آج کل سیاسی بیانیوں میں حق اور باطل کی اصطلاحات سرعت سے استعمال ہو رہی ہیں۔ سیاسی بیانیوں کے اختلاف کو یار لوگ حق و باطل کا معرکہ بنا لیتے ہیں۔ نقطہ نظر کا اختلاف، حق اور باطل کا اختلاف ہرگز نہیں۔ میں جانتا ہوں میرے نقطہ نظر سے بھی یار لوگ اختلاف کریں گے لیکن ان سے درخواست ہے کہ اسے ایک غیر سیاسی کالم سمجھ کر، ایک فرد کا ذاتی نقطہ نظر سمجھ کر صرفِ نظر کر دیں۔
سیاسی دنیا میں کم و بیش ہر سیاستدان مذہی اصطلاحات کا بے دریغ استعمال کرتا ہے۔ وہ خود کو بزعمِ خویش حق پرست سمجھتا ہے اور اپنے مخالفین کو یک بینی و دوگوش دائرہ حق سے نکال کر باطل کی صفوں میں کھڑا کر دیتا ہے۔ ایسے بیانیوں میں نیم سیاسی و نیم مذہبی جماعتیں پیش پیش ہیں۔ وہ خود کو اسلام کے ساتھ یوں متصل سمجھتی ہیں کہ ان کی جماعت کی ہم نوائی گویا اسلام میں داخل ہونے کی سند ہے اور ان کے سیاسی موقف سے اختلاف گویا توہینِ دین کا ارتکاب ہے۔ یہ طرزِ فکر خارجی فکر و عمل کی طرف لے جاتی ہے۔ اس طرح سیاست اور دین دونوں متنازع ہو جاتے ہیں۔ دین دینِ وحدت ہے— وحدت کی طرف لے کر آنے والے دین کے نام پر امت کو تقسیم کرنے کا عمل انتہائی خوف ناک ہے۔ معاملہ اتنا سادہ نہیں رہتا جتنا بیان کیا جاتا ہے بلکہ ہوتا یوں ہے کہ امت میں سے ایک شخص اپنی تفہیمِ دین کو فائق سمجھتے ہوئے پوری امتِ مسلمہ پر فائز کرنا چاہتا ہے۔ یوں تو کسی بھی سطح پر تفرقے کا انجام بالآخر فرقہ ہی نکلتا ہے لیکن اگر ’’اصلاح‘‘ کے اس عمل میں سیاست اور طاقت بھی استعمال ہو رہی ہو تو اسلامی معاشرے پر اس کے فکری اثرات دین سے دوری کی صورت میں نکلتے ہیں۔ پڑھا لکھا باشعور طبقہ جب دینی اقدار و اصطلاحات کی یہ درگت دیکھتا ہے تو وہ مغربی طرزِ فکر کی طرف لڑھک جاتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ اپنے مقصد کے لیے عوام الناس کے دینی جذبات کو بھڑکانے والا سیاستدان میدانِ سیاست میں فاؤل پلے کرتا ہے۔ کسی سیاسی موقف کا جواب سیاسی نوعیت کا ہونا چاہیے۔ دینی فہم سے دور سیاست دان اپنے سیاسی موقف کی تائید میں معصوم عوام کو ایک دوراہے پر لا کھڑا کرتے ہیں۔ اپنی بقا کو دین کی بقا کے ساتھ لازم و ملزوم قرار دینا بجائے خود توہینِ دین ہے۔
اپنے مقابل کو باطل کہنے سے پہلے یہ تسلی کر لینا ضروری ہے کہ آیا ہم واقعی حق کے ساتھ کھڑے ہیں۔ مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ فرمایا
کرتے کہ کسی کو وقت کا یزید کہنے سے پہلے اپنے دور کے حسین کو پہچاننا ضروری ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ دونوں فریق ہی یزیدی طرزِ فکر پر ہوں، یعنی فریقین مادی اور مالی مفاد کے حصول کے لیے باولے ہوئے جا رہے ہوں اور بیانات میں خود کو حسینی فوج کی سپاہ قرار دے رہے ہوں۔ یہ الزام تراشی نہ صرف حال اور خیال کو متاثر کرتی ہے بلکہ ماضی کے مقدس ایام اور شخصیات کو بھی دھندلا دیتی ہے۔
