پاکستان کے محکمانہ کرپشن پر سیشن انڈیکس (CPI) میں سب سے بڑا Indicator پٹواری اور تھانیدار ہیں جو ریاستی طاقت اور اختیار کا سب سے بڑا استعارہ ہیں۔ عدالتی نظام کا نمبر اس کے بعد آتا ہے۔ پٹوار خانہ اور تھانہ ایسی جگہ ہیں جہاں عوام الناس کا حکومت کے ساتھ آمنا سامنا سب سے زیادہ شدت سے ہوتا ہے۔ حکومت پاکستان کے ان چھوٹے چھوٹے اہلکاروں کے پاس اتنے بڑے بڑے اختیارات دے دیے گئے ہیں کہ وہ عورت کو مرد اور مرد کو عورت بنانے کے علاوہ باقی ہر چیز پر قادر ہیں۔ ہم نے ہر دور میں یہ حکومتی بیان سنا ہے کہ ملک سے کرپشن کا خاتمہ کر دیا گیا ہے۔ موجودہ حکومت بھی یہی دعویٰ کرتی ہے لیکن اس دعوے کا جواب آج بھی وہی ہے جو پچھلی حکومتوں میں ہوتا تھا کہ آپ پٹواری اور تھانیدار کو رشوت دیئے بغیر زمین کے فرد ملکیت جاری کرا لیں یا اندراج مقدمہ کی ایف آئی آر درج کر کے دکھا دیں تو ہم مان لیں گے کہ رشوت کا خاتمہ کر دیا گیا ہے۔ یہ ایک ایسا فولاد شکن چیلنج ہے جس میں موجودہ حکومت پہلی حکومتوں سے کہیں زیادہ بے بس نظر آتی ہے۔ اس معاملے میں تمام تر دعوؤں کے باوجود حکومت کا دامن عمل سے خالی ہے۔
آج سے تقریباً ایک دہائی پہلے شہباز شریف نے تہیہ کر لیا کہ وہ پٹواری سے رشوت لینے کا اختیار چھین کر اس کو بے دست و پا کر کے دم لیں گے اور محکمہ مال سے رشوت اور فراڈ کا خاتمہ کر دیں گے۔ اس کے لیے فیصلہ کیا گیا کہ زمین یا جائیداد کی ملکیت کا ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ کر دیا جائے تو پٹواری کی رشوت لینے کی اہلیت کا طاقت زیرو ہو جائے گی بظاہر یہ ایک انقلابی قدم تھا اور واقعی یہ لگتا تھا کہ نصف صدی سے جاری یہ استحصال ختم ہو جائے گا۔ اس کے لیے محکمہ مال میں لینڈ ریکارڈ سنٹر کا قیام عمل میں لایا گیا جس میں مرحلہ وار صوبہ پنجاب کے تمام دیہی اور شہری جائیدادوں کا ڈیٹا کمپیوٹر کے سپرد ہونا قرار پایا ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ فیصل آباد پنجاب کا پہلا شہر تھا جہاں یہ نیا نظام سب سے پہلے نافذ العمل ہوا۔
کسی بھی قانون یا نظام کو جب ہم کتابوں میں پڑھتے ہیں تو وہ بہت خوبصورت دلکش نظر آتا ہے مگر جب ہم گراؤنڈ پر اس کا نفاذ یا اس کے اثرات دیکھتے ہیں تو اس میں زمین آسمان کا فرق دیکھ کر ہماری آنکھیں چندھیا جاتی ہیں۔ لینڈ ریکارڈ کے ساتھ بھی یہی ہوا کیونکہ اس کو چلانے والوں نے بابو راج کی کچھ اس طرح سے انتہا کر دی ہے کہ اب ہمیں بے چارہ پٹواری بہت معصوم اور بے ضرر نظر آتا ہے جو 200 کی فرد جاری کرتا تھا اور اس پر مہر لگانے کا 100 روپیہ اضافی لے لیتا تھا اور زمانے بھر کی ذلت و رسوائی اس کے حصے میں آجاتی تھی۔ سیاسی پارٹیاں ایک دوسرے کو پٹواری کلچر کی سرپرستی کاطعنہ دیتی تھیں اور یہاں تک کہ سیاسی مخالفین کو پٹواری کہا جانے لگا لیکن حقیقت یہ ہے کہ جب سے لینڈ ریکارڈ پٹواری کے ہاتھ سے نکل کر کمپیوٹر آپریٹر کے ہاتھ میں آیا ہے تو پوزیشن یہ ہے کہ نمازیں بخشوانے گئے تھے الٹا روزے گلے پڑ گئے والی بات ہے۔
لینڈ ریکارڈ میں کرپشن کی ایسی ایسی کہانیاں ہیں کہ آپ سن کر دنگ رہ جائیں گے۔ بابوؤں نے اتنی صفائی سے وہاں رولز بنائے ہیں جو دیکھنے میں بڑے خوش نما ہیں لیکن اہلکاروں کے لیے ’’موجاں ای موجاں‘‘۔ یہ درست ہے کہ اب ملکیت کا حق نادرا کے بائیو میٹرک کی وجہ سے محفوظ ہوا ہے جس کا کریڈٹ لینڈ ریکارڈ کو دینا ایسا ہی ہے جیسے محترمہ زرتاج گل صاحبہ بارش کا کریڈٹ وزیراعظم عمران خان کو دیتی ہیں۔ یہ ایک جملہ معترضہ ہے مگر ریکارڈ پر ہے۔
