اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور عظیم تعلیمی درسگاہ

244

گزشتہ ہفتے مجھے ساتھی کالم نگار کی کال آئی کہ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کا وزٹ کرنے جانا ہے کیا آپ بھی جانا چاہتے ہیں۔ میں نے سفری مشکلات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے جھٹ سے بغیر سوچے سمجھے جواب ناں میں دے دیا لیکن جب انہوں نے مزید بتایا کہ میرے جانے کی وجہ صرف یہ ہے کہ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور 52000 طلبا کی تعلیمی ضروریات پورا کر رہی ہے تو میرا تجسس بھی بڑھا کہ دیکھنا چاہئے اتنے دور افتادہ علاقے میں اس قدر طلبا و طالبات کا داخلہ۔ سو میں بھی اس کارواں میں شامل ہوگیا جو کہ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور جا رہا تھا۔
وائس چانسلر اطہر محبوب سے ملاقات میں انہوں نے ہمیں بتایا کہ جامعات کسی بھی معاشرے کی ترقی اور خوشحالی میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ جامعات ترقی اور تبدیلی کے لئے نہ صرف افرادی قوت مہیا کرتی ہیں بلکہ اس ترقی اور تبدیلی کے عمل کو وقوع پذیر ہونے میں بنیادی کردار ادا کرتی ہیں۔ اعلیٰ تعلیم کا شعبہ معاشرے کی سماجی اور معاشی ترقی میں قائدانہ کردار ادا کرتا ہے۔ قوموں کی ترقی در اصل جامعات میں ہونے والی تدریس و تحقیق کی مرہونِ منت ہوتی ہے۔ اس لئے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں تعلیم کے ساتھ ساتھ تحقیق کی اہمیت کو اجاگر کرنے پر خصوصی توجہ دی جا رہی ہے اور اس حوالے سے یونیورسٹی کے تمام شعبہ جات کو واضح ہدایات جاری کر رکھی ہیں کہ تحقیق کے عمل کو نہ صرف مسلسل جاری رکھا جائے بلکہ اس کو زیادہ سے زیادہ پروان چڑھایا جائے تا کہ ملک و قوم کی ترقی میں تحقیق اور زیادہ اہم کردار ادا کر سکے۔
وائس چانسلر نے مزید بتایا کہ ریاست بہاولپور کے حکمرانوں نے مصر کی جامعہ الازہر کی طرز پر بہاولپور میں ایک بہترین دانش گاہ کی بنیاد رکھی۔ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کی ابتدائی شکل مدرسہ صدر علومِ دینیات کی شکل میں سامنے آئی جو 1925ء کو جامعہ عباسیہ کی شکل میں ظہور پذیر ہوئی۔ 1950ء میں والئی ریاست ہز ہائنس سر صادق محمد خان عباسی پنجم کے حکم پر صادق ایجرٹن کالج سے متصل ایک عظیم الشان عمارت تعمیر کی گئی اور یوں جامعہ عباسیہ کا مرکزی کیمپس وجود میں آ گیا جو اس یونیورسٹی کی پہچان ہے۔ 1963ء میںصدرِ پاکستان فیلڈ مارشل ایوب خان نے جامعہ عباسیہ کا دورہ کیا اور اسے جامعہ اسلامیہ کے نام سے موسوم کیا اور 1975ء میں اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے طور پر پنجاب اسمبلی سے چارٹر قرار پائی۔ تقریباً 1300 ایکڑ پر مشتمل یونیورسٹی ایک جدید، فعال اور پر رونق ادارہ بن چکی ہے جہاں بلند و بالا تدریسی عمارتیں، سرسبز شاداب میدان، جدید طرز کے ہاسٹلز، رہائشی کالونیاں، فارم ہاؤسز اور باغات یونیورسٹی کی خوبصورتی کی عکاس ہیں۔ یونیورسٹی میں اس وقت 13فیکلٹیاں قائم ہیں جب کہ شعبہ جات کی تعداد 130ہے۔ طلبا و طالبات کی تعداد 52000سے زائد ہے۔ 1200 اساتذہ میں سے 500 سے زائد پی ایچ ڈی کے حامل ہیں۔ امریکی یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل وائس چانسلر ڈاکٹر اطہر محبوب تمغۂ امتیاز ایک نامور ماہرِ تعلیم اور مثالی منتظم کے طور پر پہچانے جاتے ہیں۔ ایک ہمہ جہت نابغۂ روزگار شخصیت ہونے کے ناتے وطنِ عزیز میں وہ ایک نامور انجینئر، منتظم، ماہر تعلیم اور صنعتی ماہر کے طور پر منفرد مقام رکھتے ہیں۔ جامعات کی صف میں اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور جس برق رفتاری سے اپنی رینکنگ بہتر کر رہی ہے وہ مثالی ہے۔ یہی چیز اس یونیورسٹی کو منفرد بھی بناتی ہے اور اس کا سہرا صرف اور صرف وائس چانسلر کے سر ہے جنہوں نے اپنی علمی اور ذہنی صلاحیت کو اسلامیہ یونیورسٹی تک محدود نہیں رکھا بلکہ ان کی ذہانت کے باعث ملک کو درپیش بحرانوں سے نکالنے کے فارمولے بھی پیش کئے گئے ہیں۔ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کا شمار ملک کی صفِ اول کی جامعات میں ہوتا ہے جس کی ایک وجہ نئے علوم کی تلاش اور تحقیق کے عمل کو برق رفتاری سے جاری رکھنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور ملک میں ایک مستند، اعلیٰ و معیاری تعلیم کے فروغ کا منبع بنی ہوئی ہے اور جہاں طالب علم پڑھنا فخر سمجھتے ہیں، جہاں اساتذہ کی تدریسی خدمات کسی طور پر بھی جھٹلائی نہیں جا سکتی جہاں میرٹ کا بول بالا ہے۔یونیورسٹی سے جب اس قدر زیادہ تعداد میں ہائی کوالٹی گریجوایٹ نکلیں گے تو اس سے اس ریجن میں نہ صرف اکنامک ایکٹیوٹی بڑھے گی بلکہ لاہور سے یا دوسرے بڑے شہروں سے انڈسٹری ساؤتھ پنجاب کی جانب شفٹ ہو گی کیونکہ ان کو ٹرینڈ، سکلڈ ورک فورس کم لاگت پر دستیاب ہو گی۔ یہاں پر صنعتی ترقی کے بہت سے مواقع میسر ہوں گے۔ یونیورسٹی نے گجرات چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری سے معاہدے کئے ان کی انڈسٹری کو یہاں لے کر آئے، بہاولپور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری سے مل کر کام کر نے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ گورنمنٹ کے دیگر اداروں کے ساتھ چاہے وہ ایگریکلچر ہو، لائیو سٹاک ہو، ایجوکیشن ہو، سپیشل ایجوکیشن ہو، یا دیگر سوشل سروسز کے ادارے ہوں سب کے ساتھ اسلامیہ یونیورسٹی کا یونیورسٹی کا ڈیپارٹمنٹ منسلک ہو گیا ہے۔ طلبا کو جدید دور سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ضرورت مند ذہین بچوں کو بڑے تعداد میں وظائف بھی مہیا کئے جا رہے جس کے لئے نہ صرف یونیورسٹی اپنے پاس سے بلکہ جگہ جگہ دروازے کھٹکھٹا کے گورنمنٹ ایجنسیوں سے اور دیگر سماجی اداروں سے بھی وظائف اکٹھے کر کے بچوں کو دلوائے جا رہے ہیں تا کہ ذہین بچے وسائل نہ ہونے کی وجہ تعلیم سے محروم نہ رہ جائیں۔
وائس چانسلر اطہر محبوب نے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ مہذب اور خوشحال معاشرے کا خواب انہی ممالک میں پورا ہوتا ہے جو تعلیم کے معیار کو بہتر کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔ جہاں اساتذہ اور طلبا کے درمیان بہترین ہم آہنگی ہو، حکومتیں اپنے اداروں سے مخلص ہوں، یہ بات سب جانتے ہیں کہ معاشرے کی اصلاح اور مسائل کا حل تلاش کرنا صرف اداروں کا ہی کام ہے، یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں زیادہ سے زیادہ رقوم تعلیم اور صحت کے لئے مختص کی جاتی ہیں۔ یہ سب کچھ جانتے ہوئے کہ نوجوانوں کا اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونا بہت ضروری ہے، اس زمانے میں تعلیم کے میدان میں نمایاں کارنامے تاریخ کا حصہ بنیں گے تو ملک ترقی کی جانب مائل ہو سکتا ہے۔غور طلب بات یہ ہے کہ جب ملک کی ترقی اور خوشحالی میں پڑھے لکھے لوگوں کا کردار تسلیم کیا جاتا ہے تو یہ بھی مان لیا جانا چاہئے کہ مہذب معاشرے کی تکمیل میں ہر شخص کا تعلیم یافتہ ہونا ناگزیر ہے، جس کے لئے ضروری ہے کہ ادارے، اساتذہ اور طلبہ سب اپنی اپنی ذمہ داریاں بھر پور طریقے سے انجام دیں۔ جامعات کو جدید اور فعال ہونا چاہئے جو ہمہ وقت متحرک ہوں اور تدریس اور تحقیق سے ملک و ملت کو عملی فائدہ پہنچائیں۔ اس مقصد کے لئے جامعات کو انتظامی امور میں مٔوثر، مالی طور پر خود کفیل اور انفارمیشن ٹیکنالوجی سے لیس ہونا چاہئے تا کہ تمام امور کو خودکار بنا کر تیزی اور شفافیت کو یقینی بنایا جا سکے۔ اساتذہ، ملازمین اور طلبا و طالبات کو سازگار ماحول کی فراہمی انتہائی اہم ہے تا کہ وہ یکسوئی سے اپنی سرگرمیاں جاری رکھ سکیں۔ حقیقت میں جامعات کا کردار ہونہاروں کو اس قابل بنانا ہے کہ وہ ملک و قوم کی ترقی ، خوشحالی اورا ستحکام کا باعث بن سکیں۔ بہاولپور یونیورسٹی اسی مشن پر گامزن ہے۔

تبصرے بند ہیں.