گلوبل ثقافتی بگولوں میں سے ایک بھوتوں بلاؤں کی رات ہیلو وین بھی ہے۔ قبل از عیسائیت کی توہمات اور شرکیہ جہالتوں میں لتھڑی یہ رات پوری مغربی دنیا میں منائی جاتی ہے۔ شیطانیت کی مظہر یہ رات بدروحوں، مردوں کے دیوتا کو راضی کرنے کے شب وروز پر استوار ہے۔ 2001ء کے بعد مسلم دنیا روشن خیالی، سافٹ امیج کے گڑھے میں جا پڑی۔ ساری مغربی جہالتیں ویلنٹائن ڈے کی فحش کاریاں، ہیلو وین کی دیوانگی، موم بتی تہذیب، سالگرہ کو لازمہ قرار دینا مسلمان ممالک میں بلا بن کر آن وارد ہوئیں۔ اس سب کو بڑھاوا دینے میں شوبز کارندوں اور کارگزارنیوں کی عشوہ طرازیاں رہنمائی کا فریضہ انجام دیتی ہیں۔ اگرچہ 15 تا 31 اگست 2021ء فی نفسہٖ افغانستان میں مغربی دنیا کے لیے ہیلو وین اثر ثابت ہوا۔ طالبان کی داڑھی، شرعی حلیہ ان کے لیے ہیلو وین پہناوے کی طرح خوف کی علامت تھا۔ ٹوپی برقع ان سے زندگی کی (حرام) رنگینیاں چھین لینے کی وعید تھی! پوری دنیا دم بخود، خوف اور سکتے کے عالم میں رہی۔ ہم سمجھ رہے تھے کہ اس کے بعد اس مرتبہ 31 اکتوبر کو یہ دن منانے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی مگر ابلیسی وعدہ تو تاقیامت فتور مچانے کا اپنی جگہ قائم ہے۔ لہٰذا شیطانی قوت کے اظہار کا یہ دن، جسے اب مغربی دنیا میں شیطانی معبد اور شیطانی مذہبیت نے مہمیز دی ہے، بھرپور منایا گیا۔ بلکہ سعودی عرب، خلیجی ممالک، بالخصوص دبئی میں عیدین سے بڑھ کر جوش وخروش کا حامل تھا۔ دبئی میں رہنمائی کا منصب بھارتی شوبز کے (بھوت) ستاروں کے ہاتھ تھا۔
پاکستان کو مشرف اس ڈھب پر چلا گیا تھا سو وہ آج بھی جاری وساری ہے۔ اسلام آباد میں اس پر سوشل میڈیا میں رہنمائی موجود رہی۔ صرف ایک دن نہیں بلکہ پارٹیوں، ہلے گلے کا پورا سیزن اور روزانہ کی بنیاد پر طرح طرح کے کھیل تماشے طے شدہ ہیں۔ ایک طرف گردن آئی ایم ایف کے قرضوں کے شکنجے میں جکڑی ٹیکس اور مہنگائی کا سونامی چڑھائے لا رہی ہے۔ دوسری طرف جمہوریت کی کرسی پر جب بھی ذرا سول حکمران پُراعتماد ہوکر بیٹھنے کی جسارت کرتا ہے تو یکایک تحریک لبیک کے دھرنوں کی باری آجاتی ہے۔ 2015ء کے بعد سے 7 دھرنے، 7 سمجھوتے ہوچکے۔ ہر مرتبہ ملک کے طول وعرض میں ہلا مارے جانے کی کیفیت برپا ہوئی۔ بالآخر اس مرتبہ بھی اعلیٰ ترین سطح سے پچکارے جانے کے بعد 12 دن بعد شہر راولپنڈی آزاد ہوا۔ رکاوٹیں ہٹیں، عوام نے سکھ کا سانس لیا۔ عوام پر تو بجلی، پیٹرول، مہنگائی کے بھوت سٹی گم کردینے کو مسلط، زندگی ہی ہیلو وین بنائے ہوئے ہیں۔ یہ تو طبقہ امراء، اشرافیہ کے رنگ رنگیلے چونچلے ہیں۔ بے جہت زندگی کے وقت گزاری مشغلے ہیں۔ ورنہ اندریں حالات جب ملک ہمہ نوع جن جادو جنات کے پھیر میں رہتا ہے، مغربی تہذیبی لنڈے کی ثقافت کی ضرورت ہی کیا ہے۔ بھوک افلاس ننگ کے ہاتھوں غریب کے بچے خاک آلود، پسلیاں نکالے ہونق صورت بھوت ہی بنے پھرتے ہیں۔ ایسے میں امیر مسلمان ممالک میں بھارتی اداکاروں کے جلو میں عریاں لباسی، پانی کی طرح بہتے، اجاڑے جاتے مال ودولت کے لیے کس درجے بے حسی، بے ضمیری اور خود پرستی وہوا پرستی درکار ہے۔ بدی کی یہ رات اب شیطانیت کے باضابطہ مذہب بن جانے کی بنا پر تمام اخلاق باختہ بدکاریاں ملک ملک بانٹتی پھرتی ہے۔
دوسری طرف افغانستان سے حقیر ورسوا ہوکر نکلنے والی عالمی طاقتیں افغانوں کے اموال اور اثاثے دبائے خود بھوت بلاؤں کا روپ دھارے بیٹھی ہیں۔ اپنے ہاں انہیں شدید انتشار کا سامنا ہے ہزیمت پر۔ امریکی جنرل جان سوبکو اپنی وزارت دفاع اور خارجہ پر برس پڑا کہ انہوںنے اہم اور ضروری معلومات کانگریس سے چھپائیں۔ افغان حکومت کے سقوط اور طالبان کے ملک پر چھا جانے کے واضح امکانات صیغۂ راز میں رکھے رہے۔ اچانک گویا چھت سر پر آن پڑی! ادھر سہیل شاہین نے افغان اثاثوں (10 ارب ڈالر) کی بحالی کی بات کرتے ہوئے افغانوں کا یہ حق طلب کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمیں امداد کی ضرورت نہیں۔ ذبیح اللہ مجاہد نے تنبیہہ کی ہے کہ اگر طالبان حکومت تسلیم نہ کی گئی تو دنیا کو مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ یہ واضح پیغام تھا امریکا کے لیے! ہمراہ یہ یاد دہانی بھی تھی کہ پہلے بھی جنگ چھڑنے کی وجہ اسلامی حکومت کو تسلیم نہ کیا جانا تھا۔ اس میں مضمر دھمکی عالمی امن کے ٹھیکے داروں کے لیے کوئی خیر کی خبر نہیں رکھتی۔ جس دن انہوںنے اس حدیث پر دوبارہ عمل کا ارادہ کرلیا، خطے اور امریکا کو مسائل تو ہوںگے۔ یہ کہ: ’تمہارا رزق تمہارے نیزے کے سائے تلے ہے!‘ اور وہ اس کے اہل ہیں۔ ثابت کرچکے ہیں۔ اپنی معیشت کے لیے ہر ممکن اقدام جاری ہے افغانستان میں۔ سالہا سال سے منظر سے غائب چلغوزے اب 45 میٹرک ٹن چین جہاز بھر کے بھیجے گئے ہیں اور مزید بھیجے جائیںگے۔ تجارت، امانت ودیانت اور کفایت شعاری سے کام لیتے ہوئے معیشت کے لیے جائز حق طلب کررہے ہیں ہماری طرح سودی قرضوں پر بغلیں بجانے یا منت سماجت پر نہیں اترے۔
