9مئی،فوجی عدالتوں سے سزاؤں کا آغاز

57

بتوں سے تجھ کو امیدیں خدا سے نومیدی
مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے
شاعرمشرق علامہ اقبال زندہ ہوتے تو آج کے حالات پر کچھ ایسے کہتے کہ
امریکاسے تجھ کو امیدیں، وطن سے نومیدی
مجھے بتا تو سہی اورحقیقی غلامی کیا ہے
اس کو المیہ کہہ لیں ۔ہماری کمزوری کہہ لیں یا طاقت سے مرعوب ہونے کی جبلت کہ ہم مختلف ادوارمیں عالمی طاقتوں کی مداخلت کو تسلیم بھی کرتے رہے ہیں، بلکہ اکثر تو تلاش بھی کرتے رہے ہیں لیکن یہ کام کرنے والوں نے کبھی ’’حقیقی آزادی ‘‘،’’ہم کوئی غلام ہیں ‘‘اور ’’ابسولیوٹلی ناٹ‘‘ جیسے نعرے نہیں لگائے تھے اور نہ ہی انہوں نے اپنے کارکنوں کو ایسے پاٹھ پڑھائے تھے کہ دنیا سے رابطے رکھنا اپنے ملک کے مفادکے لیے رشتے قائم کرنا غلامی ہوتی ہے۔یہ سب کچھ تو ہمیں اپنے عظیم کپتان نے بتایا تھا ۔وہی کپتان جو سب سے الگ تھا ۔جس کی سوچ وطن پرستی کی تھی جو ریاست مدینہ،روحانیت اور’’ اسلامی ٹچ‘‘ سے ہماری سوئی غیرت کو جگانے کے مشن پرتھا ۔اس کی پارٹی کا اس طرح امریکا کی طرف للچائی نظروں سے دیکھنا ۔ اس معاشرے سے اپنے لیے ایسے لوگوں کی حمایت جمع کرنا جو ہمارے اسلامی بنیادی شعائر سے ہی باہم متصام سوچ ہی نہیں بلکہ عملی زندگی بھی رکھتے ہوں بڑا ہی معیوب لگتا ہے ۔لیکن کیا کیا جائے کہ پی ٹی آئی کے ان بھائیوں کو بھی ڈونلڈ ٹرمپ اور رچرڈ گرینیل جیسے کرداروں سے امیدیں ہیں جو فقط اس وجہ سے عمران خان کے پیروکار بن گئے تھے کہ وہ صرف پاکستان کا سوچتا ہے۔وہ ہمیں امریکا سے آزادی دلانے کی بات کرتا ہے۔
عمران خان کو امید تھی کہ وہ جیل جائیں گے تو ان کے کارکن ان کو زیادہ دیررہنے نہیں دیں گے ۔ اس لیے وہ زمینی حالات سے بہت اوپراٹھ کر سب کچھ تہس نہس کرنے کے مشن پر نکل کھڑے ہوئے تھے ۔آج ڈیڑھ سال بعد ان کی سوچ کا دھارا یکسر تبدیل ہے۔ان کو یہ بھی معلوم ہے کہ ان کے کہنے پر نہ کوئی سول نافرمانی چلے گی اور نہ ہی کوئی آخری کارڈ ان کی گلو خلاصی کرواسکتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ عمران خان کوئی ’’نیلسن منڈیلا‘‘ کے نقش قدم پر چل رہے ہیں یاچلنا چاہتے ہیں یا کوئی اصولی موقف رکھنے والی شخصیت ہیں ایسا بالکل نہیں ہے کہ وہ کوئی ڈیل چاہتے نہیں ہیں یا وہ کبھی کریں گے نہیں ۔ یہ جو باہر ان کے سوشل میڈیا ئی جنگجو کہتے ہیں نا کہ وہ ہزار سال جیل میں گزار لیں گے لیکن ڈیل نہیں کریں گے وہ سب جھوٹ کہتے ہیں ۔حقیقت اس سے کہیں مختلف ہے۔بلکہ اب تو یہ احساس گہراہورہا ہے کہ وہ سوشل میڈیا جو پی ٹی آئی اور عمران خان کی طاقت تھا اب ان کی کمزوری بن گیا ہے۔اس کو اب کوئی اور نہیں بلکہ خود عمران خان قابو کریں گے کیونکہ جب کوئی تخلیق فائدے کی بجائے نقصان کا باعث بن جائے تو اس کو ’’ڈمپ‘‘ کردینا ہی عقل کا تقاضا بن جاتاہے۔

