ایک گھنٹہ ایوانِ صدر میں

90

پچھلے ایک لمبے عرصے سے ہر سال نومبر کی نو تاریخ کو وطنِ عزیز میں جابجا قومی شاعر حضرتِ علامہ اقبالؒ کی یاد میں تقریبات کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ ان تقریبات میں اقبال کی حیات بخش شاعری، ان کی عصری معنویت اور ان کے آفاقی پیغام کا ذکر کیا جاتا ہے اور اردو شاعری میں ان کے منفرد مقام اور نادر شعری کمالات کا بھی اجمالاً ہی سہی، مگر بہرحال ذکر آ جاتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اردو ہی کیا، فارسی شاعری میں بھی اقبال اپنے بے مثال اسلوب کے باعث دور سے پہچانے جاتے ہیں۔ انھوں نے نہ صرف اہلِ پاکستان اور ملتِ اسلامیہ کے لیے حیات افروز فکری نسخے تجویز کیے ہیں بلکہ اہلِ عالم کے لیے بھی ان کا پیغام زندگی اور نشاۃِ ثانیہ کی نوید ہے۔ بساطِ شعر پر ایسے شاعر کا وجود اور ظہور نایاب کے حدود میں داخل ہے۔ اقبال کے اسی زندگی بخش پیغام اور ان کی گرمیِ آواز کے تند، تیز اور شعلہ نوش لہجے کو اجاگر کرنے کے لیے کئی ادارے وجود میں لائے گئے۔ انھی میں ایک ادارہ اقبال اکادمی پاکستان کے نام سے تخلیقِ پاکستان کے تین برس بعد انیس سو اکاون میں قائم کیا گیا جو اب پچھلے کئی برس سے مرکزی حکومت کے قومی ورثہ و ثقافت ڈویژن کے زیرِ اہتمام فکر اقبال کی ترویج و اشاعت میں اپنا کردار بڑی خوبی اور توانائی سے ادا کر رہا ہے۔
اقبال اکادمی پاکستان نے نہ صرف اقبال کے فکر و فن کو کئی بڑی عالمی زبانوں میں متعارف کرانے کی سعی کی ہے بلکہ پاکستانی اور بین الاقوامی اہلِ قلم کو بھی اقبال پر لکھنے کی مسلسل تحریک کی ہے۔ اس ضمن میں اکادمی نے قومی اور بین الاقوامی اقبال ایوارڈ دینے کا آغاز و اجرا بھی اب سے کم و بیش چالیس برس پہلے ۱۹۸۱ء میں کیا۔ قومی صدارتی ایوارڈ کے لیے تین انعامات رکھے گئے: ایک انعام بہترین اردو کتاب پر، دوسرا بہترین انگریزی کتاب پر اور تیسرا کسی بھی اہم پاکستانی زبان میں لکھی گئی بہترین کتاب پر۔ چونکہ اقبال کی فکر آفاقی ہے لہٰذا اسے اجاگر کرنے کے لیے ایک بین الاقوامی صدارتی ایوارڈ بھی جاری کیا گیا جو کسی بھی اہم غیر ملکی زبان میں اقبال پر لکھی گئی بہترین کتاب پر دیا جاتا ہے۔ جہاں قومی سطح پر یہ ایوارڈ کئی معروف اقبال شناسوں مثلاً ڈاکٹر غلام مصطفی خاں، سید نذیر نیازی، بشیر احمد ڈار، ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی ، مرزا محمد منور، ڈاکٹر سید عبداللہ، ڈاکٹر وحید قریشی، پروفیسر فتح محمد ملک اور ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی وغیرہ کو دیے گئے وہیں بین الاقوامی اقبال ایوارڈ ڈاکٹر این میری شمل اور ڈاکٹر نتالیا پریگارینا کو عطا کیے گئے۔ میری خوش بختی ہے کہ ان دونو نامور اقبال شناسوں خصوصاً این میری شمل سے میری تین چار خوشگوار ملاقاتیں رہیں۔ ۱۹۹۷ ء میں بیلجیم کے تاریخی شہر گینٹ میں ’’اقبال اینڈ موڈرن ایرا‘‘ کے زیر عنوان جو یادگار بین الاقوامی سمپوزیم ہوا تھا ، اس میں پاکستان سے جن پانچ اقبال شناسوں نے شرکت کی تھی ان میں یہ عاجز بھی شامل تھا۔ یہ سمپوزیم اقبال فاؤنڈیشن یورپ کے زیر اہتمام منعقد ہوا جس کی روح رواں ڈاکٹر این میری شمل اور مرحوم ڈاکٹر سعید اختر درانی تھے۔ اسی سمپوزیم میں نتالیا پریگارینا نے بھی اظہارِ خیال کیا تھا اور میں نے ان کے مقالے کے ایک دو نکات سے مختصر اً اختلاف کیا تھا۔ افسوس درانی صاحب کی طرح شمل بھی عدم کی وادیِ دورودراز کو سِدھار چکیں۔ اللہ نتالیا پریگارینا کو تادیر سلامت رکھے کہ وہ اقبال سے گہری عقیدت رکھتی ہیں اور مشرقی فکریات سے بھی آگاہ ہیں۔
اس سال ۹ نومبر کا دن اس اعتبار سے بہت اہم تھا کہ اب کے کئی برس کے تعطل کے بعد اس مبارک موقع پر قومی صدارتی اقبال ایوارڈ کے عطا کیے جانے کی تقریب ایوانِ صدر اسلام آباد میں برپا کی گئی۔ اس تقریب کا ا نعقاد اقبال اکادمی پاکستان اور قومی ورثہ و ثقافت ڈویژن کے اشتراک سے کیا گیا۔ مجھے یاد ہے کہ عام طور پر عطائے انعامات کی ان تقریبات کا انعقاد ایوانِ اقبال لاہور ہی میں ہوا کرتا تھا مگر اس سال اسے ایوانِ صدر میں منعقد کیا گیا۔ تقریب کی صدارت اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدر ڈاکٹر عارف علوی نے کی اور مہمانانِ اعزاز میں وفاقی وزیرِ تعلیم جناب شفقت محمود اور سینیٹر ولید اقبال شامل تھے۔ اکادمی کی ڈائریکٹر محترمہ بصیرہ عنبریں نے بڑی نستعلیق اردو میں استقبالیہ کلمات ادا کیے۔ مہمانانِ اعزاز نے بھی فکرِ اقبال کی عصری معنویت کو اجاگر کیا۔ اس تقریب کا ایک امتیاز یہ بھی تھا کہ اس میں معمول کے سامعین کے علاوہ ملک کے کئی معروف اقبال شناسوں کو بطور حاضرین شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔ تقریب میں جن اقبال شناسوں کو قومی صدارتی اقبال ایوارڈ کا مستحق قرار دیے جانے کے فیصلے کے بعد مدعو کیا گیا تھا ان میں ڈاکٹر اسلم انصاری، خرم علی شفیق، ظفر علی راجا، ڈاکٹر خالد الماس، محمد اعجاز الحق اور راقم الحروف شامل تھے۔ ڈاکٹر سید عبداللہ کی مشہور کتاب ’’علامہ اقبال مسائل و مباحث‘‘ پر ایوارڈ وصول کرنے کے لیے ان کی صاحبزادی، معروف سکالر اور افسانہ نگار ڈاکٹر عطیہ سید موجود تھیں۔ صدر ڈاکٹر عارف علوی نے انعام یافتگان کو طلائی تمغے عطا کیے اور بعد ازاں صدارتی کلمات سے نوازا۔
