اپوزیشن کی خاموشی!

128

پی ٹی آئی کی حکومت کو آئے تین سال ہو چکے ہیں اورساتھ ہی وزیر اعظم عمران خان صاحب کو اپنا منصب سنبھا لے بھی تین سال ہو چُکے ہیں۔حکومت میں آنے سے پہلے عمران خان نے قوم کا تبدیلی کا جو خواب دکھایا تھا عوام اُس تبدیلی کو ابھی تک خوابوں میں ہی دیکھ رہی ہے۔ایک طرف عوام کے ساتھ کیے وعدے بھی وفا ہوتے دکھائی نہیں دے رہے اور دوسری طرف ہمارے وزیر اعظم مسلسل زور دے رہے تھے کہ ہم کسی کو ،،این آر او،، نہیں دیں گے۔اپنی مخالف جماعتوں،مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے رہنمائوں پر یہ تنقیدی الفاظ کستے رہے کہ ان کی منشا اور ایک ہی مقصد ہے کہ این آر او دیا جائے۔
پی ٹی آئی کی حکومت نے تمام اپوزیشن جماعتوں کے مین اراکین پر کرپشن کے کیسز بنائے مگر وہ سب ایک ایک کر کے عدالت سے بری ہوتے چلے جارہے ہیں۔نواز شریف کو باہر بھیجنے میں بھی تو حکومت کا ہاتھ ہے ڈاکٹر بھی ان کے ہی تھے جنہوں نے ان کے ٹیسٹ کئے اور کہا کہ نواز شریف کو باہر جانا چاہیے۔یہ این آر او ہی کی ایک شکل تھی۔ اور ان دونوں اپوزیشن پارٹیز کے لیڈران کا بھی یہی انداز رہا کہ اگر این آر او دے دیا جائے گا تو شاید سارے بکھرے ہوئے بگڑے تگڑے کام سب درست ہوجائیں گے۔اور اگر اُن کی منشا کے مطابق این آر او نہیں ہوتا تو ہنگامہ آرائی یوں ہی ہوتی رہے گی اور منتخب حکومت کی راہ میں رکاوٹیں یوں ہی کھڑی کرنے اور یوں ہی سیاست کا عمل جاری رہے گا۔حکومت نے بہت کوشش کی مگر شہباز شریف بھی لندن سے باعزت بری ہو گئے۔ان کو اب پاکستان سے کسی این آر او کی ضرورت نہیں۔
اگر ہم ماضی کو دیکھتے ہیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ نیشنل ری کنسلی ایشن آرڈیننس جس کا مخفف،،این آر او،،ہے جس کا مطلب ،،قومی مفاہمت کا فرمان،، یہ آرڈیننس ایک معاہدے کی صورت میں صدر مشرف اور بینظیر بھٹو کے درمیان طے پایا تھا۔جب یہ معاہدہ طے پایا اُس وقت پاکستان  پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے درجنوں لیڈران اور کارکنان پہ درج مختلف مقدمات ختم ہوگئے تھے۔اس آرڈیننس کے ذریعے یکم جنوری 1986ء سے لے کر اکتوبر 1999ء تک درج ہونے والے کرپشن، منی لانڈرنگ، بد عنوانی، دہشتگردی اور قتل و غارت کے سارے مقدمات واپس لے لیے گئے۔
بری الزمہ ہونے والوں کی لسٹ میں سیاست دانوں کے ساتھ ساتھ سرکاری افسروں کی بھی بڑی تعداد شامل تھی۔ان میں وہ لوگ بھی شامل تھے جن لوگوں نے بے نظیر کے ساتھ کام کیا تھا ۔سپریم کورٹ نے حکومت کو فائدہ اٹھانے والے 18000 ہزار سے زائد افراد کی لسٹ جاری کی جن میں 34 یا 35 سیاستدان بھی شامل تھے یہ بات تو ہم اُس وقت کی کر رہے ہیں سیاسی منظر نامہ بدلا تو ،،این آر او،،سے استفادہ کرنے والوں کا نہ صرف  تعاقب کرنا بھی چھوڑ دیا گیا بلکہ اس آرڈیننس کا تذکرہ بھی حقارت سے کیا جانے لگا۔وزیراعظم کی توجہ کی وجہ سے این آر او کے الفاظ کو گالی بنا دیا گیا مگر گزشتہ کچھ عرصہ میں مختلف سرکاری افسران و سیاستدانوں کے خلاف احتساب کے نام پر جو کاروائیاں کی گئی ان کے بارے میں عدالتوں کے منفی ریمارکس کے باوجود وزیر اعظم کو توفیق نہیں ہوئی کہ وہ صورتحال کا جائزہ لے کر ناانصافیوں کا ازالہ کرنے کا سوچیں۔
