صبح گیا شام گیا

158

ان سطور کی اشاعت تک ڈسکہ کے این اے 75 کے قومی اسمبلی کی نشست کے لئے ضمنی انتخابات کے نتائج پوری طرح سامنے آ چکے ہوں گے… گزشتہ ماہ فروری میں ہونے والے اس انتخابی عمل کو چونکہ حد درجہ متنازع قرار دے دیا گیا تھا جس کی وجوہ بیان کرنے کی چنداں ضرورت نہیں… ساری تفصیلات پوری شرح و بسط کے ساتھ اہل وطن کے سامنے آ چکی ہیں… الیکشن کمیشن آف پاکستان نے انہی واقعات کی بنیاد پر انتخابی نتائج روکنے کا اعلان کر دیا تھا… سپریم کورٹ آف پاکستان نے اس کے فیصلے پر حکمران جماعت پی ٹی آئی کی مخالفت کے باوجود صاد کیا کل یہ انتخابی عمل ازسرِنو منعقد ہوا۔ پوری قوم اس پر نظریں گاڑے ہوئے تھی اگرچہ روایتی طور پر سیالکوٹ کا یہ حلقہ بلکہ پورا علاقہ مسلم لیگ ن کا گھر تصور کیا جاتا ہے… گزشتہ ماہ فروری کی انتخابی مشق میں بھی انتظامیہ کی جانب سے تمام حیران کن رکاوٹیں کھڑی کر دینے کے وصف اس کی امیدوار نوشین افتخار نے معرکہ سر کر لیا تھا… ان نتائج کو متنازع قرار دینے کے بعد الیکشن کمیشن نے کل ازسرنو پورے حلقے کے اندر ضمنی چنائو کا اہتمام کیا… قطع نظر اس سے کہ آخری نتیجہ کیا برآمد ہوتا ہے… اب تک کی اطلاعات مظہر ہیں کیا جانبین کی طرف سے عمومی تحفظات کے اظہار کے سوا ووٹ ڈالنے کا عمل پُرامن اور قواعد و ضوابط کے مطابق رہا ہے… گزشتہ تلخ تجربات کو سامنے رکھتے ہوئے چیف الیکشن کمشنر نے حکم دیا ہے کہ فارم 45 کی نزاکت اور اس کی حساسیت کے پیش نظر کاغذ کے اس اہم ٹکڑے کی حرمت کا پوری طرح پاس و لحاظ کیا جائے تاکہ وہ شکایات نہ پیدا ہوں جو 2018 کے عام انتخابات کے نتائج پر ابھی تک سایہ فگن ہیں اور اسی حلقے میں فروری 2021 کے ضمنی انتخاب میں تو خیر تمام حدود کو پامال کر کے رکھ دیا گیا تھا… یہ امر باعث غنیمت ہے کہ کل 10 اپریل کے ضمنی چنائو میں بڑی حد تک اور مؤثر طریقے سے احتیاطی تدابیر اختیار کی گئی ہیں… چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان صاحب پورے عمل کی براہ راست نگرانی کے لئے اسلام آباد سے لاہور آ کر بیٹھے ہوئے ہیں اس کے ساتھ دونوں جماعتوں پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان مسلم لیگ ن کے اس حلقے میں کارکن اپنے اپنے امیدوار کے حق میں غیرمعمولی جوش و جذبے کا اظہار کرتے رہے… حلقہ 75 قومی اسمبلی کے ووٹروں کے بھی بڑے تناسب کے ساتھ گھروں سے باہر نکل کر اپنی اپنی پسند کے امیدوار علی اسجد ملہی (پی ٹی آئی) اور نوشین افتخار صاحبہ (ن لیگ) کے حق یا مخالفت میں اپنے حق رائے دہی کا استعمال کیا ہے… سخت مقابلے کی فضا دیکھنے میں آئی … کارکن سارا دن ایک دوسرے کے مقابلے میں فلک شگاف نعرے لگاتے رہے اور اپنی اپنی حمایت یا مخالفت کا کھل کر اظہار کرتے رہے… اگر انتظامیہ حقیقی معنوں میں غیرجانبدار رہے… وہ بالاتر قوتیں جنہوں نے ہر صورت مرضی کے نتائج کے حصول کی خاطر سیاسی انجینئرنگ کے فن کو اوج کمال تک پہنچا رکھا ہے اور تقریباً ہر چنائو کے موقع پر اس کا خوب خوب استعمال کرتی ہیں اپنے ہاتھ کھینچ لیں… حقیقی معنوں میں آزاد اور شفاف انتخابات ہونے دیں تو یہ بلاشبہ ایک صحت مند سیاسی عمل ہو گا… ایسا عمل جس کی آئین، جمہوریت اور اہل وطن کو بھرپور ضرورت ہے… ہمیں آج تو اسی سے محروم رکھا گیا ہے… اس پس منظر کو سامنے رکھتے ہوئے توقع رکنی چاہئے کہ ڈسکہ میں ہونے والے قومی اسمبلی کے ضمنی انتخابات کا یہ عمل آئندہ کے لئے مثال بن جائے گا…بصورت دیگر اگر ماضی اور ماضی قریب کی ناپسندیدہ ترین روایات کو کسی بھی معنی میں برقرار رکھا گیا تو نئے تنازعات اٹھ کھڑے ہوں گے… عام آدمی انتخابی اور جمہوری عمل پر اعتماد میں مزید کمی آئے گی اور جسد قومی پر ایک اور سیاہ دھبہ

