چیف جسٹس کا خطاب۔۔۔ امید کی نئی لہر

60

وزیر اعظم عمران خان اور ان کے وزراءبار بار کہہ رہے ہیں کہ ان کی حکومت کو کوئی خطرہ نہیں ہے وہ اپنی مدت پوری کرے گی حکومت کو رخصت کرنے کا خواب دیکھنے والے سیاسی دوست اگلے انتخابات کاانتظار کر یں عام فہم بات یہ ہے کہ ا ن کی حکومت کو کوئی خطرہ نہیں تو بار بار یہ کہنے کی کیا ضرورت ہے یقینا کہیں نہ کہیں دال میں کچھ کالا ہے۔ ویسے ہمارا ماضی اس امر کا گواہ ہے کہ جب حکمران تواتر سے اپنے دور حکمرانی کی مدت پوری ہونے کی باتیں اور کر سی مضبوط ہونے کا ذکر کرنے لگیں تو یقینا اندر خانہ کوئی نہ کوئی خرابی پیدا ہو چکی ہوتی ہے۔ حکومت اگر اپنی کار گزاری کا جائزہ لے تو اسے اندازہ ہو جائے گا کہ جو لوگ اس کی مقبو لیت میں کمی کی باتیں کررہے ہیں وہ غلط نہیں ہیں ان کے ذہن کے کسی گوشے میں یہ اندیشہ موجود ہے کہ اپو زیشن کے پروپیگنڈے کے نتیجے میں انتخابات وقت سے پہلے بھی ہو سکتے ہیں ۔ جہاں تک خوشحال اور ترقی یافتہ پاکستان وژن کو پورا کرنے کے دعوو¿ں کا تعلق ہے تو موجودہ حکومت کے ساڑھے تین سال کی کار کردگی کو دیکھتے ہوئے عام لوگ یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ اس جمہوریت سے تو مشرف کا دور ہی بہتر تھا ہر حکومت کو ماضی کی حکومت سے کچھ نہ کچھ مسائل ورثے میں ضرور ملتے ہیں لیکن انہیں حل کرنے اور عوام کی مشکلات دور کرنے کی کوشش کی جاتی تو ان میں کمی لائی جاسکتی تھی ۔ لیکن یہاں تو بد امنی ، کرپشن ، مہنگائی ، بیروز گاری ، بجلی اور گیس کے نرخوں میں غیر معمولی اضافے اور معیشت کی زبوں حالی سے لوگ بلبلا اٹھے ہیں حکومت کو اپنی کار کردگی پر نظر ڈالنی چاہئے کہ کہیں اس کی وجہ حکومت کی اپنی خراب کا کارکردگی تو نہیں ، دوسروں کے طرز عمل پر تنقید کرنے کے بجائے اپنی کار کردگی کو بہتر بنانے پر توجہ دینا زیادہ مناسب ہوگا مگر لگتا ہے کہ حکومت لوگوں کے مسائل حل کرنے کے بجائے اپنے 5سال پورے کرنے میں زیادہ دلچسپی رکھتی ہے تاہم عام شہری اب حکومت کی ناقص کار کردگی کے باعث عاجز آچکے ہیں یہی وجہ ہے کہ اندر باہر تبدیلی کی باتیں ہو رہی ہیں ۔فی الحال تو حکومت نے اپنی مرضی کے تمام بل منظور کروا کر اپنی عددی برتری ثابت کر دی ہے جس محنت سے تمام اداروں نے مل کر بل پاس کروائے اگر اس سے آدھی محنت بھی عوامی مسائل حل کرنے میں کی جاتی تو تمام عوامی مسائل حل ہو جاتے۔ایک بات طے ہے کہ عوام کو صرف اس بات سے دلچسپی ہوتی ہے کہ حکومت ان کے لئے کیا کر رہی ہے ۔اس لئے ابھی بھی وقت ہے کہ حکومت عوام کے لئے سوچے اور اسے سہولیات دے مہنگائی میں کمی کرنے کے فارمولے تلاش کرے نہ کہ برطانیہ اور امریکہ سے موازنہ کر کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرے کہ پاکستان دنیا کا سستا ترین ملک ہے ۔
