پی ڈیم کے کم ہوتے بخار میں ”درد ڈسکہ“ نے پھر انجیکشن لگادیا ہے مولانا فضل الرحمن نے اعلان کیا ہے ”کوئی روک سکے تو روک لے میں تو اپنے ساجن کے ….معاف کیجئے گا اچکزئی کے ساتھ چلارے“ عیدکے بعد اس لیے کہا کہ پاکستان میں تمام کام عیدسے پہلے یا عید کے بعد رکھے جاتے ہیں، پردیسی عید سے پہلے آتے ہیں شادیاں تو تمام عید سے مشروط ہیں میں نے آج تک کوئی ایسی شادی نہیں دیکھی جس میں عید سے پہلے یا عید کے بعد کی تاریخ نہ ہو ….
شاعری اور تصوف کے مضامین بھی مسافرت سے مربوط ہیں ” میں وی جھوک رانجھن دی جانا نال میرے کوئی چلے “چلی رے چلی رے میں تو دیس پیا کے چلی رے، لتا نے بھی کم نہیں گایا”جس پتھ پہ چلا اس پتھ پہ مجھے ساتھ تو آنے دے “مگریہ سارے راستے اختیار کی منزل کی طرف ہی جاتے ہیں جس پر سارے سرپٹ بے اختیار دوڑتے چلے جاتے ہیں، ہمارے ہاں اس منزل کو اسلام آبادکہتے ہیں جس سے زیادہ بورجگہ میں نے تو اپنی زندگی میں نہیں دیکھی ہم میلے ٹھیلے والے لاہوریئے اسلام آباد کی خشک بے رنگ غیر مطلق سردمہر فضا میں جاتے ہی گھبرا جاتے ہیں ”اختیار“ واقعی سرد مہر ہوتا ہے، بے اختیاری کی پالکی بھی جہاں جاکر جم جاتی ہے، اسلام آباد کی بااختیار دفتری فضاﺅں میں جو کمی ہے وہ راوی کے ”کنڈے“ بسے لاہور میں پوری ہوتی ہے بالآخردل نے یہ ہی نتیجہ نکالا تھا اور ہم نے اسلام آباد سے واپس دوڑ لگائی جوازیہ تھا کہ یہ شہر نہیں …. تو پھر شہر کیسے ہوتے ہیں سوال کیا گیا …. ہم نے کہا شہرتو دریاﺅں کے ”کنڈے“ ہوتے ہیں ہمیں یہاں سانس نہیں آتا….مگر جنہیں سانس جعلی اختیار میں آتا ہے وہ یہ بات کیا سمجھیں گے انہیں تو اس بات کی بھی سمجھ نہیں آئے گی کہ سردیوں کی راتوں میں گلیوں میں ”وسل “ بجاتے“ خالی جیب لڑکوں کو کیا لطف آتا ہے جو تمام زندگی رشوت سے بھرے بھڑولوں میں نہیں ملتا۔
عمران خان کے چاہنے والوں پر ہمیں اعتراض نہیں ان کے اپنے محبوب لیڈر کے لیے کوئی دلیل نہ ڈھونڈنے پر ہے اتنا عشق ہے تو دلیل بھی محنت کرکے ڈھونڈ لینی چاہئے گالیاں تو سب سے آسان اور سستا طریقہ ہے جنہیں سچ مچ عمران سے محبت ہے محنت کرکے ادب معاشرے فوک اور عقل سے دلیلیں دیا کریں اتنی بات تو خان صاحب بھی سمجھنے لگے ہیں انہیں بطور کھلاڑی ہمیشہ پسند کیا ہے مگر کل کو وہ گانے کی ضد کریں تو خان صاحباں انہیں محض خان لگانے سے اس کی اجازت نہیں دیں گے اچھا بندہ اور ہوتا ہے اور اچھا سرجن اور ہم کبھی بھی اپنا آپریشن