سیاسی کھیل، پہلا یا آخری اوور

29

سیاسی کھیل شروع ہوگیا۔ اپوزیشن حکومت گرانے کے لیے تحریک عدم لانے کے سلسلہ میں متحد ہوگئی۔ مختلف الخیال جماعتوں میں اس سے قبل بھی اتحاد بنتے اور ٹوٹتے رہے کسی نہ کسی نے ٹانگ اڑا کر اچھے بھلے اتحاد کو پارہ پارہ کردیا لیکن بقول غالب ’’اب کے سرگرانی اور ہے، اپوزیشن نے اس بار ٹھانی اور ہے‘‘ لگتا ہے حکومت مخالف تمام جماعتیں اس بار انتہائی سنجیدگی سے ’’خطرناک مشن‘‘ پر نکلی ہیں۔ میل ملاقاتیں، عشائیے، ظہرانے، مرغن کھانے ا ور پھر سر جوڑ کر مذاکرات اگر چہ حکومتی وزراء اور ڈھیروں ترجمان ان مذاکرات کو مذاق رات قرار دے کر پھولے نہیں سماتے لیکن شاہراہ دستور کے ارد گرد رات دن مٹر گشت کرنے والے بزعم خود انتہائی با خبر رپورٹر پلس تجزیہ کار تو اپنی بات شروع ہی یہیں سے کرتے ہیں کہ میری با خبر ذرائع سے آج ہی بات ہوئی ہے وہ پوری صورتحال کو انتہائی الارمنگ قرار دیتے ہیں اور اپنا تجزیہ ان ریمارکس پر ختم کرتے ہیں کہ اپوزیشن کے دار الحکومت تیار، تحریک عدم اعتماد کے ڈرافٹ کو حتمی شکل دے دی گئی ہے اس کے ساتھ ہی ان شکوک و شبہات کا اظہار کہ پورے نمبر اپوزیشن کے پاس نہیں ہیں اس لیے تحریک شرطیہ ناکام ہوگی۔ تمت بالخیر اسی پوائنٹ پر ان کے تجزیہ کی ڈور تڑخ کر کے ٹوٹ جاتی ہے۔ حالانکہ اپوزیشن نے نمبرز گیم سمیت بہت سی باتیں خفیہ رکھی ہیں مثلاً پی ٹی آئی کے 25 ارکان سے رابطے 25 ارکان کون ہیں ان کا علم کسی کو نہیں۔ 3 ارکان کو خریدنے کی مبینہ کوششیں اس کا انکشاف وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری نے کیا۔ کسی نے شاہد خاقان عباسی سے پوچھ لیا کہ کون کون سے اتحادی آپ کے ساتھ مل رہے ہیں وہ بھی یہ کہہ کر جل دے گئے کہ ٹیلیفون کالیں بند ہوگئیں تو سارے اتحاد اور موسمی پرندے ہمارے آنگن میں اتر آئیں گے کسی نے کہا کہ دو درجن سے زائد پی ٹی آئی ارکان ن لیگ سے ٹکٹ کی یقین دہانی چاہتے ہیں کسی نے بے پر کی اڑائی کہ آئندہ 72 گھنٹے انتہائی اہم ہیں کسی نے دو ہفتے اہم قرار دیے کیا واقعی اندرون خانہ ٹوٹ پھوٹ ہو رہی ہے۔ جہانگیر ترین کی شہباز شریف سے خفیہ ملاقات کو بھی اہمیت دی جا رہی ہے ملاقات میں کیا طے پایا کسی کو کچھ پتا نہیں ’’میان عاشق و معشوق رمز ایست‘‘ کراما کاتبین راہم خبر نیست آصف زرداری کی تحریک عدم اعتماد کی تجویز پر پیشرفت ہو رہی ہے۔ سیاسی اکھاڑ پچھاڑ کے ماہر سابق صدر نے لاہور میں ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ روز ملاقاتیں طویل مذاکرات خالی از علت نہیں شہباز شریف، آصف زرداری، مولانا فضل الرحمان اور چودھری برادران سے بات چیت ہوگئی، چودھری شجاعت نے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے دو دن کی مہلت مانگ لی کچھ ہے تو سب کچھ ہو رہا ہے سیاسی کھیل شروع ہوگیا ہے پہلا اوور ہے یا آخری کس کی وکٹ اڑے گی تبصرے قبل از وقت لیکن دونوں جانب گھبراہٹ ضرور ہے پرویز خٹک نے بڑے خشک لہجہ میں کہا تحریک عدم اعتماد لانا اتنا آسان نہیں، ہم سوئے ہوئے نہیں ہیں اتحادیوں سے رابطے ہیں سب ہمارے ساتھ ہیں تحریک ناکام ہوگی دونوں جانب سے انشاء اللہ کسی نے نہیں کہا سپر اوور کی خبر خدا جانے پرویز خٹک کی یہ بات قرین قیاس نہیں کہ جو ارکان یا رکن وزیر اعظم کے خلاف ووٹ دے گا وہ نااہل ہوجائے گا ارکان نا اہل ہوگئے تو اپوزیشن اعتماد کا ووٹ کیسے حاصل کرے گی۔ ووٹنگ خفیہ ہوگی مخالف ووٹر تلاش کرنے میں برسوں لگ جائیں گے سینیٹ کے مخالف ووٹرز کیخلاف کب اور کیا کارروائی ہوئی؟