لگ جائے گا… لہٰذا توقع رکھنی چاہئے کہ کل کے ضمنی انتخابات پوری طرح شفاف اور آزادانہ طریقے سے منعقد ہوئے ہوں گے… نتائج کو دونوں پارٹ بسروچشم کر لیں گی اور کم از کم ایک دفعہ تو آزادانہ اور شفاف طریقے کی قابل تقلید مثال قائم کرنے میں مدد ملے گی…لیکن اس سب کچھ کا انحصار بہرصورت مثبت توقعات پر ہے جن کی امید ٹوٹنی نہیں چاہئے…

پی ڈی ایم کا سیاسی اتحاد مطلوبہ مقاصد حاصل کئے بغیر اپنی موت آپ مر گیا ہے یا اس کے اندر زندگی کی کوئی رمق باقی رہ گئی ہے اس پر بحث ہوتی رہے گی… بال کی کھال اتاری جاتی رہے گی جو ہمارے سیاسی تجزیہ نگاروں اور اینکر پرسنز کا وتیرہ ہے… لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں جس شوروغوغا اور بظاہر عوامی قوت کے ساتھ ملکی تاریخ کے اس سب سے کم عمر سیاسی اتحاد نے گزشتہ ماہ ستمبر میں اٹھان لی تھی اور حکومت اور اس کے پس پردہ کار فرما ہمہ مقتدر قوتوں کے لئے یک دم چیلنج پیدا کر دیا تھا وہ اتنی ہی تیزی کے ساتھ تنزلی کا شکار ہو گیا ہے لیکن ہمارے وزیراعظم بہادر عمران خان کے لئے اندرونی چیلنج نے ان کی نام نہاد سول حکمرانی کے اندر توڑپھوڑ کا عمل شروع کر دیا ہے… ماضی قریب تک ان کے دست راست اور موصوف کے ایک اشارے پر تجوریوں کا منہ کھول دینے والے، یوں کھلاڑی وزیراعظم کی اے ٹی ایم کا لقب پانے والے جہانگیر ترین ایسا طوطا ثابت ہو رہے ہیں جس کے ہاتھ میں حکومت کی جان ہے… جہانگیر ترین کو 2017ء میں سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کے ذریعے زندگی بھر نااہل قرار دے دیا گیا تھا اور مبصرین کے نزدیک یہ محض اس لئے کیا گیا کہ نوازشریف کے بارے میں اسی طرح کے فیصلے کو نام نہاد انصاف کی تکڑی میں تولا جا سکے… یہی وجہ تھی کہ ترین صاحب کے سیاسی لیڈر عمران خان نے بظاہر فیصلے کو قبول کرتے ہوئے عملاً اور قدم قدم پر اس کی تکذیب کی… انہیں سائے کے طور پر اپنے ساتھ رکھا… ترین صاحب سے بڑھ کر ان کا مشیر اور مشکل سیاسی مراحل طے کرنے کے لئے مددگار کوئی نہیں تھا… 2018 کے انتخابات میں وفاق کے اندر ہمارے کھلاڑی کی جماعت کو اکثریت میں بدلنے کے لئے ہوائی جہاز کی سیاست کے موجد بنے… پنجاب کی حکومت تو قائم ہی ان کی اس سیاستکاری کی بنا پر ہوئی… کوئی سوچ نہیں سکتا تھا کہ عمران اور ترین کے درمیان آخری حد تک قائم ہونے والے اعتماد کا رشتہ اتنی جلد ٹوٹ جائے گا… اگر وہ آج آٹھ شوگر ملوں کے مالک ہیں اور اس مافیا کے روح رواں ہیں تو اس وقت بھی تھے جب انہوں نے تحریک انصاف میں شرکت کی… جب ملک کی سب سے بڑی عدالت نے موصوف کو نااہل قرار دیا اور جب وہ اپنے سیاسی لیڈر پر متاثرکن حد تک نوٹوں کی بارش کا سماں پیدا کرتے رہے… ذاتی ہوائی جہاز