رمضان کی آمد آمد اور مہنگائی

150

رمضان المبارک کی آمد آمد ہے۔ برکتوں، سعادتوںاور عنایتوں کا یہ مہینہ اہل اسلام کیلئے عبادتوں کا مہینہ بھی ہوتا ہے۔ سحری اور افطاری، ہر روز چھوٹے موٹے گھریلو تہواروں کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ مسجدیں نمازیوں سے بھر جاتی ہیں۔ گھروں کا ماحول بھی تبدیل ہو جاتا ہے۔ معمولات بدل جاتے ہیں۔ سارا ماحول ہی بدلا بدلا سا محسوس ہوتا ہے۔

اکثر سننے میں آتا ہے کہ بہت سے اسلامی ممالک میں رمضان کی آمد کے ساتھ ہی اشیائے ضروریہ کی قیمتیں ارزاں کر دی جاتی ہیں۔ خصوصی پیکج دئیے جاتے ہیں۔ ان اشیاءکیلئے خصوصی اسٹورز یا ہماری طرح کے رمضان بازارنہیں لگتے۔ نہ ہی یہ اشیاءسرکاری قسم کے یوٹیلیٹی سٹوروں تک محدود ہوتی ہیں۔ آپ کسی بھی چھوٹی بڑی دکان، سٹور یا سپر مارکیٹ تک چلے جائیں، یہ اشیاءمقررہ ارزاں نرخوں پر دستیاب ہوں گی۔ ان کی کوئی قلت بھی نہیں ہونے دی جائے گی۔ دبئی ہمارے پڑوس میں ایک چھوٹی سی ریاست ہے جو متحدہ عرب امارات کا حصہ ہے۔ وہاں بسنے والے، پاکستانی بتاتے ہیں کہ برکتوں اور رحمتوں کا یہ مہینہ کس طرح واقعی برکتیں اور رحمتیں لے کر آتا ہے۔ گھی، کوکنگ آئل، چینی، چاول، آٹا ، دودھ، کھجوریں، بیسن ، میدہ، چائے اور ایسی ہی دیگر اشیاءخصوصی رمضان قیمتوں پر ہر کہیں ، نہایت وافر طور پر دستیاب ہوتی ہیں۔

ہمارے ہاں رمضان کی آمد کے ساتھ ہی عوام میں تشویش کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ حکومت لاکھ دعوے کرے، ضرورت کی تمام اشیاءکی قیمتیں رمضان المبارک شروع ہوتے ہی کئی گنا بڑھ جائیں گی۔ خصوصی بازارہوں یا یوٹیلیٹی سٹور، بہت کم لوگوں کی ان تک رسائی ہوتی ہے۔ وہ روزے کی حالت میں لمبی لمبی قطاروں میں کھڑے رہتے ہیں اور آخر میں پتہ چلتا ہے کہ ان کی مطلوبہ شے یا اشیاءختم ہو گئی ہیں۔ آئے دن ہم ان اسٹوروں کے سکینڈلز کی خبریں بھی سنتے رہتے ہیں۔ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ یہاں ملنے والی اشیاءانتہائی غیر معیاری ہوتی ہیں۔ سو عام آدمی گراں فروشوں کے رحم و کرم پر رہتا ہے۔ جو من مانے نرخوں پر اشیاءبیچتے اور منافع کماتے ہیں۔ رمضان سے قطع نظر مہنگائی کی شدید لہر نے عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ خاص طور پر غریب اور متوسط طبقے کے لوگ سخت مشکلات کا شکار ہیں۔ لگی بندھی آمدنی میں ان کیلئے دو وقت کی روٹی بھی مشکل ہو گئی ہے۔ اوپر سے بجلی کے نرخ، بجلی کے میٹر ہی کی طرح ہر روز بڑھتے جا رہے ہیں۔ شاید ہی کوئی شخص ہو جو ان بلوں سے پریشان نہ ہو۔ گیس کے نر خوں کا بھی یہی حال ہے۔ دوائیں تک مریضوں کی پہنچ سے باہر ہو گئی ہیں۔ رمضان میں ریلیف تو کیا ملنا ،ضرورت کی تمام اشیاءکی قیمتوں کو پر لگ جاتے ہیں۔ انتظامیہ ان پر قابو پانے میں قطعی طور پر ناکام رہتی ہے۔ سیاست سے ہٹ کر دیکھا جائے تو بھی اس الزام پر یقین کرنا پڑتا ہے کہ حکومت کی بد انتظامی نے آٹا اور چینی جیسی اشیاءکی قیمتوں کو بالواسطہ طور پر خود ہوا دی ہے۔ ملکی ضرورت کو نظر انداز کرتے ہوئے چینی برآمد کر دی گئی۔ برآمد کرنے والوں کو اربوں روپے کی سبسڈی دی گئی۔ پھر جب ملک میں واویلا مچا اور چینی کی قلت کے باعث قیمتیں چڑھنے لگیں تو وہی چینی کہیں زیادہ قیمت دے کر باہر سے درآمد کی گئی۔ پھر چینی سکینڈل کی تحقیقات کاا ہتمام کیا گیا۔اس تحقیقات کے ذریعے ذمہ داروں کا تعین کیا گیا۔ پھر بتایا گیا کہ سٹے بازی ہو رہی ہے اور یہ سٹہ بازہی مختلف حربوں سے چینی کی قیمتوں پر اثر انداز ہو تے ہیں۔ حکومتی وزراءنے اسے بڑی حکومتی کامیابی کے طور پر پیش کیا کہ پہلی بار چینی مافیا پر ہاتھ ڈالا گیا ہے۔ اس مافیا کے چہرے بے نقا ب ہو گئے ہیں۔ پھر ہمیں بتایا گیا کہ حکومت نے شو گر مافیا کے سرداروں اور سٹہ بازوں پر مقدمات قائم کر لئے ہیں۔ ایف۔آئی۔اے نے کام شروع کر دیا۔ یہ ساری باتیں عوام کے سامنے حکومتی کارکردگی کے طور پر پیش کی جاتی رہیں۔ لیکن دوسری طرف زمینی حقیقت یہ تھی کہ چینی کی قیمت بڑھتی چلی گئی۔ پی۔ٹی۔آئی کی حکومت قائم ہوئی تو چینی 55 روپے کلو دستیاب تھی۔ جب یہ قیمت 70 روپے کلو تک پہنچی تو حکومت نے اعلان کیا کہ عوام کیلئے مشکلات پیدا کرنے والوں کو نہیں چھوڑیں گے۔ سو کارروائیاں شروع ہو گئیں۔ چینی کی قیمت بڑھتے بڑھتے دوگنا اور کہیں اس سے بھی زیادہ ہو گئی۔ ایک فیصلہ عدالت کی طرف سے بھی آیا کہ چینی 80 روپے فی کلو پر فراہم کی جائے۔ عمران خان کے بقول وہ خود بھی کڑی نظر رکھے ہوئے ہیں کہ چینی سمیت ضرورت کی تمام اشیاءعوام کو مناسب نرخوں پر دستیاب ہوں۔ آج ہی پنجاب کے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کا بیان بھی آیا ہے کہ وہ رمضان میں اشیائے ضروریہ پر ذاتی طور پر نگاہ رکھیں گے۔ وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کی نیت یقینا ٹھیک ہو گی۔یہ بھی تسلیم کہ ان کی دلی خواہش ہو گی کہ رمضان میں لوگ، پہلے سے موجود مہنگائی میں مزید اضافے کا شکار نہ ہوں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اشیاءکی قیمتیں اپنا ایک نظام رکھتی ہیں۔ مارکیٹ کے اپنے اصول ہوتے ہیں۔ قیمتیں عدالتی فیصلوں، حکومتی اعلانات یا انتظامی اقدامات سے طے نہیں پاتیں۔

