جب میرے والد کو پھانسی پرچڑھا دیا گیا ،بے نظیر بھٹو کی کتاب سے اقتباس

190

ایس ایم ایل اے کے حکم کے مطابق مندرجہ ذیل افسران نے تین اپریل شام چھ بجے بھٹو کے سیل میں جا کر انہیں ان کی پھانسی کی اطلاع دینی تھی۔

الف۔ جیل سپرنٹنڈنٹ، مسٹر یار محمد

ب۔ سکیورٹی بٹالین کمانڈر، لیفٹیننٹ کرنل رفیع الدین

ج۔ مجسٹریٹ درجہ اول، مسٹر بشیر احمد خان۔

د۔ جیل ڈاکٹر، مسٹر صغیر حسین شاہ

یہ پارٹی شام چھ بج کر پانچ منٹ پر سکیورٹی وارڈ میں بھٹو صاحب کے سیل میں داخل ہوئی تو وہ گدے کے اوپر جو سیل میں فرش پر شمالاً جنوباً بچھا ہوا تھا، لیٹے ہوئے تھے۔ ان کا سر اور کندھے سیل کی شمالی دیوار کے ساتھ آرام دہ حالت میں تھے۔ سپرنٹنڈنٹ جیل یار محمد نے بھٹو صاحب کو یہ حکم پڑھ کر سنایا:

’’آپ، مسٹر ذوالفقار علی بھٹو کو لاہور ہائیکورٹ نے 18مارچ 1987ء کو نواب محمد احمد خان کے قتل کے جرم میں پھانسی کی سزا سنائی تھی۔ آپ کی اپیل سپریم کورٹ پاکستان نے 6فروری 1979ء کو نامنظور کردی اور ریویو پٹیشن کو بھی 24مارچ 1979ء کو نامنظور کردیا گیا۔ صدر پاکستان نے اس کیس میں مداخلت نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے اس لیے آپ کو اب پھانسی دینے کا فیصلہ ہوا ہے‘‘۔

جیل سپرنٹنڈنٹ جب یہ حکم سنا رہا تھا تو بھٹو صاحب گدے پر اسی طرح بغیر کسی گھبراہٹ یا پریشانی کے لیٹے رہے بلکہ ان کے جسم اور چہرے پر نرم ناک ڈھیلاپن اور مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ اس وقت میں ان کے پائوں کے نزدیک مغربی رخ اور جیل سپرنٹنڈنٹ ان کے پائوں کے مشرقی رخ کھڑے تھے۔ بھٹو صاحب نے جس خندہ پیشانی کے ساتھ اپنی پھانسی کی خبر سنی اس پر میں نہ صرف حیران ہوا بلکہ میرے اندر میرا ضمیر مجھ سے بغاوت کررہا تھا۔ میں اپنے آپ سے کہہ رہا تھا کہ اس لیڈر کو ہم پھانسی لگا رہے ہیں جو اپنی موت کی خبر اس خندہ روئی اور بے نیازی سے سُن رہا ہے مجھے اپنے اندر سے آواز سنائی دے رہی تھی کہ اس شخص کی موت ہماری قوم اور ہمارے ملک کے لیے سب سے بڑا المیہ ثابت ہو گی۔میں شاید زندگی میں پہلی دفعہ خود پر ہر طرح کا کنٹرول ختم ہوتا محسوس کررہا تھا۔ بھٹو صاحب نے جیل سپرنٹنڈنٹ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر حاکمانہ انداز میں کہا (انگریزی میں تحریر شدہ الفاظ بھٹو صاحب کے اپنے الفاظ ہیں)

