات و واقعات کا تقاضا بھی ہے۔ جب دو متحارب ممالک، حالات چاہے جس قسم کے بھی ہوں آپس میں ایک سطح پر رابطے برقرار رکھتے ہیں تو یہ اصول سیاسی جماعتوں پر کیوں لاگو نہیں ہونا چاہیے؟ سیاسی جماعتوں کو تو اس سلسلے میں زیادہ رابطہ کاری کرنی چاہیے۔ ظاہر ہے، جب مشورے باہم نہ ہوں گے تو رنجشیں ہی بڑھیں گی اور ان رنجشوں کا فائدہ ملک اور قوم کو تو ہو نہیں سکتا،خود سیاسی جماعتوں اور سیاسی رہنمائوں کو بھی اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ اپوزیشن نے جو اسمبلی میں دھرنا دینے کا بیان دیا تھا تو یہ محض جذباتیت تھی مگرجمعہ کے روزجبکہ اس حوالے سے کافی شبہات تھے اپوزیشن کا رویہ قابل ستائش قرار دینا چاہیے۔ اپوزیشن اور حکومت، دونوں کو باور کرنا ہوگا کہ ایوان پارلیمان میں ان کا برابر استحقاق ہے اس لیے اپوزیشن کو اس وہم کا شکار نہیں ہونا چاہیے کہ حکومت اپنے حق میں کارروائی اور فیصلے کرانے میں کامیاب ہوجائے گی۔ یہ سپیکر صاحب کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایوان کے دونوں دھڑوں میں توازن قائم رکھیں۔ جمہوریت کی گاڑی اسی صورت ہموار سفر کرسکتی ہے اگر پارلیمان میں توازن کا ماحول برقرار رہے۔ منفی سیاست پارلیمان کے اندر جائز ہے نہ باہر، خواہ معاملہ تقرریوں کا ہو یا جلسوں کا۔ ہر سیاسی جماعت کو اپنا پروگرام پیش کرنے کا حق ہے اور اس کا فیصلہ عوام پر چھوڑنا چاہیے کہ وہ کس کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہی معیاری جمہوریت اور مثالی سیاست کے اصول ہیں۔ مگر ہمارے ہاں سکہ راج الوقت کچھ اور ہے۔
ہمارے رہنما جب تک تھڑے با زی کا مظا ہرہ کر تے ہو ئے مخالف فریق کو جی بھر کر اُدھیڑ نہ لیں، انہیں اطمینان نہیں ہوتا۔ حالیہ دنوں الٹے نام رکھنے کا نیا ٹرینڈ سامنے آیا ہے۔ اس کو فی الفور ختم کرنا ہوگا کیونکہ یہ کسی سیاسی رہنما کو زیب نہیں دیتا کہ وہ تھڑے با زی کا مظا ہرہ کر تے ہو ئے دوسرے سیاسی رہنا کا منہ چڑائے یا اُلٹے ناموں سے پکارے۔ زبان کے یہ زخم تادیر نہیں بھریں گے اور ا س کا اثر سماج میں بھی تلخیاں بھر دے گا۔ کیونکہ سیاسی جماعتیں جیسی بھی ہیں، آخر ہر ایک کا ایک حلقہ انتخاب اور بہت سارے حامی بھی ہیں۔ جب تک سیاسی رہنما ایک دوسرے پر شخصی اور ذاتی نوعیت کے الزامات لگائیں گے تو یہ ممکن نہیں کہ سیاسی جماعتوں کے حامی اس سے متاثر نہ ہوں۔ یہ گزارش کچھ اس لیے بھی ضروری ہے کہ آنے والے دنوں میں حکومت اور اپوزیشن کے جلسے یکے بعد دیگرے ہوں گے؛ چنانچہ دونوں پارٹیوں کا فرض ہے کہ وہ ایسے اصول طے کرلیں جن کی پاسداری کی جائے۔ بے شک ہر سیاسی جماعت میں بعض جذباتی لوگ بھی ہوتے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ ہر جماعت میں سنجیدہ لوگ بھی موجود ہیں اور وہ ہرگز کسی طوفان بدتمیزی کو پسند نہیں کریں گے۔ یہ صرف سوچ کی بات ہے، ورنہ زبانی کلامی طعنے، الزام، بہتان طرازی اور تھڑے با زی سیاست میں کسی کا شملہ اونچا نہیں کرسکتے۔ اگر یہ بات ہمارے رہنمائوں کی سمجھ میں آگئی تو ان دنوں اسلام آباد میں ہونے والے جلسے خوش اسلوبی سے انجام پاسکتے ہیں، بصورتِ دیگر جو اندیشے ہیں انہیں دہرانے کا یارا نہیں۔ گیند اس وقت سیاسی رہنمائوں کی کورٹ میں ہے۔ عدالت عظمیٰ کی جانب سے بھی حالیہ دنوں میں پارلیمانی رہنمائوں کو اس امر کا احساس بار بار دلایا گیا ہے کہ وہ اپنے پارلیمانی مسائل پارلیمان ہی میں طے کریں، رائے ساز اور دانش مند حلقے بھی مسلسل اسی بات پر زور دیتے چلے آرہے ہیں؛ چنانچہ اب سیاسی حلقوںپر ذمہ داری بدرجہ اتم ہے کہ موجودہ سیاسی درجہ حرارت مزید نہ بڑھنے دیں اور عقلیت پسندی کو پنپنے کا موقع دیں۔ یہ بات اب ڈھکی چھپی نہیں کہ موجودہ سیاسی صورتِ حال کے صرف اسی پہلو کی حمایت کی جاسکتی ہے جو آئین اور قانون کے دائرہ کار کے اندر رہے۔ ماورائے آئین اور خلاف قانون کچھ بھی قابل قبول نہیں خواہ وہ ارکانِ پارلیمان کی حمایت بذریعہ ناجائز اسباب حاصل کرنے کا عمل ہو یا سیاسی رہنمائوں کے آپس میں ذاتیات پر حملے یا تصادم کے خطرات۔ ہمارے ملک کے سیاسی رہنما اب ایسے ناتجربہ کار بھی نہیں کہ انہیں ملکی قانون، اخلاقی حدود اور علاقائی و عالمی رجحانات کا اندازہ نہ ہو۔ وہ یقینا یہ بھی سمجھتے ہوں گے کہ ہمارے ہاں جمہوریت کے فروغ نہ پانے کے اسباب کیا ہیں۔ مگر وہ سب سمجھتے ہوئے بھی اسے عملی طور پر نافذ کرنے اور عمل کا حصہ بنانے سے کیوں پس و پیش کرتے ہیں؟ سیاسی رہنمائوں کے ا س رویے کی قیمت ہمیں مجموعی طور پر ادا کرنا پڑتی ہے۔ پی ٹی آئی کے تاثرات سے لگتا ہے کہ وہ لمبی اننگز کھیلنے کا ارادہ رکھتی ہے، جبکہ بدلتے ہوئے علاقائی اور عالمی حالات کا تقاضا ہے کہ ان حالات کو جلد از جلد نمٹایا جائے تاکہ ملک میں سیاسی استحکام پید اہوسکے۔ ایک طرف روس یوکرائن جنگ مشرقی یورپ کے خطے اور کسی حد تک پوری دنیا میں نئے خدشات کو جنم دے رہی ہے اور نئے نئے معاہدے طے اور بلاک قائم ہورہے ہیں۔ داخلی ہنگامہ آرائی سے فرصت پاکر ہی اس منظرنامے پر غور اور اس میں اپنے ملک کے کردار کے بارے میں کچھ سوچا جاسکتا ہے۔ دوسری طرف عوام سب سے زیادہ متاثر ہورہے ہیں۔ رمضان المبارک کی آمد آمد ہے اور لوگ مہنگائی کی ایک نئی لہر کی زد میں ہیں۔ حکومت اور اپوزیشن اگر اپنی لڑائیوں میں مصروف رہیں گے تو عام آدمی کے مسائل کون حل کرے گا؟ قومی معیشت کو بھی مستحکم قرار نہیں دیا جاسکتا۔ درآمدات اور برآمدات میں توازن قائم کرنے کا معاملہ بھی ویسے کا ویسا ہی ہے۔ اس ساری صورتِ حال کا تقاضا ہے کہ ملک میں جاری سیاسی ہنگامہ آرائی کو جلد از جلد ختم کیا جائے۔
Prev Post
تبصرے بند ہیں.