پاکستان میں جو بھی حکومت آئی اس کے تقریبا یہی مسائل رہے جن ممالک نے ترقی کی وہاں انہوں نے عدلیہ کے نظام کو ٹھیک کر کے اپنا راستہ بنایا بدقسمتی سے ہمارے ہاں جہاں باقی نظام درست کرنے میں موجودہ اور ماضی کی حکومتوں نے کام نہیں کیا وہاں عدلیہ کی اصلاحات کے لئے بھی کام نہیں کیا گیا ۔جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج دنیا میں ہماری عدلیہ کا نمبر 130میں سے 126واںہے جبکہ مراعات میں دسویں نمبر پر ہے۔ عدلیہ کے ساتھ آج تک جو سلوک کیا گیا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ۔ نواز حکومت کے دور میں سپریم کورٹ پر حملہ بھی کیا گیا ۔ہر حکومت نے کسی نہ کسی طریقے سے عدلیہ پر دباﺅ ڈالا مارشل لاءدور کی تو بات ہی الگ ہے یہ سب جمہوری ادوار میں ہوا جسٹس قیوم ملک سے لے کر ارشد ملک تک کی آڈیو اور وڈیو ز سامنے آئیں اور اب جسٹس شمیم کا جسٹس ثاقب نثار بارے بیان بھی معنی خیز ہے اور ادارے پر سوالیہ نشان ہے ۔ہمارے ہاں تو بات اس حد تک پہنچ چکی تھی لوگ سر عام کہنے لگے تھے کہ اب وکیل نہیں جج کرو۔سیشن کورٹس کا تو آج بھی باوا آدم نرالا ہے ہر قدم پر کرپشن آج بھی موجود ہے۔تاریخ گواہ ہے کہ جہاں اس ایک ادارے کا قبلہ درست ہوا وہاں قومیں خوشحال ہوئیں مسائل ختم ہوئے ۔کاش ہمارے ہاں بھی ایسا ہو سکے افسوس تو تب ہوتا ہے جب ہم سوچتے ہیں کہ ہمارے مذہب نے تو انصاف کی سب سے زیادہ بات کی غیروں نے تو اسے اپنا لیا لیکن ہم نہ اپنا سکے نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے ۔آج موجودہ چیف جسٹس کا یہ بیان سن کر امید کی ایک نئی لہر جاگی ہے۔ لاہور میںخطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ ’کبھی کسی ادارے کی بات سنی اور نہ کبھی ادارے کا دباو¿ لیا، مجھے کسی نے نہیں بتایا کہ فیصلہ کیسے لکھوں، کسی کو مجھ سے ایسے بات کرنے کی کوئی جرات نہیں ہوئی، کسی نے میرے کام میں مداخلت نہیں کی، اپنے فیصلے اپنی سمجھ اورآئین و قانون کی سمجھ کے مطابق کیے‘۔معزز چیف جسٹس نے کہا کہ ’آج تک کسی کی ڈکٹیشن دیکھی، سنی اور نہ ایسا کوئی اثرلیا، یہی کردار میرے ججز کا ہے، مجھے کوئی نہیں کہہ سکتا کہ میں نے ڈکٹیشن لی، میری عدالت لوگوں کو انصاف دیتی ہے، ہماری عدالت قانون کی پیروی کرتے ہوئے کام کررہی ہے اور سپریم کورٹ کے ججز محنت کے ساتھ لوگوں کو انصاف فراہم کررہے ہیں۔اگر اسی طرح ماضی میں بھی کام ہوتا رہتا تو آج ہمیں یہ دن نہ دیکھنا پڑتا کہ ہماری عدلیہ کا نمبر آخری نمبروں میں نہ ہوتا۔ابھی بھی وقت ہے کہ ہماری عدلیہ اور اس سے منسلک لوگ انصاف کی فراہمی کے لئے چیف جسٹس جناب جسٹس گلزار کی طرح ہو جائیں اور یکسو ہو کر نبی پاک کے نقش قدم پر چلنا شروع کر دیں تو وہ وقت دور نہیں ہو گا جب ہمارا نمبر انصاف فراہم کرنے والے ممالک میں سب سے پہلے ہو گا اس دن عوام بھی خوشحال ہو گی اور کرپشن کرنے والا ہزار بار سوچے گا ۔جو بھی حکومت ہو گی کوئی ایسا فیصلہ نہ کر سکے گی جو عوام دشمنی پر منحصر ہو گا ۔ اس طرح ملک مستحکم ہو گا عوام خوشحال ہو گی۔

تبصرے بند ہیں.