(الف)۔ پھانسی سے 24گھنٹے پہلے مجاز اور مستند حاکم کے ذریعے مجھے بتایا جانا چاہیے تھا لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ اس کے برخلاف جب آج ساڑھے گیارہ بجے میری بیٹی اور میری بیوی مجھ سے ملیں تو ان کو بھی یقین نہ تھا۔ میں نے جیل سپرنٹنڈنٹ کو بلایا اور اس سے ضروری وضاحت کے لیے کہا، تب اس نے مجھے غیرمشروط طور پر بتایا کہ میری پھانسی کا حکم اسے مل گیا ہے جو اس کے پاس ہے۔ اس نے مجھے یہ بھی بتایا کہ میرے دوسرے رشتہ دار جن میں میری بہن منورالاسلام اور میرا چچازاد بھائی ممتاز علی بھٹو، میری بیوی اور بیٹی کے چلے جانے کے بعد مجھ سے ملیں گے۔ اس نے مجھے یہ بھی بتایا تھا کہ میرا چچازاد بھائی ممتاز علی بھٹو، میری بیوی اور بیٹی کے چلے جانے کے بعد مجھ سے ملیں گے۔ اس نے مجھے یہ بھی بتایا تھا کہ ملاقاتیوں کے بعد وہ خود بعد دوپہر ایک بج کر 50منٹ پر میری وصیت کے لیے آئے گا۔

(ب)۔ میری پھانسی کا کوئی لکھا ہوا حکم مجھے ابھی تک نہیں دکھایا گیا۔

(ج)۔ میں اپنے وکلاء کو جتنا جلد ہوسکے ملنا چاہتا ہوں۔

(د)۔ میرے دوست رشتہ داروں کو مجھے ملنے کی اجازت دی جانی چاہیے تھی۔

(ر)۔ میرے دانت بہت سخت خراب ہیں اور میں اپنے معالج مسٹر ظفر نیازی سے فوراً ملنا چاہتا ہوں۔

بھٹو صاحب کے ان الفاظ کے فوراً بعد مجسٹریٹ درجہ اول مسٹر بشیر احمد خان نے اپنے آپ کو متعارف کرایا اور بھٹو صاحب سے کہا کہ اگر وہ چاہیں تو اپنی وصیت لکھ سکتے ہیں جس کے لیے کاغذ وغیرہ مہیا کردیا جائے گا۔ یہاں جیل سپرنٹنڈنٹ کا سرکاری پیغام ختم ہوا اور پارٹی جانے لگی۔ میری اس وقت عجیب کیفیت تھی۔ میں کچھ حواس باختہ سا تھا، یوں محسوس ہوتا تھا جیسے میں ایک پتھر بن گیا ہوں۔ اتنے میں بھٹو صاحب اُٹھے اور پہلا قدم لینے پر لڑکھڑائے۔ میں نے انہیں بازو سے تھام کر سہارا دیا۔ کہنے لگے میرے پیٹ میں لاغری ہے۔ انہوں نے جونہی اپنے آپ کو سنبھالا تو کہنے لگے رفیع میں ٹھیک ہوں۔ میں نے انہیں جواب دیا کہ آپ کی ہمت فولادی ہوسکتی ہے لیکن جسم کو قوت کے لیے خوراک چاہیے، آپ نے کئی دنوں سے کچھ نہیں کھایا۔ انہوں نے مجھے تھپتھپایا۔ انہوں نے بے حد ہمت دکھائی، وہ اس وقت تک مسکرا رہے تھے۔ اس اثناء میں جیل سپرنٹنڈنٹ کو جو سیل سے باہر نکل چکا تھا، ایک وارڈر نے بتایا کہ ان کے لیے ٹیلی فون کال ہے (یہ ٹیلیفون ڈیوٹی آفیسر اور جیل کے دفتر تک محدود تھا) ڈاکٹر مجسٹریٹ بھی چودھری یار محمد کے پیچھے پیچھے سیل سے باہر چلے گئے تھے۔ بھٹو صاحب نے مشقتی عبدالرحمن کو آواز دی جو فوراً سیل میں آیا اور بھٹو صاحب نے اسے گرم پانی لانے کو کہا اور کہنے لگے کہ میں شیو کرنا چاہتا ہوں (لمبی بھوک ہڑتال کے دوران انہوں نے شیو تک کرنا چھوڑ دیا تھا) پھر کہا کہ میں بلڈی ملا نہیں کہ ایسی حالت میں خداوند تعالیٰ کے سامنے جائوں۔ بھٹو صاحب نے مشقتی کو گرم پانی لانے کو کہا اور بعد میں میری طرف متوجہ ہوئے، کہنے لگے! رفیع یہ کیا ڈرامہ کھیلا جارہا ہے۔

