اپوزیشن پارٹیاں یا کچھ مخصوص قسم کے تجزیہ کار جو بھی کہتے رہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستان نے گزشتہ کچھ عرصہ میں اپنی اقتصادی صورتحال کی بہتری بالخصوص شرح سود کو کم کرنے کے حوالے سے جو اقدامات اٹھائے ہیں اور اس سلسلہ میں جو نتائج حاصل کیے ہیں وہ قابل ستائش ہیں۔ ابھی بہت پرانی بات نہیں کہ جب پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے دوران معاشی معاملات میں تجربہ کاریوں، متعدد وزرا خزانہ کی تبدیلی اور بعد ازاں اپنی حکومت کی چھٹی ہوتے ہوئے دیکھ کر اقتصادی طور پر بارودی سرنگیں بچھائے جانے کے عمل کی وجہ سے ملک کی اقتصادی صوتحال اس قدر بگڑ چکی تھی کہ اس کے ڈیفالٹ کرجانے کی باتیں ہونے لگی تھیں، مہنگائی روزانہ کی بنیاد پر بڑھ رہی تھی اور غریب آدمی کا جینا مشکل ہو چکا تھا۔ اس تمام تر صورتحال سے ایک دم نکلنا تو خیر ناممکن سی بات تھی لیکن ایک بدترین صورتحال کا مقابلہ کرنا اور پھر تیزی سے بہتری کی جانب سفر کرنا بھی یقینا کوئی آسان بات نہ تھی۔
الحمد اللہ آج ہم جس مقام پر کھڑے ہیں وہاں پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر ہم نے معاشی استحکام حاصل نہیں کیا تو ہم کسی خطرے سے بھی دوچار نہیں ہیں۔ بلاشبہ اب تک کی حاصل ہونے والی کامیابیاں ایک مستحکم معاشی حکمت عملی اور مؤثر پالیسی سازی کا نتیجہ ہیں، جنہوں نے مالیاتی استحکام اور اقتصادی ترقی کے لیے راستہ ہموار کیا ہے،لیکن افسوس کہ ہمارے کچھ سیاستدان، میڈیا کا ایک حصہ اور بعض تجزیہ کار وہ روزانہ کی بنیاد پر بڑھتی ہوئی مہنگائی تو بھول چکے ہیںاور اب وہ موجودہ حکومت پر اسی پرانی مہنگائی کو کم نہ کرنے کے حوالہ سے تنقید کے نشتر برساتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔
ویسے تو شرح سود، شرح نمو اور افراط زر جیسے الفاط کا سر ا کسی بھی ملک کی اقتصادی صورتحال سے ہی جا کر ملتا ہے ۔ یعنی کسی ایک چیز کا درست ہونا دوسری پر خودبخود اثر انداز ہو جاتا ہے۔ ہمارے ہاں بھی مہنگائی کی شرح میں کمی نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو موقع فراہم کیا کہ وہ سود کی شرح کو کم کر سکے۔ اس کے علاوہ، حکومت کی جانب سے مالیاتی خسارے کو کنٹرول کرنے کے لیے سخت اقدامات کیے گئے، جن میں بجٹ خسارے کو کم کرنے اور غیر ضروری اخراجات کو محدود کرنے پر توجہ دی گئی۔ ان اقدامات نے معیشت پر دباؤ کو کم کیا اور سرمایہ کاری کے لیے زیادہ سازگار ماحول پیدا کیا۔
زرمبادلہ کے ذخائر میں بہتری بھی سود کی شرح میں کمی کی ایک وجہ بنی۔ برآمدات میں اضافہ، بیرونی سرمایہ کاری میں بہتری اور دوست ممالک سے مالی معاونت نے زرمبادلہ کے ذخائر کو مستحکم کیا۔ اس استحکام نے روپے کی قدر کو سہارا دیا اور مہنگائی کے دباؤ کو کم کیا، جس سے سود کی شرح کم کرنے میں مدد ملی۔ اس سلسلہ میںمالیاتی شعبے کی اصلاحات نے بھی اہم کردار ادا کیا۔ بینکوں کی کارکردگی کو بہتر بنانے، نادہندہ قرضوں کو کم کرنے اور ڈیجیٹل بینکاری کو فروغ دینے جیسے اقدامات نے معیشت کو جدید خطوط پر استوار کیا۔ ان اصلاحات نے مالیاتی نظام کی کارکردگی کو بڑھایا اور معیشت میں لیکویڈیٹی کو بہتر بنایا، جس نے سود کی شرح کو کم کرنے کے عمل کو تقویت دی۔
عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں کمی بھی ایک مثبت عنصر ثابت ہوئی۔ تیل کی قیمتوں میں کمی نے پاکستان کے درآمدی بل کو کم کیا اور تجارتی خسارے میں کمی کا سبب بنی، جس نے اقتصادی توازن کو بہتر بنایا۔ ان عوامل کے علاوہ، حکومت اور اسٹیٹ بینک نے قلیل المدتی اور طویل المدتی پالیسی اقدامات کا امتزاج استعمال کیا۔ مانیٹری پالیسی میں نرمی، کاروباری طبقے کے لیے قرضوں کی سہولت، اور معاشی ترقی کے منصوبوں پر توجہ جیسے اقدامات نے اس عمل میں اہم کردار ادا کیا۔ ان تمام عوامل نے مل کر ایک ایسا ماحول پیدا کیا جس میں سود کی شرح میں کمی ممکن ہو سکی اور اس سے معاشی ترقی کے امکانات میں اضافہ ہوا۔
شرح سود میں کمی کا ایک پہلو یہ ہے کہ لوگوں کی بچت پر کم منافع ملتا ہے۔ بظاہر یہ ایک منفی عمل لگ سکتا ہے، لیکن اس کا ایک مثبت پہلو یہ ہے کہ لوگ سرمایہ کاری کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ مثلاً، وہ جائیداد، اسٹاک مارکیٹ یا دیگر کاروباروں میں سرمایہ لگاتے ہیں۔ اس سرمایہ کاری کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ مجموعی معیشت میں پیسہ گردش کرتا ہے اور معیشت تیزی سے ترقی کرتی ہے۔ اسی طرح شرح سود میں کمی آنے سے کاروباری افراد اور تاجروں کو بھی فائدہ پہنچتا ہے۔ جب کاروباری قرضوں پر سود کی شرح کم ہو جاتی ہے تو کاروبار کے اخراجات میں کمی آتی ہے۔ اس کے نتیجے میں وہ زیادہ سرمایہ کاری کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں، نئی نوکریاں پیدا کرتے ہیں اور معاشی ترقی میں اضافہ ہوتا ہے۔ یہ سب عوامل بالواسطہ طور پر عام شہریوں کی زندگی پر مثبت اثر ڈالتے ہیں، کیونکہ روزگار کے مواقع بڑھتے ہیں اور معیشت میں استحکام پیدا ہوتا ہے۔ مزید براں، شرح سود میں کمی سے حکومت کو بھی فائدہ ہوتا ہے کیونکہ وہ کم لاگت پر قرضے حاصل کر سکتی ہے۔ اس سے حکومتی منصوبوں جیسے کہ انفراسٹرکچر کی تعمیر، تعلیم اور صحت کے شعبے میں سرمایہ کاری بڑھائی جا سکتی ہے۔ ان منصوبوں کا اثر براہ راست عام شہریوں کی زندگی پر پڑتا ہے اور وہ بہتر سہولیات سے مستفید ہوتے ہیں۔
شرح سود میں کمی کے عمومی فوائد میں سے ایک یہ بھی ہے کہ لوگوں کی خریداری کی قوت میں اضافہ ہوتا ہے۔ کم سود پر قرضے لینے کی سہولت کے ذریعے وہ ان ضروری اشیاء تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں جو پہلے ان کی پہنچ سے باہر تھیں۔ اس سے مجموعی طور پر زندگی کا معیار بہتر ہوتا ہے اور لوگوں کا اعتماد بحال ہوتا ہے۔مختصراً یہ کہ شرح سود میں کمی معیشت کے تمام پہلووں پر مثبت اثر ڈالتی ہے اور عام شہریوں کی زندگی میں خوشحالی کا باعث بنتی ہے۔شرح سود کسی بھی ملک کی معیشت کے لیے ایک اہم عنصر ہے، جو قرضوں، سرمایہ کاری اور مجموعی معاشی سرگرمیوں پر اثر انداز ہوتا ہے۔ جب مرکزی بینک شرح سود میں کمی کرتا ہے تو اس کے اثرات ہر سطح پر محسوس کیے جاتے ہیں، خاص طور پر عام شہریوں پر۔
موجودہ حکومت ، جسے اس صورتحال میں اسٹیبلشمنٹ کی بھی بھرپور سپورٹ حاصل ہے، کی جانب سے مالی استحکام اور اقتصادی ترقی کا عمل ابھی بہت ہی ابتدائی مراحل میں ہے۔ ہمیں امید رکھنا چاہیے کہ ہماری موجودہ اقتصادی پالیسی کومستقل مزاجی سے آگے بڑھنے کا موقع ملے گا اور مستقبل میں یہ کسی نئے تجربے یا مہم جوئی کا شکار نہ ہو گی، عوام کو مہنگائی اور بے روزگاری سے نجات ملے گی اور ہم جلد اس قابل ہو سکیں کہ آئی ایم ایف اور دیگر اداروں یا ممالک کے قرضوں سے چھٹکارا حاصل کر سکیں۔
تبصرے بند ہیں.