عوام کو ان این آر او سے کو ئی کام نہیں ۔عوام کے سامنے حکومتی کارکردگی جب آتی ہے تو وہ دیکھتی ہے کہ حکومت نے عوام کے لئے کیا کیا؟ وہاں پر حکومت کے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا ۔عوام روز بروز بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سے تنگ ہیں۔ بے روزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے ،کاروبار نہ ہونے کے برابر ہو رہے ہیں، ڈالر اونچائی کی طرف گامزن ہے۔عوام میں پی ٹی آئی کی مقبولیت میں نمایاں ہی نہیں بلکہ بہت ہی نمایاں کمی ہو چکی ہے مگر ماضی کی طرح عمران خان کے گرد بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو سب اچھا ہے کی رٹ لگ کر عمران خان کو بتاتے جا رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کے اپنے ورکرز ناامیدی کا نعرہ لگا رہے ہیں کیونکہ جو اس جماعت کے نظریاتی ورکرز تھے ان کو اس اقتدار میں کچھ نہیں ملا۔ اور وہ اب کسی اور جماعت کا سوچ رہے ہیں اور یہ بات پی ٹی آئی کے لئے بہت نقصان دہ ہو گی۔ آنے والے وقت میں پی ٹی آئی کو تین اہم چیزوں کے جواب دینا ہوں گے ایک مہنگائی، دوسرا اپوزیشن کا احتساب تیسرا اپنے ہی ورکرز کے ساتھ ناانصافی۔ 
اس کے علاوہ اور بہت سی وجوہات ہیںجس میں کشمیر ایشو،افغان ایشو اور پاکستان کی کمزور خارجہ پالیسی ہے لیکن اپوزیشن اس حکومت کے خلاف کوئی بڑا قدم نہیں اٹھا رہی اس کی وجہ یہ ہے کہ حکومت نے عوام کیلئے کیا ہی کچھ نہیں اس لئے اپوزیشن مطمین دکھائی دے رہی کہ عوا م نے تو خود ہی ا ن کو آنے والے الیکشن میں رد کر دینا ہے ہمیں محنت کرنے کی ضرورت نہیں۔ اس لئے اپوزیشن نے خاموشی اختیار کر لی ہے۔یوں محسوس ہو رہا ہے کہ اپوزیشن حکومتی کارکردگی سے مزہ لے رہی ہے۔ اپوزیشن صرف بیانات کی حد تک ہے عملی طور پر وہ بھی حکومت کو ٹف ٹائم دینے کے موڈ میں نہیں۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ ان کو بھی صرف اقتدار سے محبت ہے عوام جو مہنگائی کی چکی میں پستی چلی جا رہی ہے اس سے بھی ان کو کوئی سروکار نہیں۔اگر ان کے دل میں عوام کے لئے محبت ہوتی تو یہ عوام کیلئے سٹرکوں پر آتے ،شاید ان کو پتہ ہے کہ حکومتی کارکردگی عوام کی نظر میں صفر ہے لہذامحنت کرنے کی ضرورت نہیں۔اگر حکومت کی یہی کارکردگی رہی تو اگلا اقتدا بغیر محنت کے ان کے پاس آجائے گا۔شاید ان کی خاموشی کی یہی وجہ ہے۔

تبصرے بند ہیں.