لینڈ ریکارڈ سنٹر کی خرابیاں شمار کرنے کے لیے ایک کالم قطعی ناکافی ہے ۔ لیکن میں صرف اس کی ایک دو مثالیں دینا چاہتا ہوں۔ سب سے پہلا رول یہ ہے کہ جس شہری کو اس سنٹر میں کوئی کام ہے وہ صبح سویرے آ کر ٹوکن حاصل کرے گا۔ عموماً 9، 10 بجے کے بعد ٹوکن بن کر دیئے جاتے ہیں حالانکہ دفتری اوقات 4 بجے تک ہیں۔ ٹوکن دینے والا اہلکار پیسے لینے کی خاطر سائل کو کہتا ہے کہ آپ کل آجائیں اگر سائل مٹھی گرم کر دے تو ٹوکن مل جاتا ہے۔ یہ بلڈنگ کے اندر داخل ہونے کا مرحلہ ہے۔ اصل کہانی آگے شروع ہوتی ہے۔ معمول کے مطابق فرد ملکیت کی فیس 500 روپے ہے لیکن اگر آپ کو ارجنٹ چاہیے تو آپ کو سرکاری فیس 2000 روپے جمع کرانا پڑتے ہیں۔ محکمہ کی پالیسی یہ ہے کہ ہر سائل سے 500 کی بجائے 2000 لیا جائے آپ اعداد و شمار دیکھ لیں کہ ان کی ماہانہ وصولی میں کتنے فیصد ارجنٹ کیس آئے ہیں اور روٹین والے کتنے ہیں۔
اس کے لیے طریقہ واردات ایسا رکھا گیا ہے کہ آپ روٹین میں فرد یا کوئی ریکارڈ لے ہی نہیں سکتے۔آپ مجبور ہیں کہ Express کاؤنٹر پر 500 کے بجائے 2000 والی کیٹگری میں آئیں گے۔ روٹین اپائنٹمنٹ کاؤنٹر سے نہیں ملتی اس کے لیے آپ پنجاب کے 36 اضلاع میں جہاں بھی رہتے ہوں اس کا procedure یہ ہے کہ لاہور کا ایک PTCL نمبر دیا جاتا ہے کہ آپ وہاں کال کر کے فون پر ٹائم لیں وہ ایسا کسی جن بھوت کا نمبر ہے جسے کوئی اٹینڈ ہی نہیں کرتا۔ سوال یہ ہے کہ جو سائل بہ نفس نفیس کاؤنٹر پر آ کر آپ سے اپائنمنٹ مانگ رہا ہے آپ اسے کہتے ہیں کہ نہیں آپ فون پر ٹائم لیں۔ اس میں کیا منطق ہے یہ محض بدنیتی، خیانت ، بابو راج، بے ایمانی کی بد ترین مثال ہے۔ آپ غریب آدمی سے 500 کے بجائے 2000 نکلوانا چاہتے ہیں جو کہ سیدھی سیدھی سکھا شاہی ہے۔
جیسا کہ پہلے ذکر کیا ہے ٹوکن لینے کے لیے اگر آپ تاخیر سے جاتے ہیں تو اگلے دن آنے کے لیے کہا جاتا ہے لیکن اگر آپ وہاں کسی کو 500 روپے کا نوٹ دیں تو آپ کو بغیر ٹوکن اور بغیر قطار میں لگنے کے مطلوبہ خدمات فراہم کر دی جاتی ہیں۔ اس میں سب اوپر تک ملے ہوئے ہیں اور ایک ظلم اور نا انصافی کا نظام قائم و دائم ہے یہ سارا معاملہ حکومت کے لیے کچھ بھی نہیں لیکن عوام اس میں پس رہے ہیں حکومت کا کار جہاں بہت دراز ہے لہٰذا چھوٹی چھوٹی باتیں ان کے لیے اہمیت نہیں رکھتیں۔ ان کے لیے یہ ایک چھوٹا سا ڈاٹ یا فل سٹاپ ہے مگر اس سے عوام کا خون نچوڑا جارہا ہے۔
لینڈ ریکارڈ کا ایک اور کارنامہ یہ ہے کہ بیرون ملک سے جاری کردہ مختار عام لاہور کے فارن آفس میں تصدیق ہوتا ہے جب کسی بھی شہر میں یہ مختار نامہ پیش کیا جاتا ہے تو وہ لاہور سے اس کی کمپیوٹرائزڈ Verification بذریعہ بار کوڈ کر لیتے ہیں حالانکہ فارن منسٹری اور محکمہ مال دو الگ الگ ادارے ہیں مگر اگلے مرحلے پر جب لینڈ ریکارڈ سے فرد بیع لینی ہو تو یہ ایک ہی محکمے میں ایک ہی شہر میں محکمہ مال کے ایک دفتر سے دوسرے دفتر رجسٹریشن کی تصدیق کے لیے مراسلہ بھیجتے ہیں حالانکہ اس میں بھی بار کوڈ یا کمپیوٹرائزڈ تصدیق ہو سکتی ہے مگر وہ اس لیے نہیں کیا جا رہا تا کہ سائل ایک دفعہ لینڈ ریکارڈ والوں کو رشوت اور دوسری دفعہ رجسٹرار آفس میں رشوت دے تا کہ اس کا مختار عام کار آمد ہو سکے۔
یہی وہ وجوہات ہیں جن کی بنا پر موجودہ حکومت میں FBR کو ہدف سے زیادہ ٹیکس اکٹھے ہو رہے ہیں جس کی ایک وجہ لینڈریکارڈ کی سکھا شاہی ہے آپ ہدف سے زیادہ ٹیکس اکٹھا کر چکے ہیں پھر بھی حکومت خسارے میں کیوں ہے؟
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.