محض نیکی کے نعرے لگانے والے ان کوالیفائیڈ ڈاکٹر سے نہیں کرائیں گے اعلیٰ سرجن بھلے وہ زبان کا برا ہو اسی کے سامنے زخم رکھیں گے فارسی کی کہاوت ہے ”ہرکسے راگارِ کاختند“ہرکوئی اپنے کام کے لیے بنا ہے ہم چونکہ کرپٹ قوم ہیں ہماری ونڈوخراب ہوچکی ہے کوئی سیدھی بات ہماری سمجھ میں نہیں آتی لہٰذا ہمیں ہمارے خدوخال کے مطابق اقتصادیات (موجودہ ہی صحیح تقسیم (ویروا) کرنے والا آڑھتی ٹائپ بندہ چاہے ہم نے انگریزی کیا کرنی ہے نواز شریف نے چٹ پڑھ لی تو کیا ہوا وہ ایک ایسی قوم کے نمائندہ ہیں جہاں سب ”بوٹی “ چلاکر پاس ہوتے ہیں رقعے ”بوٹیاں“ چٹیں تو ہرچھت ہرگلی میں چلتی ہیں ہم کوئی ٹرمپ ایسے ایڈیٹ سے ڈرتے ہیں اسے کون سے ہماری زبان آتی ہے یاوہ سیکھنا چاہتا ہے جتنی بھی کمیاں ہے ہمارے ہاں اعتماد کی کمی نہیں ہونی چاہیے یہ نہیں ہوسکتا کہ ہم تو ”چولیں“ ماریں اور ہمارا منتخب کردہ لیڈر”سینٹ“ ہو بس سسٹم کو سمجھنے والا ہونا چاہیے ویسے میں سوچتی ہوں کہ اگر میں ایک دو دن کے لیے پی ٹی آئی میں چلی جاﺅں تو خان صاحب کے حق میں باقاعدہ پندرہ بیس ٹھوس دلیلیں گھڑ سکتی ہوں مگر ان کے چاہنے والے بس گالیوں پر منتج ہیں….
میں نے گالی دینے والے سے زیادہ بے بس انسان کہیں نہیں دیکھا ….خالی ذہن خالی ہاتھ کنگلا اور بے کاردلیل سے عاری کاش خاں صاحب ایسی حمایت سے دستکش ہوجائیں جو زہر قاتل ہے ….دھبہ ہے….
نوشین افتخار کے سوالاکھ ووٹوں کے ”شگن“ نے شفافیت کے ویسے ہی بھرم کھول دیئے اب دھاندلی کہیں یا ”دھاندھلا“ (بقول خان صاحب)ٹرک پر چڑھنے کی ضرورت نہیں ہوتی چھکہ واپس منہ پر لگتا ہے ایک ہی کریڈٹ لینے والے شفافیت کے علمبرداروں کے رخ روشن پر …. جس طرح پوری قوم نے طے کرلیا ہے کہ ہم کم عمر ہیں اور سامنے والا عمر رسیدہ اس طرح خان صاحب نے ”وژن“ دیا کہ ہم شفاف ہیں صرف باقی سب ”کرپٹ“ کرپشن کا لفظ اتنا دہرایا کہ ہلکے ذہن والوں کی واحد دلیل بن گیا جب پوچھیں کون سی کرپشن تو دلیل سے دامن چھڑاتے بھاگ جاتے ہیں بس کرپشن…. بھئی پکڑلو….کمزور مقدمے کیوں بناتے ہو میرٹ سے ہٹ کر فیصلہ ساز تعیناتی کیوں کرتے ہو مقدمے نمٹاﺅ سزائیں دو اور ختم کرو…. اداسی بار بار لکھتے رہنے سے اداسی ”Creat“ نہیں ہوجاتی کرپشن کا راگ الاپنے سے پراپیگنڈہ کے تقاضے پورے ہوتے ہیں محض دلیل کے نہیں…. اور اب ” دردِڈسکہ“ شفاف لوگوں کے ”گٹوں“ میں درد بن کر بیٹھ جائے گا ہمیشہ کی دلیل بن کر۔
تبصرے بند ہیں.