اس وقت ہمارا ملک پاکستان کئی اندورنی اور بیرونی بحرانوں سے گزر رہاہے ۔بے شمار سینئر سیاسی تجزیہ کار اس موجودہ صورتحال کو دیکھ کر مختلف تجزیے کر رہے ہیں کہ ملک ایک بڑی سیاسی تبدیلی کی طرف بڑھ رہا ہے ۔اس وقت ملک میں پی ڈی ایم حکومت کیلئے مشکلات پیدا کرنے میں کامیاب ہوتی دکھائی دے رہی ہے ۔پی ڈی ایم کی کامیابی کو دیکھتے ہوئے پی پی پی نے دوبارہ شہباز شریف سے ملاقات کی اور پی پی پی کے بیانات سے ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ جیسے وہ دوبارہ پی ڈی ایم کا حصہ بننا چاہتی ہے ۔پی پی پی کی کچھ اپنی شرائط ہیں جس کی وجہ سے وہ پی ڈی ایم کا ابھی حصہ نہیں بن رہی۔
پی ڈی ایم اور پی پی پی میں جو بڑا ڈیڈلاک ہے وہ یہ کہ پی ڈی ایم مرکز میں حکومت گرانا چاہتی ہے مگر پی پی پی یہ کہتی ہے کہ ن لیگ پہلے پنجاب میں حکومت گر ا دے پھر ہم مرکز کو باآسانی گرانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
میری نظر میں پی ڈی ایم اور پی پی پی جن چار شرائط پر متفق ہوئی ہے ان میں پہلے نمبر پر ملک بھر میں مہنگائی کے خلاف احتجاج کیا جائے جس سے حکومت کو سیاسی اور انتظامی طور پر مفلوج کر دیا جائے۔ اس کے نتیجہ میں وزیراعظم خود ہی استعفیٰ دے دیں گے۔دوسری یہ کہ اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کیا جائے اور حکومت پر دبائو بڑھایا جائے اور دبائو کے نتیجے میں اگلے سال کے شروع ہوتے ہی حکومت مارچ یا پھر اپریل میں خود ہی انتخابات کا اعلان کر دے۔تیسری یہ کہ تمام اپوزیشن جماعتوں پر مشتمل قومی حکومت بنا دی جائے یا پھر ٹیکنوکریٹ پر مشتمل فارمولے کی طرف پیش قدمی کی جائے۔ چوتھی اس میں پی پی پی کی ڈنمانڈ ہے کہ پنجاب میں اور مرکز میں تحریک عدم اعتماد کی بنا پر وزیراعظم اور وزیر اعلیٰ تبدیل کر دیا جائے ۔اگر ہم چوتھی ڈیمانڈ کو مدنظر رکھیں تو ہمیں یہ سمجھ جانا چاہیے کہ اگر ان ہائوس تبدیلی ہو تی ہے تو مرکز میں پھر بھی حکومت پی ٹی آئی ہی کی رہے گی مگر پنجاب میں حکومت ن لیگ کی بن جائے گی۔ اور ن لیگ اس صورتحال میں پنجاب میں حکومت نہیں لے گی کیونکہ اس سے ان کے ووٹ بنک پر اثر پڑے گا۔
اپوزیشن کے اندر اب جو پیش قدمی ہو رہی ہے وہ یہ سمجھ رہی ہے کہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان اب پہلے جیسے تعلقات نہیں رہے اور جو عمران خان صاحب اکثر کہتے ہیں کہ حکومت اور فوج ایک پیج پر ہیں مگر ٹی ایل پی کے لانگ مارچ نے یہ واضع کر دیا کہ حکومت اور فوج ایک پیج پر نہیں ہیں بلکہ دوری دکھائی دے رہی ہے۔کیونکہ عمران خان نے کہا تھا کہ وہ کسی صورت بھی سعد رضوی کو نہیں چھوڑیں گے اور ان سے کسی بھی طرح کے مذاکرات