کے ذریعے قومی و صوبائی اسمبلی کے اراکین کو عمران کی جناب میں پیش کر کے حمایت اور وفاداری کا عہد لیتے رہے… یہ تمام اخراجات ایک مافیا لیڈر کا خزانہ ہی برداشت کر سکتا تھا… تب کسی نے حساب پوچھا نہ منی ٹریل دکھانے کا تقاضا کیا… چینی کی پیداوار اور تجارت پر ترین صاحب کی اجارہ داری اس مملکت خدادا کے کسی بھی آنکھیں کھول کر رکھنے والے شہری کے لئے نئی اور عجوبے کی بات نہ تھی… عمران خان سے یہ تمام حقائق کیسے مخفی رہ سکتے تھے لیکن گزشتہ برس کے چینی بحران اور دیگر اشیائے ضرورت کی آسمانوں کو چھوتی ہوئی قیمتوں نے جب اس حکومت کی ساکھ کو بری طرح متاثر کیا تو وزیراعظم کے دائیں بائیں اٹھنے بیٹھنے والے بیوروکریٹ نما مشیروں نے ترین صاحب کو نشانہ بنانے میں دیر نہ لگائی… پہلے وہ ملک سے باہر چلے گئے… سال بھر کا عرصہ وہاں مقیم رہے… حکومت کی چولیں دوبارہ ہلنا شروع ہوئیں… سینٹ میں اس کے وزیرخزانہ حفیظ شیخ کو پی ڈی ایم کے مشترکہ امیدوار یوسف رضا گیلانی کے مقابلے میں شکست سے دوچار ہونا پڑا… وزیراعظم کو اپنی کشتی کو یوں ڈگمگاتا دیکھ کر قومی اسمبلی سے اعتماد کے ووٹ کی ضرورت لاحق ہوئی تو جہانگیر ترین کی یاد دوبارہ تازہ ہو گئی… وہ وطن واپس آ چکے تھے… اپنے روایتی اثرورسوخ کو کام میں لاتے ہوئے دوست کو ایک مرتبہ پھر مشکل سے نکالا لیکن ہمارے کھلاڑی وزیراعظم پر پھر اچانک انکشاف ہو گیا کہ اس کی حکومت کی تمام تر معاشی مشکلات کا سبب تو وہ مافیا ہے جس کی طنابیں ترین صاحب کے ہاتھوں میں ہیں… لہٰذا ایف آئی اے نے انہیں، ان کے بیٹے اور دوسرے اہل خانہ کو طلبی کے نوٹس جاری کر دیئے… ترین صاحب نے بھی اس کے ساتھ اپنے پَر پرزے دکھانے شروع کر دیئے ہیں… ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے قومی اور پنجاب کی صوبائی اسمبلی کے کم از کم تیس ارکان جمع ہو گئے ہیں… یعنی جس اشارے پر کبھی عمران خان کے قدموں پر دولت کے انبار لگاتے تھے اور ہوائی جہاز کو اڑانیں بھراتے تھے آج اسی اشارے پر جب ’’مرضی مولا‘‘ ہو اس حکومت کو اڑا کر رکھ سکتے ہیں… ’’شاخ نازک پر جو آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہو گا‘‘… یہ ایک شخص جب چاہے یا اصل سرپرستوں کی جانب سے معمولی سا پیغام ملنے پر اپنے آپ کو منتخب کہلانے والے عمران خان کو بے بسی کی تصویر بنا کر رکھ سکتا ہے… پی ڈی ایم بظاہر ٹوٹ جانے کے باوجود اس حد تک تو کامیاب نظر آتی ہے کہ اپنے اوّلین ہدف عمران خان کی حکومت کا اِنجر پنجر اندرونی تضادات کا شکار ہو کر گرنے کے قریب جا پہنچا ہے… جانا دل کا ٹھہر گیا ہے صبح گیا شام گیا…والی کیفیت ہے… کب اپنا عملی اظہار کرتی ہے یہ ’’اوپر‘‘والی مرضی پر منحصر ہے…

تبصرے بند ہیں.