میری لمحہ بھر خاموشی پر دوبارہ کہا: رفیع یہ کیا ڈرامہ کھیلا جارہا ہے؟ میں نے جواب دیا: جناب میں نے کبھی آپ کے ساتھ مذاق کیا ہے؟

انہوں نے فوراً کہا: تمہارا کیا مطلب ہے؟ پھر دہرایا، تمہارا کیا مطلب ہے؟

میں نے جواب دیا: جناب آخری حکم مل گیا ہے، آج آپ کو پھانسی دی جارہی ہے۔

مسٹربھٹو میں پہلی مرتبہ میں نے وحشت کے آثار دیکھے۔ انہوں نے اونچی آواز میں اپنے ہاتھ کو ہلاتے ہوئے کہا بسم ختم؟ بس ختم۔

میں نے جواب میں کہا: جی جناب۔

بھٹو صاحب کی آنکھیں وحشت اور اندرونی گھبراہٹ سے جیسے پھٹ گئی ہوں۔ ان کے چہرے پر پیلاہٹ اور خشکی آگئی جو میں نے پہلے کبھی نہ دیکھی تھی۔ میں اس حالت کو صحیح بیان نہیں کرسکتا۔

انہوں نے کہا: کس وقت؟ پھر کہا: کس وقت اور پھر کہاں آج؟ میں نے اپنے ہاتھوں کی سات انگلیاں ان کے سامنے کیں جیسے ایک جمپ ماسٹر پیرا جمپ سے پہلے ہاتھوں سے وقت بتاتا ہے۔

انہوں نے کہا: سات دن بعد۔

میں نے ان کے نزدیک ہو کر سرگوشی میں بتایا: جناب گھنٹے۔

انہوں نے کہا آج رات سات گھنٹوں بعد۔ میں نے اپنا سرہلاتے ہوئے ہاں میں جواب دیا۔

بھٹو صاحب جب سے پنڈی جیل میں لائے گئے اس وقت سے وہ ایک مضبوط اور سخت چٹان بنے ہوئے تھے لیکن اس موقع پر وہ بالکل تحلیل ہوتے دکھائی دے رہے تھے جس نے مجھے زندگی کی حقیقت سے روشناس کردیا۔

چند لمحوں کے وقفے کے بعد انہوں نے کہا: رفیع بس!

میں نے اپنے سر کو ہلاتے ہوئے ہاں کا اشارہ کیا۔

چند لمحوں کی خاموشی کے بعد میں نے بھٹو صاحب کو بتایا کہ بیگم بھٹو اور محترمہ بے نظیر نے ان سے آخری ملاقات کے بعد مجھ سے ملاقات کی تھی اور میں نے ان کی اپیل جنرل ضیاء الحق صاحب تک پہنچانے میں کیا کردار سرانجام دیا۔ اس دوران بھٹو صاحب مجھے گھبراہٹ کے عالم میں اور بے حد کمزور محسوس ہوئے تو میں نے ان کو سہارا دے کر سیل میں پڑی کُرسی پر بٹھانا چاہا۔ انہوں نے بیٹھتے وقت مجھے اشارہ کیا کہ ان کی بجائے میں بیٹھوں لیکن میں نے انہیں زبردستی کرسی پر بٹھا دیا اور نزدیک کونے میں پڑے کموڈ کے ڈھکن کو اس کے اوپر بند کرتے ہوئے اٹھایا اور ان کی کرسی کے سامنے رکھ کر اس کے اوپر بیٹھ گیا اور بیگمات کی اپیل کا قصہ ان کے گوش گزار کردیا اور امید ظاہر کی کہ شاید بیگم صاحبہ اس وقت تک جنرل ضیاء الحق صاحب سے مل چکی ہوں گی اور امید کرتا ہوں کہ اللہ کوئی بہتر صورت پیدا کردے۔ بہرحال میں نے اپنی طرف سے پوری کوشش کی ہے۔ مسٹر بھٹو جذبات کے تحت اپنی کرسی سے آگے لپکے اور مجھے اپنی چھاتی سے لگالیا اور فرمایا: تم ایک بہادر شخص ہو، کاش میں تمہیں پہلے سے جانتا ہوتا۔ اس حالت میں، میں نے ان کے جسم میں ایک خفیف سی لرزش محسوس کی لیکن ان کی گھبراہٹ کافی حد تک کم ہو چکی تھی اور میں نے انہیں تقریباً نارمل حالت میں محسوس کیا۔

