صحافت کا ولی اللہ

201

قدرت اللہ چودھری نے عام لوگوں کی طرح زندگی گزاری مگر وہ حقیقی معنوں میں ایک غیر معمولی انسان تھے – ان کی رحلت سے جو خلا پیدا ہوا ہے اسے پر کرنا واقعتا بے حد مشکل ہے۔ وہ شعبہ صحافت کی ساکھ تھے۔ ذہین و فطین ، صاحب مطالعہ ، پیشہ وارانہ اہلیت سے مالا مال ، ایک مثالی ایڈیٹر جو اپنے قول و فعل کے حوالے سے رول ماڈل کی حیثیت اختیار کرگئے تھے۔ صحافت میں یوں تو پہلے بھی اور اب بھی کئی بڑے نام سامنے آئے۔ کچھ بہت قابل ہیں مگر ان کی شخصی کمزوریوں کا تذکرہ بھی ساتھ ہی ہوتا ہے، کچھ کی قابلیت ہی پر سوالیہ نشان ہیں ، کچھ ایسے بھی ہے کہ اخبارات کے صفحات پر غلاظت انڈیل کر اور ٹی وی شوز میں بک بک کرکے ‘‘ عظیم تجزیہ کار ‘‘ بنے ہوئے ہیں ۔ کچھ ایسے بھی ہیں جو ادھر ادھر ہاتھ مار کر بہت زیادہ مالدار ہوگئے ۔ ایسے میں قدرت اللہ چودھری کی شخصیت ایک حوالے کے طور پر سامنے آئی ۔ جب بھی کسی صاف ستھرے اور قابل صحافی کا حوالہ دینا ہو تو باآسانی قدرت اللہ چودھری کا نام لے لیا جاتا ہے۔ سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ محفل میں بھانت بھانت کی بولیاں بولنے والوں کی موجودگی کے باوجود کوئی اعتراض نہیں کرسکتا تھا ۔ آج کے دور میں ایسا ہونا معجزہ رونما ہو نے کے مترادف ہے ۔ میری طرح کے سینکڑوں شاگردوں کا ان سے تعلق استاد کے درجے سے بڑھ کر تھا ۔ ان سے صرف صحافت کے گر ہی نہیں سیکھے یہ بھی جانا دفتر اور معاشرے میں اچھے ماحول کے لئے کس طرح کا رویہ اختیار کیا جانا چاہئے۔ دردمندی اور سادگی کسے کہتے ہیں۔ ایثار کس شے کا نام ہے ، دوستوں کے کام آنا مقصد حیات کیسے ہوگیا ۔ خود اپنے کردار کو ہر طرح سے آلائشوں سے پاک رکھ کر معاشرے کے مختلف طبقات کے ساتھ تعلقات کو کیسے آگے بڑھانا ہے۔ ا نکساری اور صبر کا پیکر کیسے بنا جاسکتا ہے ۔چودھری صاحب کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا تو ان کے اوصاف کی خوشبو پہلے ہی کراچی سے خیبر تک پھیلی ہوئی تھی ۔ عملی مشاہدہ ہوا تو ان کے متعلق جو کچھ سن رکھا تھا انہیں اس سے بھی بڑھ کر پایا ۔ نیوز روم سے ایڈیٹر کے کمرے تک جانے والوں کے متعلق عموماً یہی تاثر ہوتا ہے کہ آٹھ ، دس گھنٹے دفتر میں بیٹھ کر کام کرنے والوں کی بیرونی دنیا میں زیادہ واقفیت نہیں۔ قدرت اللہ چودھری کا معاملہ اس کے بالکل برعکس تھا ۔ انکے دوستوں کا دائرہ بہت وسیع اور کئی
شعبوں پر محیط تھا ۔ شاید ہی ساری زندگی انہوں نے ان تعلقات کو اپنے لئے استعمال کیا ہو ۔ وہ دوسروں کے مسائل حل کرانے کے لئے متحرک رہتے تھے ۔کسی کا کوئی بھی کام ہوتا درویش صفت قدرت اللہ چودھری ساتھ چل پڑتے ۔ اپنے صحافتی کیریئر میں ایک چابک دست نیوز ایڈیٹر کے طور پر اپنا سکہ منوانے کے بعد ایڈیٹر بنے تو یہ عہدہ ان کے نام کے ساتھ لازم و ملزوم ہوگیا۔ بیک وقت انگریزی اور اردو میں زبردست مہارت رکھنے والے چودھری صاحب عالمی ، علاقائی اور مقامی واقعات پر گہری نظر رکھتے تھے۔ ہر وقت کوئی نہ کوئی کتاب زیر مطالعہ رہتی – حساس ترین شعبوں کے متعلق کوئی پیچیدہ خبر آتی تو وہ نہایت آسانی سے اس کا حل نکال لیتے ۔ اعلیٰ درجے کے ایک پروفیشنل کی طرح اعتماد ان کی شخصیت میں کوٹ کوٹ بھرا ہوا تھا ۔ باعمل اور سچے مسلمان کی طرح کسی بھی معاملے میں انہیں کبھی پریشان پایا نہ ڈرا ہوا دیکھا ۔ دنیا کے کئی ممالک کے دورے کرنے کے باعث وہاں کے معاملات اور واقعات ازبر تھے۔ دفاع کے شعبے میں غیر معمولی مہارت اور خبروں کے حوالے سے گہری رسائی ہم سب کو حیران کر دیتی تھی۔ اخبار میں کوئی مشکوک یا کمزور خبر لگ جاتی تو فورا پکڑ لیتے تھے۔ چودھری صاحب کے متعلق بالکل درست کہا جاتا تھا کہ جب وہ اخبار کی کاپیاں پریس بجھوانے سے پہلے چیک کرنے آتے تو غلطیاں خود سامنے آکر خود کو پیش کردیتیں۔ فوری تصحیح ممکن ہو جاتی۔ چودھری صاحب بالکل درست کہا کرتے تھے کہ اخبار کی کاپیاں پریس میں بجھوانے سے پہلے خوب اچھی طرح سے جائزہ لے لیا جائے تو اگلا دن بہت آسان اور خوبصورت ہوجاتا ہے۔ دائیں بازوسے تعلق رکھنے والے حقیقی کارکن دوست ہونے کے ساتھ ساتھ ان کے صحافتی سیاست میں اپنے حریفوں کے ساتھ بھی نہایت خوشگوار تعلقات تھے – سید عباس اطہر کو استاد کا درجہ دیتے تھے۔ عباس اطہر مرحوم بھی ان کا بے حد احترام کرتے اور ہمیشہ چودھری صاحب کہہ کر مخاطب کیا کرتے تھے ۔چودھری صاحب پروف کی غلطیوں کے بارے میں بہت زیادہ محتاط اور چوکس رہتے تھے۔ایک مرتبہ کاپی سے غلطی نکالی اور ازراہ مزاح لکھ کر بھیجا ‘ استعفیٰ اصل لفظ استعفا ہوتا ہے ، آگے پروف ریڈر کی اپنی مرضی ‘‘۔ الفاظ کے معنی ہی نہیں تاثر پر بھی کڑی نگاہ رکھتے تھے۔ مسلمانوں کے حوالے جہاں کہیں بنیاد پرست کے الفاظ استعمال ہوتے دیکھتے کہتے اسے کاٹ کر راسخ العقیدہ مسلمان لکھ دیں ۔اللہ تعالی کے نیک بندوں کی طرح زمین پر نرم چال چلنے والے چودھری صاحب کے ساتھ کئی مرتبہ سفر کرنے کا موقع ملا ۔بہت زیادہ احترام ہونے کے باوجود یہی لگتا تھا کہ ان کی موجودگی ایک مہربان دوست جیسی ہے ۔ جہاں رکتے بغیر کوئی فرمائش کئے ڈیرہ ڈال دیتے ، خوراک کے معاملے میں بھی بے حد سادہ ، جو کچھ دستیاب ہوتا رغبت سے کھا لیتے -نیند اتنی ہی لیتے کہ جتنی تازہ دم ہونے کے لئے کافی ہو۔ کپڑے بہت حد تک سادہ مگر بے حد صاف ہوتے ۔ ایک زمانے میں سفاری سوٹ کثرت سے پہنا کرتے تھے جو ان کی شخصیت پر بہت جچتا تھا ۔ واقعات بے شمار ہیں اور کالم کا دامن تنگ ، چودھری سے تعلق بنا تو کبھی رابطہ نہیں ٹوٹا ۔ہر دوسرے ، تیسرے دن گفتگو ہوجاتا کرتی تھی ۔ باہمی دلچسپی کے موضوعات میں ملک کے حالات اور میڈیا انڈسٹری کو درپیش مسائل زیر بحث رہتے ۔ مجھے جب بھی کوئی مشکل پیش آتی فورا ان سے رابطہ کرکے مشورہ کرلیا کرتا تھا ۔ آج وہ نہیں ہیں ایک خلا محسوس کررہا ہوں۔چند ہفتے پہلے کورونا کے عارضے میں مبتلا ہوکر سروسز ہسپتال میں داخل ہوئے تو فون کرکے اطلاع دی ۔ میں نے مشورہ دیا کہ ملاقاتوں کے حوالے سے بے حد احتیاط برتیں۔ تقریباً روز بات ہوتی رہی ۔ وہ جسم میں دور اور کمزوری کی شکایت کررہے تھے ۔ ہسپتال سے گھر چلے گئے تو وہاں بھی یہی حال تھا ۔ ان کے انتقال سے دو روز پہلے طبیعت کا حال دریافت کرنے کے لئے فون کیا مگر کسی نے نہیں اٹھایا ۔ تقریباً دو گھنٹے کے بعد ان کی کال آگئی بتانے لگے منہ پر آکسیجن ماسک لگا تھا اب ہٹا کر فون کررہا ہوں ۔ میں نے جلدی سے کہا ایسا نہ کریں بات ہوگئی ہے ماسک واپس لگائیں۔ انہوں نے کہا دعا کرو ، میں نے جواب دیا اللہ تعالیٰ آپکو صحت کاملہ عطا کرے ۔آپ جلد معمولات زندگی کی جانب لوٹ آئیں گے۔لیکن اللہ کو کچھ اور ہی منظور تھا ۔ قدرت اللہ چودھری بستر مرگ سے سیدھا جنت کے مکین بن گئے ۔ نماز جنازہ میں اشکبار آنکھیں گواہی دے رہی تھیں کہ ایک بہترین اور مہربان شخصیت ہمارے درمیان نہیں رہی ۔ اجلی صحافت کا سب سے بڑا حوالہ ختم ہوگیا
ایک سورج تھا کہ تاروں کے گھرانے سے اٹھا
آنکھ حیران ہے کیا شخص زمانے سے اٹھا

تبصرے بند ہیں.