کیسا المیہ ہے کہ وزیراعظم نے یہ فرمایا کہ ’اگر فرانسیسی سفیر کو نکالا تو معاشی تباہی آئے گی۔‘ فرانس کو رازق سمجھ بیٹھنا اور قومی وقار کی یوں تحقیر کرنا ہمیں زیبا نہیں۔ یہ وہی فرانس ہے جو 92 مساجد بند کرچکا ہے اور مزید 7 مساجد بند کرنے کا اعلان کیا ہے۔ مسلمان عورت پر حجاب کرنے پر طرح طرح کی غیرانسانی قدغنیں عائد کرنے والے اسلاموفوبیا کے سرِ خیل کے سفیر کو نکالنے کا حوصلہ اگر نہیں ہے، تو اسے پیٹ کا مسئلہ بناکر بیان تو نہ دیں! یہ ہماری ’ریاستِ مدینہ‘ کے (دیگر سبھی اقدامات کی طرح) شایاں نہیں۔
پاکستان افغانستان کو تسلیم کرکے اپنے برادر ملک کے ساتھ بھرپور تجارت کا دروازہ کھولے تو پاکیزہ مال کا ہماری معیشت کی رگوں میں اترنا سودی قرضوں سے کہیں زیادہ خیر وبرکت کا سامان لائے گا۔ طرفہ تماشا ہے کہ ایک طرف بیان میں فرانس کو معاشی ان داتا قرار دیا دوسری طرف اسی سانس میں قوم سے کہا کہ ناموس رسالتؐ پر میرے ہاتھ مضبوط کریں! کاش آپ نے تہجد کے وقت یہ ہاتھ خالق ورزاق کے آگے پھیلائے ہوتے جو پکارتا ہے کہ کوئی ہے جو رزق مانگے اور میں رزق دوں، مغفرت مانگے اور میں مغفرت دوں۔ یہی دونوں عین ہماری ضرورت ہیں۔ (آپس کی سرپھٹول سے فرصت تو ملے!) اللہ کے آگے اٹھنے والے ہاتھ مضبوط، آہنی ہو جاتے ہیں۔ اس سے منہ موڑکر تشویش اور گھبراہٹ کے دورے نہ پڑیں تو کیا ہو۔ نفسیاتی ابتری ہی کا عالم ہے کہ گستاخوں کے سرِ خیل کی گدائی کی جائے۔
ہماری معاشی سرگرمی میں کتنا بڑا حصہ چادر سے باہر پاؤں پھیلائے رکھنے کا ہے۔ ہسپتالوں میں صحت کی سہولیات کا فقدان ہے۔ یونیورسٹیوں میں وسائل کی عدم فراہمی سے حالات ابتر ہیں۔ ہر شعبۂ زندگی معاشی عدم توازن کے ہاتھوں انتشار کا شکار ہے۔ ایسے میں اسراف وتبذیر حکومتی سطح پر جاری وساری ہے۔ بجلی کی کمی اور گرانی کے مارے ملک میں غیرمعمولی اہتمام سے ربیع الاول پر حکومتی سطح پر مسلسل چراغاں۔ وہ کپڑا جو غرباء کے تن ڈھانپنے کو صدقہ کیا جاتا تو اجر عظیم کا باعث بنتا، ’عقیدت‘ میں آرائشی محرابوں میں جابجا سجایا گیا۔ عوام کی بنیادی ضروریات سے منہ موڑے، نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سے روگرداں، نمائشی اقدامات سے سادہ لوح عوام پر اپنی مذہبیت کی دھاک بٹھانے کو یہ اہتمام ہوئے۔ ’رحمت للعالمینؐ ‘ کے مبارک نام سے اتھارٹی بناکر مناصب تنخواہیں، مراعات، بلڈنگیں، گرانٹیں، گاڑیاں تقسیم ہوںگی۔ ادارے پہلے بھی موجود ہیں انہیں فعال کریں۔ ملک میں بڑھتی پھیلتی بے دینی، مغربیت، اخلاقی زوال پر بند (حقیقی) باندھنے کا کوئی سامان نہیں۔ تعلیم نکمی، ناکارہ، بے فیض، ایمان اسلام کے اسباق سے تہی دامن کرکے، نری بیان بازی، زبانی جمع خرچ کا چلن ہے۔
تمہیں کیا خبر میرے دوستو کہ کدھر سے کون ہے حملہ کش
مری فکر میرے شعور پر، مرے شعر میرے شعار پر
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.