تنقیدنہیں تعریف…؟

48

دولت وطاقت کانشہ اورحکومتی عہدے وکرسی کاچسکہ ہی ایساہے کہ اس مقام ومرتبے پرفائزہرشخص تنقیدسے نہ صرف نظریں چراتاہے بلکہ رشتہ تک بھی توڑنے لگتاہے۔پھرتنقیدی الفاظ کومٹانااورتنقیدکرنے والوں کے سرکچلناتوہردورمیں حکمرانوں اوربادشاہوں کاخصوصی مشغلہ رہاہے لیکن سناہے کہ نئے پاکستان کے اس ،،بادشاہ سلامت کو ’’مسٹر تنقید‘‘ سے کچھ زیادہ ہی چڑہے۔اسی لئے تو اس ملک میں ’’مسٹر تنقید‘‘ کے بچوں ،رشتہ داروں اوروارثوں پرزمین تنگ کرنے کاسلسلہ رکنے کانام نہیں لے رہا۔پیکاآرڈیننس یہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔بادشاہ سلامت چاہتے ہیں کہ اس ملک میں نا،نا نہیں بلکہ ہرطرف صرف اس کی واہ واہ ہو۔اسی مقصدکے لئے توبادشاہ سلامت نے فصاحت وبلاغت پرعبوررکھنے والے ایسے کئی وزیراورمشیر رکھے ہیں جن کاکام ہی صرف واہ واہ ہے۔ان وزیروں اورمشیروں کی طرح دس دس گزلمبی زبانیں نکال کر واہ واہ ہم بھی کرلیں گے یہ کوئی مشکل کام بھی نہیں اورویسے بھی حکومت کے ساتھ ہماراتوزمین وجائیدادکاکوئی تنازع نہیں کہ ہم حکومت کی جے کانعرہ لگاکرواہ واہ نہیں کریں گے لیکن ہمیں پتہ ہے کہ میت کے سرہانے ڈھول اورباجے بجانے کاکوئی فائدہ نہیں ہوتابلکہ الٹانقصان حدسے بھی کچھ زیادہ ہوتاہے۔ملک میں لوگ بھوک وافلاس سے مررہے ہوں،روزگارکے لئے دربدرہوں،علاج معالجے کے لئے ایڑھیاں رگڑرہے ہوں،انصاف کیلئے تڑپ اورترس رہے ہوں،مہنگائی کے بوجھ تلے دب کرآہیں اورسسکیاں بھررہے ہوں۔ایسے میں اگرہم بھی ڈھول اور باجا اٹھا کر ان کے سرہانے سب اچھاہے کے گیت گاناشروع کردیں توآپ خودسوچیں ہماراسب اچھاکہنے یالکھنے سے کیاواقعی ملک میں سب اچھا ہوجائے گا۔۔؟نہیں جناب نہیں۔کچھ اچھاکرنے کے لئے کچھ گانانہیںبلکہ کچھ کرنا پڑتا ہے۔ اگر آنکھیں بندکرکے سب اچھاہے کی رٹ لگانے، گانے گانے یاقوالیاں کرنے سے اگرسب اچھا ہوتا تو آج ملک میں براکچھ بھی نہ ہوتا۔کیونکہ سب اچھا ہے کہنے،بولنے،لکھنے اورسنانے والایہ کام اوریہ فریضہ توپچھلے چارسال سے یہ وزیر اور مشیر انتہائی ایمانداری اورامانت داری کے ساتھ سرانجام دے
رہے ہیں۔ چار سال میں بھی اگرسب اچھاہے کے گانے گانے اوررٹ لگانے سے کچھ اچھانہیں ہواتوپھربادشاہ سلامت کواب اپنی ان ادائوں پر ضرور غور کرنا چاہئے۔ گالم گلوچ اورمفت میں دوسروں کی پگڑیاں اچھالنے کے حق میں ہم بھی نہیں۔ کپتان کی طرح ہم بھی چاہتے ہیں کہ اس ملک میں ہرشخص کی عزت ووقارمجروح نہیں بلکہ محفوظ ہو۔اس تناظرمیں جولوگ محض اپنی ذات ومفادکے لئے فیک نیوزکاسہارالیتے ہیں یادوسروں کی پگڑیاں اچھالتے ہیں ان کے خلاف کارروائیاں بھی ہونی چاہئیں اوران کے لئے قانون سازیاں بھی۔ لیکن معذرت انتہائی معذرت کے ساتھ فیک نیوزاورشرفاء کی پگڑیاں اچھالنے کوبہانہ بناکراس ملک سے حرف تنقیدکومٹانے کے بہانے تراشنایہ افسوسناک ہی نہیں بلکہ شرمناک انتہائی شرمناک ہے۔تنقیداورحرف تنقیدکوبرداشت کرنے کی سکت نہ رکھنے والے بادشاہوں اوروزیروں کی خدمت میں اتنی سی گزارش ہے کہ قومیں تنقیدہی کے ذریعے آگے بڑھتی ہیں ۔یہی وہ تنقیدی الفاظ توہوتے ہیں جن کی برکت سے فردنہیں افراداورقوم نہیں اقوام کواپنی اصلاح اورخودکوسدھارنے کاموقع ملتا ہے۔ تنقید کے بجائے اگرصرف تعریف ہی تعریف ہوتوپھرغلطیوں کااحساس کیسے اوراصلاح کاراستہ کیسے نکل آئے گا۔؟جو لوگ مالش، پالش اور صرف تعریف کے دلدادہ بن جاتے ہیں ایسے لوگ نہ صرف خود تباہ اور برباد ہو جاتے ہیں بلکہ تاریخ کاسبق تویہی ہے کہ ایسے لوگ پھرتباہی اوربربادی کے سیلاب میں اپنے ساتھ اوربھی بہت سے بے گناہوں اور معصوموں کو تنکوں کی طرح بہا کر لے جاتے ہیں۔ اس ملک میں آج ہرشخص حالات کاروناکیوں رورہاہے۔؟حالات نہ پہلے کبھی اتنے برے تھے اورنہ اب کوئی زیادہ برے ہیں ۔اگربرے ہیں تووہ ہم خود ہیں۔ ہمارا واسطہ اور ناتا ہی ہمیشہ ایسے بادشاہوں، وزیروں اورمشیروں سے پڑاکہ جومالش ،پالش اور دوسروں سے صرف تعریفیں سننے اورپڑھنے کے سوااورکوئی کام ہی نہیں جانتے۔یہی وجہ ہے کہ ہماری زندگیوں کااکثرحصہ مالش اورپالش کے سائے میں گزرگیا۔ہمارے وزیراورمشیرنوکریاں پکی کرنے کے لئے ہردورمیں مالش وپالش سے کام چلاتے رہے اورہمارے نادان بادشاہ اس مالش وپالش کوسچ میں اپنی تعریف اورحقیقت سمجھ کربڑے انہماک وتوجہ کے ساتھ ان فرضی قصوں اورکہانیوں کوسنتے وپڑھتے رہے۔مرض بڑھتاگیاجوں جوں دوا کی۔اب مرض اس سٹیج پرپہنچ گیاہے کہ بادشاہان وقت تنقیدکاکوئی ایک جملہ بھی سننے وپڑھنے کے لئے تیارنہیں۔22کروڑعوام رورواورچیخ چیخ کرکہہ رہے ہیں کہ حالات اچھے نہیں لیکن بادشاہ سلامت بضدہیں کہ مجھے ’’سب اچھا ہے‘‘ کی صدائیں و ادائیں چاہئیں۔ یہی وہ بنیادی وجہ اور نکتہ ہے جس نے اس ملک میں میٹھے کو بھی پھیکا کر دیا ہے۔ حکمران مالش وپالش کے کاروبارکوتوسیع دینے کے لئے پیکاآرڈیننس لائیں یاکوئی ٹیکہ آرڈیننس۔ایک بات اٹل ہے کہ لوگوں کی زبانوں کوتالے لگانے سے بھی حکمرانوں کے گناہ چھپ نہیں سکیں گے۔یہ طاقت کے بل بوتے پرلوگوں کوتوخاموش کراسکتے ہیں لیکن یہ سچ اورحقیقت کودنیاکی نظروں سے ہرگز چھپانہیں سکتے کیونکہ حق اورسچ کوچھپانایادبانایہ کسی کے بس کی بات نہیں۔اس سے پہلے بھی جس نے حق اورسچ کودبانے یاچھپانے کی کوشش کی تاریخ گواہ ہے کہ وہ پھرخود اس طرح دب اورچھپ کررہ گئے کہ آج ان کانام ونشان بھی نہیں۔ ہمیں کسی پر بلاجواز تنقید کرنے کاکوئی شوق نہیں۔ہم توبس وہی تحریرکرتے ہیں جومحسوس کرتے ہیں۔ان بادشاہوں کوایک بات یاد رکھنی چاہئے کہ ہر تنقیدکرنے والادشمن نہیں ہوتا۔کچھ نہیں بلکہ تنقیدکرنے والے اکثرلوگ ہی ہمدردہوتے ہیں تب ہی تووہ بغیرکسی مفاداورلالچ کے آپ کوآپ کی غلطیوں،کوتاہیوں اورنااہلیوں کی نشاندہی کراتے ہیں ۔آپ بجائے شیشہ توڑنے کے اپنے چہرے پرلگی دھول کیوں صاف نہیں کراتے کہ نہ آپ کوکچھ سننے اورپڑھنے کی تکلیف ہواورنہ عوام کویہ پریشانیاں۔ہماراکیا۔؟ہم توآپ کی ،اس ملک اورقوم کی بھلائی چاہتے ہیں اگرآپ کہتے اورسمجھتے ہیں کہ تنقید کے بجائے تعریف سے آپ،آپ کی حکومت ،اس ملک اورقوم کاکچھ بھلا ہو سکتا ہے تو پھر یہ لیجئے جناب تعرف ۔ وزیراعظم عمران خان نے ملک کوترقی کی راہ پرگامزن کر دیا، پچاس لاکھ گھراورایک کروڑنوکریوں کے وعدے بھی پورے، ملک میں اب کوئی بے گھر اور بیروزگار نہیں۔ کپتان نے سترسال کاگندصرف چارسال میں صاف کردیا۔انصاف عام،احتساب سرعام اوراقتدارمیں عوام کاخواب بھی پوراہوگیا۔

تبصرے بند ہیں.