تھوڑے وقفے کے بعد انہوں نے خودکلامی کے انداز میں کہا:

میرے وکلاء نے اس کیس کو خراب کیا ہے۔ یحییٰ میری پھانسی کا ذمہ دار ہے۔ وہ مجھے غلط بتاتا رہا۔ اس نے اس کا ستیاناس کیا ہے۔ اس نے ہمیشہ سبزباغ دکھائے۔

پھر کہنے لگے میری پارٹی کو مردہ بھٹو کی ضرورت تھی زندہ بھٹو کی نہیں۔ جب میں نے افسوس ظاہر کیا توانہوں نے میرا ہاتھ تھام کو کہا:

مجھے افسوس ہے کہ میرے وکلاء کا برتائو آپ کے ساتھ اچھا نہ تھا۔ میں نے فوراً کہا نہیں جناب انہوں نے میرے ساتھ کوئی زیادتی نہیں کی۔ انہوں نے جواب دیا: پیرزادہ اور یحییٰ نے آپ کے خلاف پریس میں سٹیٹ منٹس دیں۔ میں نے جواب میں بتایا کہ مجھ سے کبھی کوئی پوچھ گچھ نہیں ہوئی اور آپ اس بات کا خیال نہ کریں۔

انہوں نے میری خوشحالی اور ان کے ساتھ ہمیشہ شریفانہ برتائو کا شکریہ ادا کیا۔ میں نے بھی ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے انہیں یاد دلایا کہ وہ اپنی وصیت لکھنا شروع کریں۔ وہ چاہتے تھے کہ میں ان کے پاس بیٹھوں مگر مجھے سخت ہدایات مل چکی تھیں کہ ان کو اکیلا نہ ملوں حالانکہ ان کے ساتھ کچھ اور وقت گزارنا بڑا مفید ہوتا اور میں بہت کچھ اس نازک وقت میں سُن پاتا۔ اسی اثنا میں ایک وارڈر کچھ کاغذات اور کچھ لکھنے کا سامان لے کر اندر آگیا اور میں بادل نخواستہ ان کی مرضی کے برعکس سیل سے باہر آگیا۔

جیسا کہ میں پہلے کئی بار لکھ چکا ہوں کہ بھٹو صاحب کو کبھی پھانسی تک جانے کا خیال تک نہ آیا اور وہ اس مقدمے کو ہمیشہ ایک سیاسی سٹنٹ ہی سمجھتے رہے۔ تین اپریل کو ان کی بیگم اور بیٹی کو تو معلوم ہوگیا تھا کہ حکومت ان کو پھانسی لگانے کا تہیہ کرچکی ہے لیکن بھٹو صاحب کو ابھی تک سب کچھ دکھاوا ہی معلوم ہورہا تھا کیونکہ جیل حکام نے پھانسی لگنے سے سات دن پہلے ان کو سرکاری اطلاع نہ دی تھی۔ بیگمات سے ملاقات کے دوران بھٹو صاحب نے جب جیل سپرنٹنڈنٹ کو اپنے پاس بلایا اور پوچھا کہ میرے باقی رشتہ داروں کی ملاقات کب ہونی ہے تو ان کو بتایا گیا تھا کہ بیگمات کی ملاقات کے بعد ہو گی۔ جیل سپرنٹنڈنٹ نے یہ بھی بتایا تھا کہ دوپہر دوبجے کے لگ بھگ وہ ان سے وصیت لکھوانے آئے گا اسی وقت جب انہوں نے اپنی پھانسی کے حکم کے متعلق دریافت کیا تو بھی بتایا گیا تھا کہ تحریری حکم جیل سپرنٹنڈنٹ کو مل چکا ہے جو ان کو بیگمات کی ملاقات ختم ہونے پر دکھایا جائے گا۔

