’’طوطا فال‘‘ سے ’’یو ٹیوبر‘‘ صحافت تک…

28

اپنے چھتیس سالہ صحافتی کیریئر میں دیکھا ہے کہ جب بھی ملک میں کسی قسم کا بحران ہو تو ’’طوطافال‘‘ صحافیوں کی فوج ظفر موج اپنی اگر مگر خبروں ، تبصروں اور تجزیوں کے ساتھ طوفان بد تمیزی کھڑا کر دیتی ہے۔ ان کے تجزیوں اور خبروں کا سارا دارومدار ’’اگر مگر‘‘ پر ہوتا ہے کہ یہ ہو گیا تو وہ ہو جائے گا۔ سیاسی افق پر یہ طوطا فال صحافی کبھی کسی چڑیا کی آڑمیں یا کبھی ذرائع کی آڑ میں صبح شام حکومت کو چلتا کرنے کی فیک نیوز دیتے رہتے ہیں۔ ایک وقت میں نوائے وقت میں محمد صدیق کا کرکٹ کے کھیل پر ایک کالم آتا تھا جس کا سارا دارومدار ’’اگر مگر‘‘ پر ہوتا تھا یعنی اگر فلاں نے سکور کر لیا یا اگر فلاں نے بولنگ اچھی کر لی یااگر فلاں ٹیم نے فیلڈنگ اچھی کر لی تو یہ نتیجہ آئے گا۔ اس کا نام ہی یار لوگوں نے ’’تبصرہ محمد صدیق ‘‘ رکھ دیا تھا۔ آجکل کے دور میں صحافت کی اس صنف کو ’’طوطا تبصرہ‘‘ سے موسوم کیا جاسکتا ہے۔
وقت کے ساتھ ساتھ صحافت میں ایک نئی طرح آئی ہے جسے ’’وی لاگ‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ طوطا فال صحافیوں سے اگلی صنف ہے اور اگر مگر سے ہٹ کر اس کا خاصا یہ ہے کہ بغیر تصدیق یا تحقیق کے کسی کے بارے میں جو دل میں آئے الٹی کر دو۔ ریٹنگ کے چکر میں بات غلاظت اگلنے تک چلی گئی ہے اور اس ’’کار شر‘‘ میں بڑے بڑے نام شامل ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ازل سے Negativity بکتی ہے اور دنیا بھر میں سیاسی و معاشی تقسیم میں منفی پروپیگنڈہ سر چڑھ کر بولتا ہے۔ ہمارے ہاں تو سیاست میں ایک تیسری قوت کے آنے کے بعد سوشل میڈیا پلیٹ فارم کا جتنا غلط استعمال ہوا ہے الاماں والحفیظ۔ سوشل ہونا یا لوگوں میں گھلنا ملنا بڑے نفیس جذبے کا نام ہے لیکن سوشل میڈیا پر سب کچھ ہے سوائے ’’سوشل‘‘ ہونے کے یہاں جس چیز کی سب سے زیاہ دوڑ ہے وہ یہ ہے کہ کون کس کی زیادہ پگڑی اچھالتا ہے۔
سینئر صحافی ممتاز بھٹی صاحب کو ان کے اور ہمارے مشترکہ دوست نے ایک خاتون ایم این اے کے بارے میں قابل اعتراض وی لاگ بھیجا۔اس وی لاگ میں جو الزامات لگائے گئے تھے اس کا فیصلہ تو عدالتوں نے کرنا ہے اور نہ ہی ہمیں اس جھگڑے سے کچھ لینا دینا ہے۔ لیکن ممتاز بھٹی صاحب کا اس وی لاگ پر کا کیا جواب تھا جانیے۔ ’’ آپکی ضد پر اعوان صاحب یہ سْن لیا ہے۔وی لاگ کرتا ہوں نہ سْنتا ہوں اسکی وجہ یہی طرز ِگفتگو ہے۔
سٹوری متاثرہ شخص کی ہے تو اسکی ایپلی کیشن اسکا موقف اور فریقِ دوئم کا موقف یہ سب سٹوری کا حصہ ہونا چاہیے۔
بدقسمتی ہے کہ یوٹیوب پر سائنس ٹیکنالوجی اور علم عام کرنے کے بجائے یہ مواد پاکستان میں ملتا ہے دونوں اطراف کو سر پرستی حاصل ہے مریم کے میڈیا سیل سے لیکر پی ٹی آئی اور ریاست کے سیل تک ہر ایک نے اپنے مخالفین پر یو ٹیوبر چھوڑے۔ سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے پسند کے یوٹیوبرز کے گند کو خوب پھیلایا معاشرے میں نفرت اور فساد کا بیج بو دیا گیا بلکہ اس عفریت کو وسائل اور تحفظ اور بڑھاوا دیا گیا۔
اللہ پاک سب کو ہدایت دے اور ارباب اختیار کو عقل دے کہ جہاں جہاں بیٹھے کہ وہ پگڑیاں اچھالنے کے کھیل کی حمایت ترک کردیں۔
میرا پہلے دن سے یہ موقف رہا کہ بہرکیف مین سٹریم میڈیا ریگولیٹ کرنا آسان ہے لوگوں کو بیروزگار کرکے سوشل میڈیا پر پھینکنے کی پالیسی ٹھیک نہیں۔
حکومت نے صحافی بیروزگار کیے‘‘۔