مجھے میری جس کتاب پر قومی صدارتی اقبال ایوارڈ کا مستحق قرار دیا گیا تھا وہ ۲۰۱۵ء میں پورب اکادمی اسلام آباد کے زیر اہتمام شائع ہوئی تھی۔ ’’اقبال دیدۂ بینائے قوم‘‘ نامی یہ کتاب بارہ مقالات پر مشتمل ہے اور اس میں فکرِ اقبال کے کئی پہلوؤں کا احاطہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اقبال پر لکھتے وقت میری کوشش ہمیشہ یہ رہی کہ اس بے مثل فلسفی شاعر کی فکر کے کچھ نادر پہلو زیرِبحث آ جائیں۔ اس کتاب میں شامل کئی مقالات قومی اور بین الاقوامی کانفرنسوں میں پڑھے گئے۔ کتاب کے مشمولات میں ’’نیا نظامِ عالم اور فکرِ اقبال‘‘، ’’اقبال کا تصورِ تہذیب‘‘، ’’اسلامی ادب کی ترویج میں اقبال کا کردار‘‘، ’’علامہ اقبال اور اتحاد عالم اسلامی‘‘، ’’عالمگیریت کی صورت حال اور فکر اقبال‘‘، ’’ایران میں اقبال شناسی کے دس برس‘‘ اور ’’اقبال اور ہیگل‘‘ ایسے مقالات ہیں جنھیں اہلِ علم اور اقبال شناسوں نے قدر کی نگاہ سے دیکھا۔ میری یہ کتاب چند برس پہلے دہلی سے بھی شائع ہو چکی ہے۔ کتاب میں شامل مقالات ۱۹۹۷ء سے ۲۰۱۴ء کے دوران لکھے گئے۔
میرا ایک عرصے سے ایقان رہا ہے کہ اقبال نہ صرف عالمِ اسلام کے اتحاد، ارتقا اور حیاتِ نو کے ضامن ہیں بلکہ ان کا ہمہ گیر اور آفاقی پیغام اپنے اندر اقوامِ عالم کی تقدیروں کو بدلنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔ انھوں نے زندہ قوموں کی شناخت اور تشخص کا ایک اصول اور مظہر کس خوبی سے طے کر دیا تھا:
نشاں یہی ہے زمانے میں زندہ قوموں کا
کہ صبح و شام بدلتی ہیں ان کی تقدیریں
کمالِ صدق و مروت ہے زندگی ان کی
معاف کرتی ہے فطرت بھی ان کی تقصیریں
اقبال نے جن ابدی، فکری اور روحانی سرچشموں سے حیات خیز، حیات آموز اور حیات افروز تصورات کشید کیے ہیں، وہ زندگی اور زمانے کی پے بہ پے گردشوں کے باوجود کبھی دھندلا نہیں پائیں گی۔ لوح شاعری پر لکھی اقبال کی تحریریں ہمیشہ بہار رہیں گی اور اربابِ فکر و فرہنگ ان ابدی سوتوں سے ہمیشہ اپنی تشنگی بجھانے کا سرو سامان کرتے رہیں گے۔ اقبال پر ایک مدت پہلے لکھی اپنی ایک نظم مجھے یاد آتی ہے جس میں اقبال کو ایک سدا بہار درخت قرار دیتے ہوئے میں نے لکھا تھا:
درخت تو یونہی حسبِ سابق
بہ فیض ایمان و آگہی اپنی چھایا کی ٹھنڈی اور میٹھی
سجل، سبک، شہد وش سبیلیں لگائے بیٹھا ہے اور آبِ بقا کے ساغر اچھالتا ہے
ہماری صبحیں اجالتا ہے
ہمارے دکھ درد ٹالتا ہے
یہ فکروفن کا امامِ اعظم
یہ میرا محسن یہ میرا ہمدم
رہے گا پیہم!
اقبال اکادمی پاکستان نے ملتِ اسلامیہ پاکستان کے اسی محسن و ہمدم کی یاد کو ایک یادگار تقریب میں ڈھال دیا جس کے لیے اکادمی کے جملہ کارکنان اور ادارے کی سربراہ ہمارے تشکر کی مستحق ہیں۔ امید ہے فکرِ اقبال کا یہ کارواں اسی جوش و جذبے اور ان تھک عزم کے ساتھ منزلوں پر منزلیں مارتا رہے گا، رستے کے کانٹوں کو سمیٹتا رہے گا اس ایقان کے ساتھ کہ:
گلِ مراد ہے منزل میں، خارراہ میں ہے!

تبصرے بند ہیں.