ملاقاتوں میں بہت سی باتیں طے کرلی گئیں مثلاً سپیکر کے بجائے وزیر اعظم کیخلاف تحریک پہلے پیش کی جائے گی سپیکر اور پنجاب اسمبلی کی باری بعد میں آئے گی تحریک پیش کرنے کی حتمی تاریخ کا فیصلہ بعد میں ہوگا تاہم یہ تاریخ 8 مارچ کے بعد ہی ہوگی جب بلاول بھٹو لانگ مارچ لے کر اسلام آباد پہنچ جائیں گے۔ شہباز شریف وزیر اعظم کے لیے اپوزیشن کے متفقہ امیدوار ہوں گے۔ ن لیگ پنجاب میں پی پی کے لانگ مارچ کے شرکا کا استقبال کرے گی کیسے کرے گی پتا نہیں صرف ہار پھول پہنا کر لاہور سے رخصت کردے گی یا ن لیگی ارکان اور اس کے حامی لانگ مارچ کا حصہ بنیں گے اور اسلام آباد تک ساتھ دیں گے ایسا ہوا تو معاملہ کوئی بھی رخ اختیار کرسکتا ہے وزیر داخلہ شیخ رشید تیار بیٹھے ہیں وہ پی ٹی آئی کے شرکا کی طرح پی پی کے لانگ مارچ کے شرکا کو پارلیمنٹ ہائوس کے سامنے ڈیرے ڈالنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ تھرڈ امپائر سے رابطہ ہوگا یا نہیں کہنا قبل از وقت ہے تاہم لانگ مارچ میں شریک عوام کی تعداد کسی بھی فیصلے میں مدد دے گی ممکن ہے ن لیگ اپنے کارکنوں ان کے جوش و خروش اور کایا پلٹ صلاحیتوں کو  23 مارچ کے پی ڈی ایم کے لانگ مارچ کے لیے بچا رکھے تاہم شہباز شریف اور آصف زرداری کے غیر معمولی خیر سگالی جذبات کے اظہار کے بعد کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ فی الحال تو تحریک عدم اعتماد کی کمان زرداری صاحب کے
ہاتھ میں ہے ارکان کی حمایت حاصل کرنے کا ٹاسک بھی انہیں سونپ دیا گیا ہے۔ بہت کچھ طے ہوگیا بہت کچھ باقی ہے تحریک کے لیے 172 ارکان کی ضرورت ہے جبکہ اپوزیشن کی زنبیل میں 158 یا 162 ارکان ہو سکتے ہیں دس بارہ ارکان کا سوال ہے بابا۔ اس کے لیے ق لیگ اور ایم کیو ایم کی حمایت درکار ہوگی ق لیگ کے کھلے عام حکومت سے اپنے تحفظات کا اظہار ضرور کرتی ہے لیکن بقول پرویز الٰہی ہم جس کے ہو گئے اسی کے ساتھ رہیں گے اپوزیشن کو بے چین کیے ہوئے ہے۔ ایم کیو ایم کے رہنما اور وفاقی وزیر امین الحق نے گزشتہ دنوں پیکا آرڈی نینس پر تنقید کی اور اسے پھیکا قرار دے کر مسترد کردیا۔ تاہم فی الحال ایم کیو ایم کے اِدھر اُدھر ہونے کے امکانات مزید امکانات پر منحصر ہوں گے جن کا اس وقت تک کوئی امکان بظاہر نظر نہیں آتا۔ اتحادیوں کا جہاں تک تعلق ہے صرف اختر مینگل کی پارٹی نے باقاعدہ علیحدگی اختیار کی باقی اتحادی حکومت کو آنکھیں ضرور دکھاتے ہیں لیکن وہاں پہنچنے پر آنکھیں جھکالیتے ہیں کیا کریں سب کے اپنے اپنے مسائل اور مشکلات ہیں اتحادیوں کے غیر یقینی رویوں کے باوجود رانا ثناء اللہ کے پاس اللہ جانے کون سی گیدڑ سنگھی ہے کہ وہ مونچھوں کو تائو دے کر بھرپور اعتماد سے کہہ رہے ہیں کہ ہم نے تحریک کی کامیابی کے لیے نمبرز پورے کرلیے ہیں۔ شاید وہ جہانگیر ترین گروپ کی جانب سے کسی یقین دہانی پر اعتماد کیے بیٹھے ہیں لیکن ایسی کوئی یقین دہانی منظر عام پر نہیں آئی۔ سب کچھ اندھیرے میں ہے سب ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں کوئی کال کوئی خط پتر بھی موصول نہیں ہو رہا۔ گیلپ سروے حکومت کی توقعات کے خلاف اور اپوزیشن کی من چاہی مرادوں کے مطابق ہے جس میں کہا گیا ہے کہ پنجاب سندھ اور خیبر پختونخوا میں نواز شریف کو سب سے زیادہ مقبولیت حاصل ہے۔ پنجاب میں 58 فیصد سندھ میں 51 اور کے پی میں 46 فیصد عوام نے ان کی حمایت کا اظہار کیا گھبراہٹ ہوئی ہے ہونی چاہیے مہنگائی پر کنٹرول نہیں پیٹرول کے دام بتدریج بڑھ رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں اکٹھے  13 روپے بڑھنے سے عوام پریشان ہوگئے اس بار پھر 7 روپے کا امکان ظاہر کیا جا رہاہے۔ 110 اشیاء خور و نوش پر سبسڈی ختم کرنے کی اطلاعات ہیں پتا نہیں وزیر خزانہ مہنگائی کیسے کم کریں گے کم نہ ہوئی تو عوام میں بے چینی بڑھے گی بے چینی بڑھی تو کیا ہوگا؟ عوام ہی بتائیں گے ان حالات میں ن لیگ کا دعویٰ ہے کہ اقتدار کے 15 دن باقی ہیں حکومت 15 ماہ پر اٹکی ہوئی ہے۔ سیاسی کھیل کا اختتام کیا ہوگا سارے بڑے اور سیاسی بابے استخارہ کر رہے ہیں۔

تبصرے بند ہیں.