میں اپنے گزشتہ کالم میں، سابق سی سی پی او لاہور محمد عمر شیخ کی بات کررہا تھا ، شب برات پر میں نے اُنہیں معافی کا مسیج بھیجا، جو اُنہوں نے جوابی مسیج میں فرمایا وہ گزشتہ کالم میں، میں لکھ چکا ہوں، اُن کا دوسرا مسیج مجھے یہ آیا” میں اِس وقت گلبرگ میں ہوں، میں ابھی آپ کے پاس چائے پینے آرہا ہوں، اُن کے اِس بڑے پن پر مجھے ایک ریٹائرڈ پولیس افسر محمد عملش یاد آگئے ، ”شریف سرکار“ نے ایک انتہائی نیک سیرت باکردار پولیس افسر محمد علی نیکوکارہ کو ایک انتہائی بھونڈے الزام میں معطل کردیا، اُن کے انکوائری افسر محمدعملش مقرر ہوئے، وہ اُس وقت آئی جی بلوچستان تھے، اُنہوں نے محمد علی نیکوکارہ کو قصوروارٹھہرادیا، مجھے لگا یہ فیصلہ اُنہوں نے کسی دباﺅ میں آکر کیا ہے، میں حیران تھا اُن کی شہرت خودایک ایماندار پولیس افسر کی ہے، پھر وہ دباﺅ میں کیوں آئے؟ میں نے اُن کے اِس عمل پر ایک کالم لکھا، اُس میں بڑے سخت الفاظ لکھے، کچھ دن جب گزرگئے میری والدہ محترمہ کا (2011)انتقال ہوگیا، اُن کی رسمِ قل کی صبح میرے موبائل فون پر ایک کال آئی، دوسری جانب سے کوئی کہہ رہا تھا ”میرا نام محمد عملش ہے، میں اظہار تعزیت کے لیے آنا چاہتا ہوں، میرا خیال تھا یہ کوئی اور محمدعملش ہوں گے، کچھ دیر بعد وہ تشریف لے آئے وہ آئی جی بلوچستان ہی تھے، تعزیت کے بعد بوقت رخصت فرمانے لگے ”میں آپ کی تحریروں کا مداح ہوں“ …. مجھے بڑی شرمندگی ہوئی کہ جس شخص کے بارے میں چند روز پہلے ایک سخت کالم میں نے لکھا وہ کتنے بڑے دل سے یہ کہہ رہا ہے ”وہ میرا مداح ہے“ …. مجھے اِس موقع پر اپنے عزیز چھوٹے بھائی ڈی آئی جی سہیل اختر سکھیرا کا ذکر بھی کرنا ہے، چند برس قبل ان کے بارے میں، میں نے کیا کیا بکواسا؟مجھے یہ دہرانے کی ضرورت نہیں، اِک روز میرے بھائی طارق عباس قریشی نے مجھے بتایا کہ سہیل سکھیرا آپ کے کالم کے اُن جملوں سے بہت ہرٹ ہیں جو آپ نے اُن کے مرحوم والد کے بارے میں لکھے، میں نے اگلے ہی کالم میں اُن سے معافی مانگی، میں نے لکھا یہ ”میرا گھٹیا پن“ تھا، جس روز اگلے روز شائع ہونے کے لیے میں نے یہ کالم لکھ کر بھیجا رات کو میرے ایڈیٹر کا مجھے فون آگیا، فرمانے لگے”آپ نے اپنے لیے جو ”گھٹیا پن“ کا لفظ استعمال کیا ہے وہ مناسب نہیں ہے، مجھے اجازت دیں میں یہ لفظ حذف کردُوں یا آپ خود اس کے بجائے کوئی اور لفظ بتادیں“۔میں نے عرض کیا ”اگر ہم دوسروں کے لیے یہ لفظ اپنی تحریروں میں استعمال کرسکتے ہیں تو یہ حقیقت اپنے بارے میں کیوں نہیں لکھ سکتے؟ ، سو یہ لفظ اِسی طرح شائع ہوا، سہیل سکھیرا کو اللہ نے پولیس افسری کے علاوہ بھی بڑا نوازا ہے، اُن پر سب سے بڑی نوازش یہ ہے ان کے دوستوں کی تعداد بہت زیادہ ہے، دوست انسان کی اصل جائیداد ہوتے ہیں، اُن کے بارے میں شاید اِسی حوالے سے اکثر لوگ کہتے ہیں ”اُن کے پاس بڑی جائیداد ہے“، ….میرا کالم شائع ہوا مجھے اُن کا فون آگیا، کہنے لگے ”بھائی جان آج کے بعد ساری ناراضگی ختم ہوگئی“، یہ اُن کی عظمت ہے جسے ایک احسان کے طورپر میں ہمیشہ یادرکھوں گا، اُنہوں نے مجھے دِل سے معاف کرکے اپنے خلاف لکھی جانے والی میری تحریروں پر مجھے شرمندہ ہونے کا بھرپور موقع فراہم کیا، ….میرا ”معافی نامہ“ بہت طویل ہوگیا ہے۔ خوشی کا مقام مگر یہ ہے میری اِن تحریروں کا اثر قبول کرتے ہوئے اپنے ناراض دوستوں اور عزیزوں سے معافی مانگ کر اُنہیں منالینے والوں کی فہرست بھی بہت طویل ہوگئی ہے، یہی اللہ کی طرف سے میرا انعام یہی میرا اجر ہے، …. کچھ دوست میرے اِس ”معافی نامہ“ کو میرا ”کمزوری نامہ“ سمجھ رہے ہیں، میری چوبیس سالوں کی تحریری جدوجہد گواہ ہے آج تک سوائے اللہ پاک کے کسی سے میں خوفزدہ نہیں ہوا، نہ ان شاءاللہ ہوں گا، میرے معافی نامے کو میرا ”کمزوری نامہ“ سمجھنے والے اپنا پورا دین اُٹھا کر دیکھ لیں اللہ کے احکامات اور رسول اللہ کی سیرت مبارکہ کی روشنی میں کسی سے معافی مانگ لینا یا کسی کو معاف کردینا کمزوری نہیں طاقت ہے جو خوش نصیبوں کو ملتی ہے، اِسے ”کمزوری “ سمجھنے والے شرپسند عناصرکی مذمت اگلے روز جناب عطا الحق قاسمی نے میرے حوالے سے لکھے جانے والے اپنے کالم میں بھی کی ہے۔ مجھے افسوس ہے میرے ایک دوناراض دوستوں نے اللہ اور رسول اللہ کے نام پر مانگی جانے والی میری معافی کو اللہ اور رسول اللہ کی رضا کی خاطر کھلے دل سے قبول کرنے کے بجائے اُلٹا اِسے میری کمزوری سمجھا، ایک خاتون پولیس افسر کو شب برات کی رات ایک خاص کیفیت میں مبتلا ہوکر معافی کے میں نے جو مسیجز کیے اُنہوں نے اُس کے سکرین شاٹ لے کر بے شمار لوگوں کو بھجوائے، میری معافی کی جتنی اُنہوں نے نمائش اور تشہیر کی، اُن کی اِس فطرت کا ”اجر“ مختلف صورتوں میں اللہ اُنہیں دے رہا ہے، مزید دے گا، میں مگر دعا گو ہوں اللہ اُن کے حال پر رحم فرمائے، اُنہوں نے شاید قرآن پاک کبھی ترجمے سے نہیں پڑھا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے ”بے شک اللہ احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے اور تکبر والے بڑائی مارنے والوں کو دوست نہیں رکھتا“ …. ایک اور جگہ فرمایا ”تو ہم نے اُن پر طوفان، ٹڈیاں اور جوئیں اور مینڈک اور خون کتنی کھلی نشانیاں بھیجیں مگر وہ تکبر ہی کرتے رہے، وہ لوگ تھے ہی گناہ گار“…. پھر فرمایا ” تو آج تم کو ذلت کا عذاب ہے یہ اِس کی سزا ہے کہ تم زمین پر ناحق غرور کیا کرتے تھے“ …. میرا ارادہ ہے خاتون پولیس افسر کو پہلے رمضان المبارک کو معافی کا پھر ایک مسیج کروں گا۔ وہ اِس مسیج کی بھی جتنی چاہیں تشہیر کرلیں، شرپسندوں کی ہے، اہلِ ایمان مگر میرے اِس عمل پر ضرور یہ سوچیں گے میں ان کے ساتھ کیا کررہا ہوں؟ وہ کیا کررہی ہیں؟۔ میرے کچھ دوست اُن کے رویے پر سیخ پا ہیں، کچھ دوست پولیس افسران اُن کے خلاف شواہد لے کر آگئے۔ میں نے عرض کیا ” کچھ بھی ہو، اللہ اور رسول اللہ کے نام پر مانگی جانے والی معافی میں اب واپس نہیں لُوں گا“…. ایک پی ایس پی واٹس ایپ گروپ میں شامل کچھ شرپسند افسران بھی میری معافی کے ”چسکے“ لے رہے ہیں، اِس سے زیادہ اُن کی بزدلی اور بداخلاقی کیا ہوگی ایک اچھے عمل کو سراہنے کے بجائے وہ دھتکار رہے ہیں، ایک ایسے شخص کی غیبت کررہے ہیں جو اس گروپ میں موجود ہی نہیں ہے، دعا ہے اللہ اُنہیں اپنی خصوصی ہدایت سے نوازے…. اور یہ آخری بات بھی شرپسندوں پر شاید بہت بھاری گزرے کہ میرے محترم بھائی جناب ذوالفقار چیمہ نے انتہائی بڑے دِل کا مظاہرہ فرماتے ہوئے سچے دل سے مجھے معاف کردیا ہے !!
تبصرے بند ہیں.