نہیں ہوں گے۔لیکن آرمی چیف کی مداخلت کے بعد حکومت کو ٹی ایل پی سے ان کی شرائط پر مذاکرات کرنے پڑے اور جو وزراء ٹی ایل پی پر سنگین الزامات لگا رہے تھے ٹی ایل پی کی ڈیمانڈ پر ان وزراء کو مذاکرات میں شامل بھی نہیں کیا گیا اور حکومت کو یو ٹرن لینا پڑا۔ ٹی ایل پی کے لانگ مارچ میں ان کے کئی کارکنان شہید ہوئے اور ساتھ ساتھ کئی پولیس والے بھی شہید ہوئے۔ ٹی ایل پی کے اکثر مطالبات حکومت کو ماننا پڑے۔ ان کو کالعدم قرار دیا گیا تھا ایک نوٹیفکیشن کے بعد کالعدم کی پابندی ہٹا دی گئی اور پنجا ب حکومت نے وفاقی حکومت کو سمری بھجوائی اور یہ بتایا کہ اب ٹی ایل پی ایک سیاسی تنظیم کے طور پر رہے گی اور آئندہ کوئی پُرتشدد واقعہ رونما نہیں ہونے دے گی۔ سمری میں یہ بھی کہا گیا کہ ٹی ایل پی مستقبل میں آئین پاکستان اور ملکی قوانین کا احترام کرے گی۔
جب یہ سمری پیش کی گئی تو 22 وزراء میں سے 6وزراء نے اس سمری کی مخالفت کی اور 16 وزراء نے اس کے حق میں ووٹ دیا۔ اور اس سمری کے پاس ہونے کیلئے 14وزراء کی حمایت ضروری تھی۔2ووٹوں کی برتری سے یہ سمری پاس ہو گئی۔ اب پی ڈی ایم میں جو جماعتیں شامل ہیں ان کا اپنا ووٹ بنک ہے اور وہ اپنی جگہ مظبوط جماعتیں ہیںجیسے کہ پنجاب میں ن لیگ کا اور کے پی کے میں مولانا فضل الرحمن اور اے این پی کا ووٹ بنک ہے ان کے پاس کارکن بھی موجود ہیں لیکن اب جو ملکی سیاست میں اہم پیش رفت ہوئی ہے اور وہ ٹی ایل پی کی طرف سے ہوئی ہے ۔ٹی ایل پی نے اس لانگ مارچ کے ذریعے بہت تیزی سے عوام کے دلوں میں اپنی جگہ بنا لی ہے۔ 2018میں جو سٹریٹ پاور پی ٹی آئی کے پاس تھی وہ اب ٹی ایل پی کے پاس ہے اب ان کو ورکرز کی کمی نہیں۔ان کے پاس ایسے ورکرزموجود ہیں جو بنا کسی لالچ کے ان کی ایک کال پر لبیک کہتے حاضر ہو جاتے ہیں۔ٹی ایل پی کی اس مقبولیت سے تمام سیاسی جماعتیں اندر سے پریشان دکھائی دے رہی ہیں اور سب سے زیادہ پی ٹی آئی پریشان ہے کیونکہ 2018میں ٹی ایل پی نے ن لیگ کا ووٹ توڑا تھا اور اب پی ٹی آئی کا ووٹ ٹوٹ کرٹی ایل پی کو مل جائے گا اسی لئے ابھی سے حکومتی لوگ ٹی ایل پی سے اگلے الیکشن میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی باتیں کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔میرا اپنا تجزیہ یہ ہے کہ ٹی ایل پی اگلے الیکشن میں 20%سے 25%ووٹ زیادہ لینے کی پوزیشن میں آچکی ہے۔
اب یہ آنے والے چند مہینے پی ٹی آئی کے لئے بہت اہم ہیں۔ جس میں یہ بات واضع ہو جائے گی کہ پی ٹی آئی اپنے 5سال پورے کرتی ہے یا پھر قبل از ووقت الیکشن کا اعلان کرتی ہے جس میں مہنگائی اپنی تاریخ کی بلند سطح پر ہے تواسی صورتحال میں پی ٹی آئی الیکشن کے بعد کسی صورت بھی حکومت میں نہیں آسکتی۔اور اسی صورتحال کا فائدہ اپوزیشن اُٹھانا چاہتی ہے اب یہ دیکھنا ہے کہ حکومت کس طرح اس صورتحال سے نکلتی ہے یا مزید مشکلات کا شکار ہوتی ہے؟
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.