عبقری

202

تیس سال سے زائد عرصہ ہوا لیلائے صحافت کی محبت میں ،بہت کچھ حاصل ہوا ، اعلیٰ حکومتی عہدیداروں سے دوستیاں،تعلق ،پاورز کاریڈورز میں آنا جانا مگر جو لطف اور سکون تسبیح خانہ میں ملا کہیں نہ ملا ۔میں سوچ رہا ہوں یہ حکیم طارق محمود صاحب کو اللہ نے کیا ملکہ دیا ہے ، علم و حکمت میں پی ایچ ڈی،ہزاروں نہیں لاکھوں روزانہ ان سے فیض یاب مگر طبیعت میں سادگی اور تونگری کا امتزاج ، فقیرانہ رنگ ، سید ہجویر کا پروانہ ،رسول اللہ کا دیوانہ۔
عبقریت کا حصو ل آسان ہے نہ عبقری بنے رہنا کچھ سہل ہے، دیدہ بینا، انسان دوست ایمانداردیانتدارمخلص اعلیٰ کردار بلند اخلاق توکل و تقویٰ کی صفات سے مزین ہونا آج کے زمانہ میں کار درد ہے،مگر عبقری والے بلکہ اللہ والے حکیم طارق محمود نے اپنے اخلاص ، ایثار ،محنت شاقہ،مسیحائی کی طاقت کے بل بوتے پر ثابت کر دکھایا ہے کہ آج کے دور میں بھی حکمت عبادت سے کم نہیں،اگر اسے کاروبار نہ بنایا جائے،مریضوں کے جسمانی عوارض کا علاج کرنے والے طبیب کہلاتے ہیں لیکن انسانیت کا جسمانی کیساتھ روحانی علاج کرنے والے حکیم کہلاتے ہیں،مرض کی تشخیص اور دوا تجویز کرنا طبیب کا پیشہ ہوتا ہے مگر اخلاقی تربیت ساتھ ساتھ کرنا حکیم کا اعجاز ہوتا ہے،بر صغیر پاک و ہند میں حکیم آفتاب قرشی،حکیم اجمل،حکیم سعید سمیت متعدد نامور حکماء بیمار انسانیت کی خدمت میں مصروف کار رہے اور اس کام میں زندگی کھپا دی،مگر جسمانی کیساتھ روحانی اور اخلاقی علاج کرنے کی روائت عبقری دواخانہ اور اس کے رو ح رواں حکیم طارق محمودنے ڈالی ۔یوں یہ ادارہ ایک دوا خانہ نہیں بلکہ شفاخانہ ہے،تربیت گاہ ہے جہاں بیمار انسانیت کیساتھ بھٹکے اور بگڑے لوگوں کا بھی علاج کیا جاتا ہے۔کچھ زیادہ وقت نہیں گزرا ان سے نیاز مندی اور دوستی کا مگر لگا انہیں عرصے سے جانتا ہوں۔
طب نبویؐ کے حوالے سے علاج با الغذااس ادارہ کا طرہ امتیاز ہے یہی وجہ ہے کہ بہت کم مدت میں عبقری شفاء خانہ ایک تربیت گاہ بن چکا ہے، مریض آتے ہیں جسمانی علاج کرانے مگر یہاں سے روحانی امراض کی بھی دوا لے کر جاتے ہیں،اخلاقی تربیت کے مراحل سے بھی گزرتے ہیں،ادارہ کا مجلہ ’’ عبقری ‘‘ قرآن و حدیث اور اسلامی تعلیمات کا بہت بڑا ذریعہ بن چکا ہے،دوا کیساتھ ، وظائف کا دور نہ صرف ادارہ میں چلتا ہے بلکہ روحانی اور جسمانی بیماروں کو گھر میں بھی یو ٹیوب کے ذریعے راہنمائی ملتی ہے ،یہ وظائف بھی نبی کریمؐ سے ثابت شدہ ہیں،جو مسلمہ اور سود مند ہیں، اس دور میں جب لوگ پڑھنے کے بجائے دیکھنے سننے کی طرف زیادہ راغب ہو چکے مجلہ عبقری کی سرکولیشن سوچ سے زیادہ جبکہ عبقری یو ٹیوب چینل کے دیکھنے والے لاکھوں سے آگے۔ میرے والد علیہ رحمہ اپنی زندگی کے آخری کئی سال حکیم صاحب کے دروس سے جسمانی اور روحانی شفا پاتے رہے۔ ادارہ عبقری دواخانہ کے بجائے اب ایک باقا عدہ تحریک بن چکا ہے،جو اہل اسلام کے جسم و روح اور اخلاق کی تربیت میں دن رات مصروف ہے اور اس ادارہ کے مدارالمہام حکیم طارق محموداس دور میں روحانی معالج کے طور پر سامنے آئے ہیں،ان کی دینی ،ملی خدمات کا احاطہ ایک کالم میں ممکن نہیں کہ وہ ایک عبقری شخصیت ہیں۔
