لاہور شوٹرز کے نشانے پر ۔۔۔!

115

رضا مغل 

یونان کے فلسفی ارسطو نے کہا تھا کہ جُرم اور انقلاب دونوں ہی کی بنیاد صرف اور صرف غربت ہی ہے اور یہ بات سچ ہے جس میں کوئی دروغ کوئی نہیں ہے،آج کے حالات کو دیکھتے ہیں تو ارسطو کا یہ قول سچ ثابت ہوتا ہے پاکستان میں مختلف ادوار میں کرائم کی شرح اس قدر بڑھتی گئی کہ حکومتیں بے بس دکھائی دیں۔ خاص کر دو بڑے شہروں لاہور ،کراچی میں آج کرائم اس قدر بڑھ حکا ہے کہ کس کی بنیادی وجوہات میں بے روز گاری اور موت کے منہ میں ڈالتی مہنگائی ہے جس کی وجہ سے ہمارا نوجوان کرائم کی دنیا میں چلا گیا اور یہ بد قسمتی ہے کہ آج کے نوجوان نے تباہی کے راستے خود اپنا لیتے ہیں دیکھا جائے تو کرائم سٹریٹ سے بھتہ مافیا کا آغاز ایم کیو ایم کے دور میں شروع ہوگیا تھا وہ ایک طویل کہانی ہے پھر وہ بھتہ اور کرائم سٹریٹ پنجاب میں قدم جماتا ہے کراچی میں کلر مافیا اور اب اس کا نام بدل کر شوٹررکھ دیا گیا جو پیسے لیکر انصاف کو ٹھکانے لگا دینے کا خوفناک کام سر انجام دیتے ہیں ہماری تاریخ میں ایک نہیں سینکڑوں ایسے واقعات ہوتے ہیں،کراچی میں ایم کیو ایم نے شوٹرزپیدا کیے قبضہ مافیا اور قتل وغارت گری کا بازار گرم کیا سیاستدانوں سے لیکرتاجروں تک اور عام شہری کو بھی مارا گیا۔