عمران خان نے مذاکرات کے لیے آج تک کی ڈیڈلائن دے رکھی ہے۔آج کا دن بھی گزرجائے گا لیکن مذاکرات ہوتے فی الحال دکھائی نہیں دے رہے کہ حکومت اب خود کو طاقتورمحسوس کررہی ہے اور مذاکرات کو غیرضروری مشق سمجھ بیٹھی ہے کیونکہ وہ جانتی ہے کہ مذاکرات اگر عمران خان کی رہائی کے لیے ہوں گے تو وہ کہاں جائیں گے ؟اورعمران خان کو رہا کیونکر کریں گے ؟اب آج کا دن بھی بغیر مذاکرات کے گزرتاہے تو عمران خان کو اپنے کہے کے مطابق کل سے سول نافرمانی کی تحریک شروع کرنی ہے ۔عمران خان جانتے ہیں کہ سول نافرمانی جیسی بے سروپا مشق بھی بے کار جانی ہے لیکن وہ کیا کریں خود کو اور پارٹی کو کہیں مصروف تو رکھنا ہے ۔کسی بھی انسان ،گروہ ،پارٹی یا تنظیم کا سب سے بڑا المیہ یہ ہوتا ہے کہ اس کی دھمکیوں یا اقدامات سے سامنے والے کا خوف ختم ہوجائے اسی لیے محاورہ ہے کہ ’’مارنے سے ڈرانازیادہ فائدہ مند ہوتاہے‘‘لیکن جب کسی کا ڈر ہی نکل جائے توکہانی ختم ہوجاتی ہے اور اس وقت حکومت کا ڈر جاتا رہا ہے۔پی ٹی آئی کی ماردھاڑ پالیسی نے حکومت کو ان کو طاقت سے روکنے کا راستہ دیدیا ہے اور جس طرح تین چار وارداتیں پی ٹی آئی کی ناکام گئی ہیں اس سے حکومت کا ’’جھاکا‘‘ مکمل کھل گیا ہے۔انہوں نے پی ٹی آئی نامی اس سونامی کی گہرائی ناپ لی ہوئی ہے اس لیے عمران خان صاحب نے فوج سے ہی بات کرنے والی سوچ کو بدل کر یکطرفہ پانچ رکنی کمیٹی بنادی ہے لیکن وطنی تاریخ گواہ ہے کہ ایسی یکطرفہ کمیٹیوں کا فائدہ کوئی نہیں ہوتا ۔کمیٹی اس وقت بنائی جاتی ہے جب دونوں گھر آگے بڑھنے پر راضی ہوجائیں لیکن عمران خان نے مذاکرات کے پیشگی ماحول سے پہلے ہی اپنی طرف سے ایک کمیٹی بناکر میدان میں اتاردی جس کوحکومت کسی خاطر میں نہیںلائی۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے الیکشن جیتے تو پی ٹی آئی کو امید ہوگئی کہ وہ عمران خان کو جیل سے نکلوا لیں گے وہ گرد بیٹھنے لگی توٹرمپ نے جس ’’رچرڈگرینیل‘‘ کو ’’گشتی سفیر‘‘ لگانے کا فیصلہ کیا اس نے عمران خان کی رہائی کی پوسٹ سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’’ایکس‘‘ پر کردی تو پی ٹی آئی پھر خوشی سے نہال ہوگئی ۔رچرڈ گرینیل کے ذاتی کردار کا ’’کچاچٹھا‘‘ کھل کرسربازار آیا تو پی ٹی آئی کی ان سے محبت کچھ کم ہوئی ہے لیکن رچرڈ بھائی صاحب کی عمران خان صاحب سے عقیدت کم ہونے کا نام نہیں لے رہی ۔سوشل میڈیا کے شغل میلے کے لیے ایسی باتیں ٹھیک ہوسکتی ہیں لیکن حقیقی معنوں میں یہ سب کچھ عمران خان کے لیے کسی خاص فائدے کا سبب نہیں ہے۔عمران خان صاحب کی رہائی نومئی کی معافی سے مشروط ہے۔وہ نومئی کو قبول کرکے معافی نہیں مانگیں گے تو ان کی مشکلات نہ امریکا کم کرواسکتا ہے منہ کوئی رچرڈ اور نہ کوئی اسرائیل نوازسینیٹر۔اب کل احتساب عدالت نے 190ملین پاؤنڈ کیس کا فیصلہ سنانے کی تاریخ دے رکھی ہے،اگر کل فیصلہ آتا ہے تو مشکلات بڑھ سکتی ہیں۔

عمران خان صاحب اس ملک کے مقبول رہنما ہیں ۔ان کو اس طرح امریکا یا کسی اور ملک کی طرف دیکھ کر خود اور اپنے کارکنوں کو شرمسار نہیں کرنا چاہئے۔ مسئلہ نومئی ہے تو فوجی عدالتوں نے نومئی کے مجرموں کو سزائیں سنانا شروع کردی ہیں۔کل 25مجرموں کو سزاہوگئی ہے۔اس میں بھی عمران خان صاحب کے لیے سبق اور تنبیہ ہے کہ سانحہ نومئی ایک حقیقت ہے عمران خان اس کو قبول کریں،معافی مانگیں اور آگے بڑھیں۔!ورنہ(خدانخواستہ) اس ملک کے ایٹمی پروگرام پر پابندیوں سمیت ہر خانہ خرابی کے ذمہ دارجناب ہی سمجھے جائیں گے۔

تبصرے بند ہیں.