حیرانی ہوتی ہے ایک اکیلے حکیم طارق محمود کو دیکھ کر، کوئی شخص اتنی خدمات کیسے اور کیونکر انجام دے سکتا ہے،دوا خانے میں روزانہ آنے والے مریضوں کو دیکھنا،ادویہ کی تیاری کی نگرانی کہ عبقری دوا خانہ بہت بڑا دواساز ادارہ بھی بن چکا ہے،آنے والوں کی اخلاقی تربیت کرنا،اور وظائف تجویز کرنا،روحانی امراض کا علاج،مجلہ عبقری کی تدوین و اشاعت،اخلاقی تربیت کی محافل کا انعقاد اور ان سے خطاب،مسیحائی کیساتھ اسلام کی تعلیم عام کرنے کا فریضہ انجام دینے کا کام حکیم طارق محمود تن تنہا انجام دے رہے ہیں ،اور اس کام کے دوران ان کے ماتھے پر شکن دکھائی دیتی ہے نہ تھکاوٹ کے آثار،صبح منہ اندھیرے اٹھ کر اپنی عبادات کیساتھ نماز کی ادائیگی ، نوافل کے ساتھ ذکر اذکار ، تسبیح ، ثناء،حمد کیساتھ درود وسلام کا ورد ان کا معمول ہے،اس کے ساتھ کاروباری ، مذہبی ، تعلیمی،روحانی ، اخلاقی تربیت گاہ کا انتظام چلانا ایک نہیں کئی محاذ ہیں جن پر تنہا حکیم طارق محمود کو لڑتے دیکھا جا سکتا ہے۔
طب بجائے خود حکمت ہے لیکن اگر اس کیساتھ وہ علم بھی شامل ہو جائے جو اخلاقی بیماری کا علاج ہے جو جسمانی صحت کیساتھ روحانی اوراخلاقی امراض کا بھی علاج ہو ،ماضی میں جن حکماء نے نام کمایا اور انسانیت کیساتھ طب کی بھی خدمت کی وہ تمام کے تمام کیمیا گر بھی تھے،ہزاروں سال جڑی بوٹیوں پر تحقیق ہوئی جس کے بعد ادویہ سازی ممکن ہو سکی مگر اس کیساتھ وہ سب روحانی معالج بھی تھے،ہر حکیم نے اپنے اپنے میدان میں نام کمایا،نتیجے میں آج بھی ان کی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے،طب نے ہر خطے میں الگ نام سے فروغ پایا،طب یونانی،آیور ویدرک،چینی طب،افریقی طب،سب کا اپنے اپنے دور میں ڈنکا بجتا رہا،مگر نام ان کا زندہ ہے جنہوں نے انسانیت کی مکمل مسیحائی کی،انسانی جسم کیساتھ انسانی ذہن سوچ،روح کے امراض اور اخلاقی تربیت کو اہمیت دی،سچ بات یہ ہے کہ بیمار جسم کا علاج تب تک ممکن نہیں جب تک بیمار سوچ کو راہ راست پر نہ لایا جائے ، اور اس کا بہترین اور مجرب علاج اسلام نے دیا ، ہمارے نبی ؐکی حیات طیبہ جو بہترین اسوہ حسنہ ہے اس کو اپنائے بغیر روح ،ذہن کا علاج ممکن نہیں،اسے طب نبوی ؐکے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔
حکیم طارق محمود نے طب کی تعلیم کے بعد طب نبوی پر دسترس حاصل کی، آج بھی جڑی بوٹیوں کی تلاش میں دور دور نکل جاتے ہیں، بیمار جسم کے علاج پر ہی اکتفا نہ کیا بلکہ بیمار سوچ اور روح کو بھی صحت مند بنانے کیلئے کام شروع کیا،دوا کیساتھ دعا کی روایت کا آغاز کیا،مریض کی جسمانی اور ذہنی کیفیت کو دیکھ کر علاج کیساتھ وظائف تجویز کئے جاتے ہیں،تعلیم و تدریس کی جاتی ہے،قرآن و حدیث کے دروس کیساتھ صحابہؓ تابعین تبع تابعین صالحین اولیاء عظام کی زندگی سے آشنائی کرائی جاتی ہے،صحت مند زندگی گزارنے کا سلیقہ قرینہ بتایا جاتا ہے،یہ وہ روایت ہے جس پر قرون وسطیٰ کے حکماء عمل پیرا تھے،اس روایت کو زندہ کرنے کا سہرہ آج حکیم طارق محمود کے سر جاتا ہے اور طرفہ ان کاآسان اور سلیس طرز گفتگو جس سے پڑھے لکھے تو سیکھتے ہیں مگر مجھ جیسے طالب علم بھی بہت کچھ حاصل کرتے ہیں،میرے والد مرحوم لوگوں کو کھانا کھلانے اور لنگر کی تقسیم کو ہی اپنا اوڑھنا بچھونا سمجھتے تھے، مجھے تسبیح خانے میں لنگر کی تقسیم دیکھ کر انکی یادآتی ہے تو میرے دل میں حکیم طارق محمود جیسے مرد قلندر کے لئے عقیدت میں اور اضافہ ہو جاتا ہے اسے ہزاروں لوگ اپنا پیر اور مرشد جانتے ،مانتے ہیں ،یہ اس دور کا کیسا پیر ہے جو نذرانے نہیں لیتا مگر جسم و روح کی مسیحائی کے لئے اپنا سب کچھ مخلوق خدا میں بانٹ رہا ہے۔

تبصرے بند ہیں.