کرائے کے قاتل کو شوٹرز کا نام دیا گیا ہے دنیا بھر میں شوٹرز ہیں تنظیمیں بھی پیسے لیکر قتل کرتی ہیں افسوس پنجاب پولیس دعوے کرتی ہے جرائم کا خاتمہ کردیا گیا ہے لیکن کہاں ؟اربوں روپے کا بجٹ استعمال کرنے کے باجود لاہورغیر محفوظ ہے آئے روز کوئی نہ کوئی تہہ تیغ ہوتا ہے بلال یسیٰن پر حملہ ایک الارم تھا پولیس کے دوسرے معاملات کی طرح اسے بھی آسان لیا گیا چند دنوں بعد صحافی حسنین شاہ کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا حملہ آور پر ہجوم میں فرار ہو گئے انہیں پولیس پکڑتی ہے نہ کوئی شہری؟پولیس اس وقت آتی ہے جب قاتل فرار ہو جاتے ہیں انار کلی بم دھماکے کے بعد شہر کی فضا افسردہ ہے دوسری طرف شہریوں کو شوٹرز نے خوفزدہ کررکھا ہے گوملزم پکڑے گئے ہیں لیکن کیا اس طرح کے واقعات بزدار حکومت کیلئے سوالیہ نشان نہیں قانون سے کھلواڑکرنے والے شوٹرز کھلے عام قتل وغارت گری کر رہے ہیں اور یہ واقعات ہیں کہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہے اس کا سب سے زیادہ نقصان قانون کو ہورہا ہے اور ایسے لگ رہا کہ پی ایس ایل سیون کے انعقاد سے قبل پری پلان ملک بلکہ لاہورکے حالات خراب کیے جائیں جس میں شرپسند کسی حد تک کامیاب بھی رہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملزم پکڑنے سے عدالتی سسٹم تک ماضی کی روایات کے مطابق ہو گا کچھ نہیں لاہور پہلے ہی کرائم کا گڑھ بن چکا ہے سٹریٹ کرائم کے بڑھتے ہوئے رجحان سے قانون کمزورسے کمزور ہوتا چلا جا رہا ہے بلکہ یوں کہہ لیں کہ قانون اندھا ہو چکا ہے بے جا نہ ہو گا ، کہا جاتا ہے کہ غربت کی وجہ سے بھی کوئی شخص مسلح تنظیم سے منسلک ہو جاتا ہے تو کوئی اور راستہ چن لیتا ہے اور وہ جرم کی دنیا میں قدم رکھ دیتا ہے اور کرائے کے قاتل کے طور پر چند ہزار روپے کے عوض لوگوں کو قتل کرنا اپنا پسندیدہ مشغلہ اور ذریعہ معاش بنا لیتا ہے اس وقت تک بنائے رکھتا ہے جب تک انجام کو نہ پہنچ جائے،ایک جیتا جاگتا انسان کرائے کا قاتل کب اور کیسے بنتاہے اور ایک جیتے جاگتے انسان کو تہہ تیغ کرڈالنا کتنا مشکل لیکن کرائے کے قاتل کیلئے بہت آسان ہوتا ہے کیونکہ اب وہ انسان نہیں رہا شوٹربن چکا ہوتا ہے جس کے نزدیک زندگی کچھ نہیں ، جرائم سے جڑی کئی چونکا دینے والی کہانیوں کے انکشاف نے جھنجھوڑکر رکھ دیا ہے ایک یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ کچھ ملزمان کیپموں سے جہاد کے نام پر ٹریننگ لیکر کرائے کے قاتل بن جاتے ہیں یہ بھی انکشاف ہو ا ہے کہ تنظیم سے منسلک بہت سے تربیت یافتہ افراد دیگر مذموم کاموں میں پڑ گئے ہیں،آج تک جنتے بھی کرائے کے قاتل پکڑے گئے ان کا تعلق انتہائی غریب گھرانوں سے بتایا گیا ہے جو زیادہ تر روزگارکے چکر میں شرپسندوں کے ہاتھوں میں کھلونا بن کر کرائے کے قاتل بن جاتے ہیں اور دھندے میں ملوث مافیا ان مجبور افراد کی مجبوری سے فائدہ اٹھا کر انہیں قدم قدم پر موت کے منہ میں دھکیل کر مزید گروہ تشکیل دیتاہے اورموت بانٹتا پھرتا ہے۔

جرم کی دنیا میں قدم رکھنے والوں کی تربیت اس انداز میں کی جاتی ہے کہ انہیں قتل وغارت گری لوٹ مار کے سوا اور کچھ نظر ہی نہیں آتا اور پھر وہ جرائم کی دنیا کی دلدل میں دھنستا ہی چلا جاتا ہے اس کے علاوہ کئی بے گناہ شخص بھی جیل جا کر جرائم کی دنیا میں انٹری دیتے ہیں اور پھروہ پیچھے مڑنے کا نام ہی نہیں لیتے اگر وہ چاہے بھی تو پولیس اسے اتنا مجبور کرتی ہے کہ ہاں میں ہاں ملائے چلا جاتا ہے اور پھربدمعاش کہلاتا ہے ،ڈاکو کہلاتا ہے،شوٹرکہلاتا ہے۔

سیاستدانوں سے لیکر پولیس تک ملزمان سے چند ہزار کے عوض اپنے مخالفین کو مروانے کا کام لیتے ہیں قانون پر عمل نہ ہونے کی وجہ سے شہر بھر میں پھیلا جرائم کی دنیا کے نیٹ ورک کو عام پولیس والے سے لیکر ہائی لیول تک سب کو پتہ ہوتا ہے کہ کون کون کیا کیا دھندہ کرتا ہے لیکن جیب گرم ہونے اور سیاسی آشیر باد کی وجہ سے کوئی کارروائی نہیں کرسکتا۔ضرورت اس بات کی ہے کہ تفتیشی سے لیکر عدالتوں تک قانون کی حکمرانی قائم کی جائے توتب کہیں جا ملک ریاست مدینہ بن سکتا ہے ورنہ شوٹرز کے پیداہونے کو کوئی نہیں روک سکتا؟

٭٭٭

تبصرے بند ہیں.