ایک مرتبہ کسی مچھیرے کے پاس ایک گاہک آیا جس نے مچھلی کے بجائے پانچ کلو زندہ مینڈک خریدنے کی عجیب و غریب خواہش ظاہر کی اور اس کے لیے مچھیرے کو منہ مانگی قیمت دینے کی پیشکش کی ۔مچھیرا من ہی من میں بہت خوش ہوا کیونکہ وہ جب بھی مچھلیوں کے لیے جال پھینکتا تھا تو بیشمار مینڈک خواہ مخواہ مچھلیوں کے ہمراہ جال میں آ جاتے جنہیں چھانٹ کر واپس پھینکنا پڑتا تھا ۔مچھیرے نے یہ پیشکش قبول تو کرلی لیکن ایک مسئلہ تھا کہ گاہک پورے پانچ کلو مینڈک کا طلبگار تھا، نہ سو گرام زیادہ نہ پچاس گرام کم ۔مچھیرے نے جال پھینکا اور گھر سے ترازو منگوا کر ایک پلڑے میں پانچ کلو کا باٹ رکھا جبکہ دوسرے میں مینڈک ڈالنے لگا ۔جونہی وہ مینڈک پلڑے میں رکھتا، کچھ مینڈک پھدک کر باہر چھلانگ لگا دیتے ۔ تولنے میں مشکل دیکھی تو اس نے مینڈک ایک تھیلے میں ڈال کر پلڑے پر چڑھا دیے لیکن یہ پانچ کلو سے زیادہ نکلے جبکہ گاہک کا اسرار پورے پانچ کلو کا تھا ۔ اس نے کچھ مینڈک نکالنے کے لیے تھیلے کا منہ کھولا تو کافی سارے خواہ مخواہ باہر جمپ کرگئے اور یوں تول پانچ کلو سے کم ہوگیا اور پلڑا اوپر اٹھ گیا ۔اب جو دوبارہ مینڈک تھیلے میں ڈالنے کے لیے منہ کھولا گیا تو مزید کئی مینڈک باہر پھدک گئے۔ سو تول کبھی پانچ کلو سے کم ہو جاتا اور کبھی زیادہ ۔کوئی گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ کی مشقت والی کوشش کے بعد مچھیرا خود ہی جھنجھلا اٹھا۔ اس نے گاہگ کے آگے ہاتھ جوڑ کر معذرت کر لی کہ اسے یہ سودا منظور نہیں ہے لہٰذا اسے معاف کر دیا جائے ۔سننے میں آیا کہ اس کے بعد مچھیرے
انگریزوں سے ہمیں سرکاری ملازمتوں کا جو سسٹم ملا تھا اس میں مختلف اداروں اور محکموں میں تنخواہوں، گریڈز اور ترقی کے الگ الگ نظام تھے۔ بالعموم ملازمتوں کے چار بنیادی کلاسز یعنی ون، ٹو، تھری اور فور تھے۔ بھٹو نے 1972ء میں تنخواہوں کا یکساں نظام متعارف کرایا جس کے تحت تمام سرکاری ملازمتوں (وفاقی اور صوبائی) کے لیے 22 سکیلوں پر مشتمل یکساں نظام نافذ کیا۔ اس کے ساتھ کلاسز کا طبقاتی تصور بھی ختم ہو گیا۔ بجٹ کے موقع پر وفاقی حکومت تنخواہوں یا الاؤنسز میں رد و بدل کرتی تو صوبے بھی اس کی پیروی کرتے۔ اس طرح پورے ملک میں مساوات کی ایک فضا قائم رہتی۔
2014ء میں کے پی کے میں پی ٹی آئی کی حکومت بر سر اقتدار آئی تو ان سے بڑی توقعات تھیں۔ ان میں سے ایک توقع یہ تھی کہ سرکاری ملازمین کی کارکردگی میں بہتری لائی جائے گی۔ نئی حکومت نے اس بارے میں عزم ظاہر بھی کیا بلکہ بیوروکریسی کو لگام دینے کی باتیں بھی کی گئیں۔ بیوروکریسی نے اس صورت حال کو بھانپ کر حفاظتی اقدامات کیے جس کے نتیجے میں جلد ہی حکومت کا کاروبار رکنے لگا۔ اس صورت حال میں سیاسی حکومت نے بیوروکریسی سے مفاہمت کر لی اور اپنے اصلاحات کو نسبتاً کمزور ملازمین تک محدود رکھا۔ اس کے نتیجے میں بیوروکریسی کی طاقت پہلے سے بھی بڑھ گئی اور وہ حکومت سے نئی نئی مراعات لینے کی کوشش کرنے لگی۔ ان کوششوں کے نتیجے میں انہوں نے بجٹ کے باہر ہی ایگزکٹو الاؤنس منظور کرالیا جس کی صورت میں ان کی تنخواہیں یکدم دوگنا ہو گئیں۔
وزیراعظم عمران خان نے رحمت اللعالمین ﷺ سکالرشپ پروگرام کا افتتاح کر دیا
2018ء میں پی ٹی آئی مرکز میں اقتدار میں آئی تو وہاں بھی بیوروکریسی نے یہی کچھ اپنے لیے کر لیا۔ ان کی دیکھا دیکھی عدلیہ نے بھی اپنی تنخواہوں میں گرانقدر اضافہ کرالیا۔ منتخب نمائندے پیچھے کیوں رہتے۔ انہوں نے اور کابینہ کے ممبروں نے دل کھول کر اپنے آپ کو نوازاچونکہ جس کے ہاتھ میں کچھ اختیار تھا اس نے اپنی تنخواہ خود بڑھانا شروع کر دی، اس لیے بجٹ میں کی جانے والی پے ریوژن کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ عملاً 1972ء کا یکساں تنخواہوں کا نظام ختم ہوگیا۔ ایک ہی گریڈ میں کام کے والے دو محکموں کے ملازمین کی تنخواہوں میں اب زمیں و آسمان کا فرق ہے۔
ان حالات میں اچھوت قسم کے ملازمین احتجاج کے لیے باہر نکلے تو ان پر زہریلی گیسوں کا ٹیسٹ کیا گیا۔ بڑی مشکل سے وفاقی حکومت نے 25 فی الاؤنس کا اعلان کیا لیکن صوبوں نے اس اعلان کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا۔
اس نا انصافی کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ حکومت نے جو 25 فی صد الاؤنس دینے کا اعلان کیا اسے Disparity Reduction Allowance کا نام دیا ہے، یعنی عدم مساوات کو کم کرنے کا الاؤنس۔ دوسرے لفظوں میں عدم مساوات پھر بھی برقرار رہے گی۔ موجودہ حکومت کی اپنی لائی ہوئی عدم مساوات۔
لیکن کیوں؟ صرف اس لیے کہ سیاسی حکومت نالائق، کم ہمت اور بے حس ہے۔ وزیر اعظم ٹی وی پر آکر بڑی بڑی باتیں تو کرتے ہیں لیکن ان کے ہاتھ میں کچھ ہے نہیںاور حکومتی کمیٹیاں بھی اس مچھیرے سے کم نہیں ہیں جو تکڑی کے پلے میں پانچ کلو مینڈک تولنے سے قاصر ہے۔
تبصرے بند ہیں.