کسی معاملے میں جھگڑا کرنے والے دونوں فریق عملاً باطل پر بھی ہو سکتے ہیں— عین ممکن ہے کہ ان کے اپنے حق پر ہونے کے دعوے باطل ہوں اور دوسروں کے باطل پر ہونے کے فتوے بھی باطل ہوں۔ بشری کمزوریوں سے عبارت کوئی پری پیکر بھی ہو تو ہمہ حال حق پر ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔ میدانِ حق میں دعویٰ بذاتِ خود باطل تصور کیا جاتا ہے۔ جو حق پر ہوتا ہے اسے اپنے حق پر ہونے کی وکالت کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ جو حق پر ہوتا ہے وہ حق کے ساتھ ہوتا ہے اور جس کے ساتھ حق ہوتا ہے اسے اپنے حق پر ہونے کی دلیل پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اسے فوری نتائج سے بھی کوئی غرض نہیں ہوتی بلکہ وہ حق تعالیٰ کے اس وعدے پر یقین رکھتا ہے کہ حق قائم رہنے والا ہے اور باطل ذھق ہونے والا ہے۔ کافور ہونے والا ہے۔ باطل ایک دھند کی طرح ہوتا ہے، جن قلوب و اذہان پر یہ دھند چھا چکی ہو وہ حقیقت اور سراب میں فرق نہیں کر سکتے، حق کی بابت ان کی فہم و ذکاوت ایک دھندلکے میں ٹھہر جاتی ہے۔ جب زمانے کے اُفق پر حق کا خورشیدِ عالم تاب طلوع ہوتا ہے تو باطل کی دھند ایسے غائب ہو جاتی ہے جیسے کبھی تھی ہی نہیں۔ حق کے طلوع ہونے کا وقت کیا ہے؟ اس ساعت کا تعین نہیں کیا جا سکتا۔ اس کا صرف انتظار کیا جا سکتا ہے— بحکم حق تعالیٰ ’’کونوا مع الصادقین‘‘ صادقین کے ہمراہ ہو کر انتظار— جسے حسنِ انتظار بھی کہا جاتا ہے۔ صادقین کی معیت ہمارے انتظار کو حسین بنا دیتی ہے۔
حق اور باطل محض عرضی نوعیت کی relative اقدار نہیں بلکہ معروضی طرز کی حقیقتیں ہیں۔ حق اور باطل کا تعلق حق اور باطل کی پہچان کرانے والی شخصیات سے ہے۔ حق اور باطل محض فلسفہ ہائے حیات نہیں، یہ محض فکر و عمل کی راہیں نہیں بلکہ ان کا معیار قائم بالحق شخصیت کے ساتھ ہے— وہی شخصیت حق کا تعارف ہے— وہی فرقان ہے۔ فرقان مجموعہ اصول و ضوابط نہیں بلکہ فرقان ایک ذات ہے— جو معیارِ حق ہے۔ وہ ذات ایک کسوٹی ہے جس کی بتائی ہوئی بات یا دکھائے گئے عمل سے حق اور باطل کے راستوں میں تفریق کی جاتی ہے۔ مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ کا قول ہے ’’سچ وہ ہے جو سچے کی زبان سے نکلے—‘‘ یعنی صداقت کا معیار صادق کی ذاتِ بابرکات ہے، اور یہ ذات ایک اٹل سچائی اور ناقابلِ تردید حقیقت ہے۔ اس ذات سے وابستگی ہمیں صداقت کے قریب کرتی ہے— اسی قربت کے سب ہم قربِ حق تک پہنچتے ہیں۔ جب اس زبانِ صادقﷺ سے فرما دیا گیا کہ ’’علی مع الحق والحق مع العلی‘‘ (علی حق کے ساتھ ہے اور حق علی کے ساتھ ہے) تو یہ بات ہمیشہ کے لیے طے ہو گئی کہ حق اور باطل میں تفریق کرنے کے لیے ہمیں علی ابن ابی طالبؓ کے قول و کردار کے قریب آنا ہو گا— کردار علوی ہر دور میں موجود ہوتے ہیں کہ ولایتِ علیؓ جاری و ساری ہے۔ معیارِ حق ہمارے آس پاس کہیں چلتا پھرتا موجود ہو گا— اس کا کردار کردارِ علوی کی کسوٹی پر پرکھ کر دیکھ لیں، فرقان واضح ہو جائے گا بغیر کسی دعوے کے، بغیر کسی مبالغے اور بحث مباحثے کے!!!
Next Post
تبصرے بند ہیں.