ادھر آئی۔ایم۔ایف مسلسل شکنجہ کس رہا ہے۔ وہ "ڈو مور” کی گردان کئے جا رہا ہے۔ قرضے کی چھوٹی سی گرانٹ جاری کرنے کے لئے وہ کڑی شرائط لگا رہا ہے۔ بجلی کی قیمتیں بڑھاو¿۔ٹیکس بڑھاو¿۔ سبسڈی ختم کرو۔ عوام کو مزید نچوڑو۔ حکومت کی مجبوری یہ ہے کہ خرچے آمدنی سے بڑھ گئے ہیں۔ اس خلا کو پر کرنے کیلئے اسے قرضوں کی ضرورت ہے۔ یہ قرضے اسے ہر قیمت اور ہر شرط پر چاہئیں۔ نتیجہ یہ کہ ملک بھاری قرضوں کے بوجھ تلے آرہا ہے اور اس کی قیمت پاکستان کے عوام ادا کر رہے ہیں۔ آج ہی معروف ماہر اقتصادیات ڈاکٹر فرخ سلیم نے لکھا ہے کہ گزشتہ 32 مہینوں میں موجودہ حکومت نے آمدنی سے دس ٹریلین روپے زیادہ خرچ کئے۔یاد رہے کہ ایک ٹریلین میں ایک ہزار ارب روپے ہوتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بجٹ کے اس خسارے کو پر کرنے کے لئے مہنگے قرضے لئے جا رہے ہیں۔ بجلی کے سیکٹر میں گردشی قرضہ جو پچھلی حکومت کے خاتمے کے وقت 1.1 ٹریلین روپے تھا اب بڑھ کر 2.5 ٹریلین ہو چکا ہے۔یعنی دوگنے سے بھی زیادہ۔ خسارے میں چلنے والے حکومتی اداروں نے مزید دو ہزار ارب روپے کا قرضہ خود پر چڑھا لیا ہے۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ اگلے دو تین بر س میں قرضوں کا یہ بوجھ ناقابل برداشت ہو جائے گا اور نہ جانے ملک و قوم پر کیا گزرے گی۔

اللہ سے دعا ہی کی جا سکتی ہے کہ رمضان حقیقی معنوں میں ہمارے لئے برکتیں اور سعادتیں لے کر آئے۔ لوگ مشکلات کے بجائے آسانیاں محسوس کریں۔ ان کی توجہ ناقابل برداشت مہنگائی کے بجائے عبادات پر مرکوز رہے۔ حالات بہر حال اچھے نہیں۔

تبصرے بند ہیں.