ممتاز بھٹی صاحب نے بالکل ٹھیک کہا کہ جب صحافتی ادارے بند ہوں گے اور ہزاروں صحافی بیروزگار ہوں گے تو انہوں نے کسی طریقے سے اپنی روزی تو کمانی ہے۔ اسے سمجھنے کے لیے ایک مثال کافی ہے کہ جس طرح امریکہ اور اس کے اتحادی افغانستان فتح کرنے اور روس کو وہاں سے نکالنے کے بعد افغانستان کو انفرا سٹرکچر یا مسلح طالبان کو جدید دنیا سے آگاہی یا انہیں روزگار یا تعلیم سے روشناس کرنے کے بجائے وہاں سے بھاگ گئے۔ تو جدید ترین اسلحے کے ساتھ طالبان صرف ایک ہنر جانتے تھے جنگ کرنا۔ انہوں نے یہی کرنا تھا اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلحہ کا صحیح استعمال بھی ہو سکتا ہے اور یہ کسی بھی ملک کے دفاع کی ضمانت ہوتی ہے۔ لیکن طالبان کو جدید ترین اسلحے کے ساتھ چھوڑ دیا گیا نتیجتاً انہوں نے تخریب ہی کرنی تھی اور پھر 9/11کا واقع ہوا اور امریکہ نے ایک بار پھر افغانستان پر چڑھائی کر دی اور اسے ایک بار پھر فتح کر لیا لیکن طالبان کو پھر بے یارو مددگار چھوڑ گیا۔ اس کا نتیجہ کیانکلے گا یہ تو وقت بتائے گا لیکن جس طرح اس حکومت میں صحافی بیروزگار ہوئے انہیں بھی طالبان کی طرح ایک ہی ہنر آتا تھا ’’صحافت‘‘ جب انہیں بیروزگار کر دیا گیا تو ان کو جو پلیٹ فارم ملا وہ سوشل میڈیا کا تھا۔ جہاں وہ مین سٹریم میڈیا کی طرح کسی بھی احتساب سے بری الزمہ تھے۔ پھر اس میں تمام سیاسی جماعتوں کے سوشل میڈیا پلیٹ فارم بھی گھس آئے اور بعض صحافیوں کو باقاعدہ کیچڑ اچھالنے کا معاوضہ ملنے لگا۔ اس پلیٹ فارم پر فیک نیوز، کردار کشی ، جھوٹ، بہتان، غلیظ زبان، تہمت اور تضحیک ہی بکتی تھی۔ جب ان بیروزگار صحافیوں کو اندازہ ہوا کہ جتنا بڑا جھوٹ، کردار کشی اور بہتان تراشی ہو گی اتنی ریٹنگ اور پیسے ملیں گے تو یارلوگوں نے پھٹے اکھیڑ دیے۔ میں ممتاز بھٹی صاحب کی اس بات سے بالکل متفق ہوں کہ بے روزگاری نے صحافیوں کو اس طرف دھکیلا لیکن اب یہ عفریت اتنا بڑا ہو گیا ہے کہ اس کا کنٹرول اب تقریباً نا ممکن ہے۔
خاص طور پر جب سیاسی جماعتوں کا مفاد اور پشت پناہی اس سے وابستہ ہو گئی ہے تو پھر اس سے چھٹکارا مشکل ہے۔
ان یو ٹیوبرز کا سیاسی مخالفین پرکیچڑ اچھالنے کے علاوہ اپنے سیاسی آقائوں کی طرح پاک فوج بھی ان کا خاص نشانہ ہوتی ہے۔ مولانا فضل الرحمان ہو، مریم نواز ہو نواز شریف ہو یا آصف زرداری یا ان سب کے حواری یہ سب تو نام لے لے کر یا اشاروں کنائوں سے مسلح افواج بارے گند اگلتے رہتے ہیں۔ ان کی دیکھا دیکھی یا انکی ہدایت پر ان کے حمایت یافتہ یو ٹیوبرز بھی اس میں برابر کا حصہ ڈالتے ہیں۔
دنیا بھر میں سوشل میڈیا اور مین سٹریم میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کے قوانین موجود ہیں اور جس قسم کا مواد ہمارے سوشل میڈیا پر موجود ہے اس کا مہذب دنیا میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ ہماری اشرافیہ مغرب کی اندھی تقلید کرتی ہے لیکن اس حوالے سے بننے والے کسی قانون کی مخالفت اپنے آپ پر فرض کر لیتی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ اس عفریت کو روکنے کے لیے تمام سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لے کر قانون سازی کرے وگرنہ جس شدت سے یہ گند بڑھ رہا ہے وہ سوشل میڈیا سے نکل کر ہمارے معاشرے میں سرایت نہ کر جائے جس کا نتیجہ لامحالہ تصادم کی صورت نکل سکتا ہے۔ ہمارے صحافی دوست جو یو ٹیوب پر موجودہیں وہ بھی معاملے کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے اپنا مدعا شائستگی اور حقائق کو مدنظر رکھ کر بھی دے سکتے ہیں۔
قارئین کالم کے بارے میں اپنی رائے اس وٹس ایپ 03004741474 پر بھیجیں۔

تبصرے بند ہیں.