بعد میں شام چھ بجے کے فوراً بعد سرکاری حکام نے ان کو سرکاری طور پر سب کچھ بتادیا تو بھی ان کو کچھ شک ضرور رہا ہو گا لیکن جب انہوں نے مجھ سے اکیلے میں پوچھا کہ یہ کیا ڈرامہ ہورہا ہے اور میں نے صاف با دیا تو کسی شک کی گنجائش باقی نہ رہی کیونکہ مجھ پر میرے خیال میں ان کو پورا اعتماد ہوچکا تھا تب انہوں نے خود کو موت کے سامنے پایا۔ میں سمجھتا ہوں کہ آخر وہ انسان تھے، موت کا سامنا کرتے وقت گھبراہٹ ایک فطری بات ہے۔ سرکاری افسران اور میرے ان کے سیل سے باہر جانے کے بعد انہوں نے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ خواجہ غلام رسول جن کو میں نے ایک بڑا منجھا ہوا اور عقل مند حاکم پایا، کی نگرانی میں شام سات بج کر پانچ منٹ پر شیو بنائی۔ شیو کے دوران انہوں نے ڈپٹی سے مندرجہ ذیل بات چیت کی:

مسٹربھٹو: ڈپٹی صاحب آپ لوگوں کو ایسا لیڈر کہاں ملے گا مگر آپ کو ضرورت ہی کیا ہے۔ ضرورت تو غریبوں کو تھی۔ میں موچی دروازے میں موچیوں کے سامنے تقریریں کیا کرتا تھا کیونکہ میں خود موچی ہوں۔ تم لوگ غریبوں کا لیڈر چھین رہے ہو۔ میں انقلابی آدمی ہوں، غریبوں کا حامی۔ یار مجھے مارنا ہی تھا تو دو سال خراب کیوں کیا۔ میری عزت کیوں نہیں کی جو ساری دُنیا میں ہے۔ مجھے کسی ریسٹ ہائوس یا کسی کوٹھی میں رکھتے اور عزت سے مار دیتے۔ آج اسلامی کانفرنس کے چیئرمین کو جسے ساری دُنیا کے مسلمانوں نے منتخب کیا ہے شیو کرنے کی بھی اجازت نہیں۔ ساتھ کھڑے ہو تاکہ بلیڈ سے خودکو ضرب نہ لگالوں۔ دوسری بات، ہاں تجھے یار میں نے بہت تنگ کیا ہے، مجھے معاف کر دینا۔ دوسرے مجرموں سے جھوٹ بکواس کرا کر مجھے پھانسی کے پھندے پر چڑھا کر انہیں چھوڑنا چاہتے ہو۔

پھر انہوں نے باہر والے سنتری کو بلایا اور ڈپٹی صاحب سے کہا میرے مرنے کے بعد یہ گھڑی اس سپاہی کو دے دینا۔ ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ نے جواب دیا: ٹھیک ہے جناب۔ (اس وقت فوج کی گارد بھی لگ چکی تھی اور وہ جوان حوالدار مہدی خان 72پنجاب کا تھا)

شام آٹھ بج کر پانچ منٹ پر جب مشقتی عبدالرحمن نے بھٹو صاحب کے کہنے پر کافی کا کپ بنا کر دیا تو بھٹو صاحب کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور انہوں نے اس سے کہا: رحمن مجھ سے کوئی غلطی ہو گئی ہو تو مجھے معاف کردینا۔ پھانسی تو لگ ہی جانا ہے آج میری آخری رات تیرے ساتھ ہے۔ میں صرف چند گھنٹوں کے لیے تیرا مہمان ہوں۔

بھٹو صاحب آٹھ بج کر پندرہ منٹ سے نو بج کر چالیس منٹ تک اپنی وصیت لکھتے رہے۔ اس کے بعد تقریباً دس منٹ (نو بج کر چالیس منٹ سے نو بج کر پچاس منٹ تک) وہ ٹیبل پر شیشہ، کنگھی، بالوں کا برش، تیل کی بوتل اور جائے نماز، تولیہ بچھا کر اس کے اوپر رکھتے اور ہٹاتے رہے۔ پھر نو بج کر پچپن منٹ تک اپنے دانت برش کے ساتھ صاف کیے اور منہ ہاتھ دھویا، بالوں کو کنگھی سے سنوارا۔

پھر تقریباً پانچ منٹ کے لیے سگار کی راکھ اور چند جلے ہوئے کاغذوں کی راکھ ایک کاغذ کی مدد سے صاف کرتے رہے۔

دوبارہ شام دس بج کر دس منٹ سے گیارہ بج کر پانچ منٹ تک لکھتے رہے۔ اس کے بعد انہوں نے تمام کاغذات جو انہوں نے لکھے تھے جلاڈالے۔ جلے ہوئے کاغذات کی راکھ سارے سیل میں پھیل گئی۔ انہوں نے مشقتی عبدالرحمن کو بلایا اور اسے سیل صاف کرنے کو کہا۔ انہوں نے سنتری سے پوچھا کتنا وقت رہ گیا ہے۔ سنتری نے جواب دیا کہ جناب کافی وقت ہے۔ کہنے لگے: کتنا؟ … ایک گھنٹہ … دو گھنٹے مگر سنتری خاموش رہا۔ پھر خود ہی کہا کہ ایک دو گھنٹے سو سکتا ہوں۔ سنتری نے جواباً کہا: جی جناب۔ پھر کہا: کہیں جگا تو نہیں دو گے۔

گیارہ بج کر دس منٹ پر سیل کھولا گیا اور مشقتی عبدالرحمن اندر گیا اور برش سے فرش صاف کیا اور ساری راکھ باہر نکال دی۔ پھر سیل بند ہوا اور بھٹو صاحب خاموشی سے لیٹ گئے۔

گیارہ بج کر پچیس منٹ پر کہا کہ میں کوشش کرتا ہوں کہ تھوڑی دیر سولوں کیونکہ میں کل رات نہیں سویا، ویسے مجھے پتہ ہے کہ آپ لوگ مجھے بارہ بجے جگا دیں گے۔ کچھ دیر لیٹے ہوئے انہوں نے صنم، صنم پکارا۔

گیارہ بج کر پچاس منٹ پر اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ مجید احمد قریشی اور کاظم حسین بلوچ آئے۔ انہوں نے باہر سے ہی مسٹر بھٹو کو جگانے کی کوشش کی مگر وہ نہ جاگے۔ مسٹرقریشی نے جیل دفتر ٹیلی فون کر کے پوچھا کہ کیا کیا جائے۔ انہیں بتایا گیا کہ سیل کھول کر اندر جا کر مسٹر بھٹو کو جگائیں۔ مسٹر قریشی نے سیل کھول لر اندر بھٹو صاحب کو جگانے کی کوشش کی مگر انہوں نے کوئی جواب نہ دیا۔ مسٹر قریشی نے ٹیلی فون پر دفتر میں اطلاع دی کہ بھٹو صاحب کوئی جواب نہیں دے رہے، جیسے کہ وہ بے ہوش ہوں۔ مجھے اس خبر سے کافی فکر لاحق ہوئی کیونکہ میرے فرائض میں سے ایک فرض یہ بھی تھا کہ بھٹو صاحب کسی حالت میں بھی خودکشی نہ کریں۔

رات بارہ بجنے میں ایک منٹ کم میں جیل سپرنٹنڈنٹ، جیل ڈاکٹر اور مجسٹریٹ کو لے کر سکیورٹی وارڈ کے سیل میں داخل ہوا۔ بھٹو صاحب سیل میں گدے پر شمالاً جنوباً بائیں پہلو سے لیٹے ہوئے تھے اور ان کا منہ سیل کے دروازے کی طرف تھا۔

(جاری ہے)

تبصرے بند ہیں.