کچھ حقائق اور پھر نتائج ۔ڈونلڈ ٹرمپ نے جیسے ہی رچرڈ گارنیل کو نامزد کیا تو انھوں نے ایک ٹویٹ کیا کہ عمران خان کو رہا کریں جس کے بعد جیو نیوز نے ان کے ٹویٹ کو ایک اور انداز میں پیش کیا جس کے بعد انھوں نے اپنے ٹویٹ کو ری ٹویٹ کیا ۔ اس کے بعد بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بیگم کے خلاف ایک انتہائی اہم کیس 190 ملین پاؤنڈ کی پروسیڈنگ مکمل ہو چکی ہے اور احتساب عدالت کے جج جاوید ناصر رانا نے فیصلہ محفوظ کر لیا ہے جو 23 دسمبر کو سنایا جائے گا ۔ تیسرا تحریک انصاف بانی پی ٹی آئی کی ہدایت پر سول نا فرمانی تحریک کی بجائے مذاکرات کے بیانیہ پر اب آ گئی ہے اور چوتھا مولانا فضل الرحمٰن کامدارس بل پر حکومت سے روٹھنا پروگرام تو ان تمام عوامل کے بعد پاکستان کے سیاسی حالات میں کیا تبدیلی آنے والی ہے اور اس کے علاوہ اسد قیصر صاحب نے کہا ہے کہ وہ بانی پی ٹی آئی کے مقدمہ کو عالمی عدالت میں لے کر جائیں گے ۔ ان تمام عوامل کو دیکھتے ہوئے ایسے لگتا ہے کہ جیسے بہت جلد تحریک انصاف اور بانی تحریک انصاف کے لئے سب کچھ ہرا ہرا ہونے کا وقت بس آیا چاہتا ہے لیکن ایسا نہیں ہے جہاں تک رچرڈ گارنیل کے ٹویٹس کی بات ہے تو پاکستان پہلے بھی بہت سے معاملات میں امریکن دبائو کو مسترد کر چکا ہے جن میں سلالہ چیک پوسٹ کے واقعہ کے بعد نیٹو سپلائی کی چھ ماہ تک بندش اور ایران گیس پائپ لائن جیسے معاملات ہیں لیکن میرے خیال میں سب سے بہتر جواب یہی ہوگا کہ پائین اپنا عمران لے جاؤ تے ساڈی عافیہ دے جاؤ لیکن سب سے اہم معاملہ شکیل آفریدی کا ہے کہ جس کے لئے امریکہ نے پاکستان پر کافی دبائو ڈالا لیکن پاکستان اس دبائو کو خاطر میں نہیں لایا ۔ اس کے بعد جہاں تک اسد قیصر کی بات ہے تو اگر بانی پی ٹی آئی کے کیس کو عالمی عدالت انصاف میں لے جانا ممکن ہوتا تو وہ کب کا لے جا چکے ہوتے ۔ اس کے علاوہ مولانا صاحب کو منا لیا جائے گا کیونکہ اس وقت چومکھی لڑائی حکومت کے مفاد میں نہیں ۔ اب بات کرتے ہیں جو اس وقت سب سے اہم معاملہ ہے اور جو مستقبل کی سیاست کا رخ متعین کرے گا اور وہ ہے 190 ملین پاؤنڈ کیس کا فیصلہ اس کیس میں اگر بری کر دیا جاتا ہے تو اس سے بانی پی ٹی آئی اور تحریک انصاف کے متعلق ریاست کے موڈ کا پتا چلے گا لیکن ایک سال تک کیس چلنے کے دوران پراسکیوشن نے 35 گواہ پیش کئے جبکہ بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بیگم نے اپنے حق میں کوئی گواہ پیش نہیں کیا جس کے بعد احتساب عدالت کی سطح پر سزا کے امکانات کافی زیادہ ہیں ہاں یہ عین ممکن ہے کہ ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ سے سزا میں کمی یا بالکل ختم ہو جائے ۔
سیاست کے حوالے سے ہی کچھ احوال چیف جسٹس صاحب کے دوروں کا ۔ مجھے بڑی خوش گوار حیرت ہوئی کہ جب میڈیا میں خبریں آئیں کہ چیف صاحب بلوچستان اور اندرون سندھ مختلف بار ایسوسی ایشنز کا دورہ کر رہے ہیں۔ آپ یقیناً سوچ رہے ہوں گے کہ اس میں حیرت کی کیا بات ہے یہ تو سابقہ تمام چیف جسٹس صاحبان بھی کیا کرتے تھے تو عرض ہے کہ بالکل کیا کرتے تھے لیکن وہ ہمیشہ کراچی لاہور اور اسلام آباد جیسی بڑی بار ایسوسی ایشنز کے دورے کرتے تھے کبھی چھوٹے شہروں میں جا کر وہاں کی بار ایسوسی ایشنز کے وزٹ نہیںکرتے تھے ۔ کیا کبھی آپ نے سنا کہ گھوٹکی جیسے شہر کی بار ایسوسی ایشن سے کسی چیف جسٹس نے خطاب کیا ہو لیکن اس سے بھی زیادہ خوشی اس بات کی ہوئی کہ کم از کم میری یادداشت میں نہیں ہے کہ کسی چیف جسٹس نے لوئر جوڈیشری کی طرف بھی توجہ دی ہو ۔ یہ کیوں ہے اس لئے کہ ان اقدامات سے لگتا ہے کہ ان کے کوئی سیاسی عزائم نہیں ہیں ورنہ ماضی میں ہم نے دیکھا ہے کہ وہ چیف جسٹس صاحبان کہ جن کے سیاسی عزائم تھے انھوں نے سستی شہرت کے حصول کے لئے ایسی ایسی جگہوں کے وزٹ کئے کہ جو ان کی حدود میں آتے ہی نہیں تھے کبھی ہسپتالوں میں جا کر وہاں کے ایم ایس کو بلوا کر ایسے ہی کسی معاملے پر جھاڑ پلا دینا کبھی کسی مارکیٹ میں جانا اور وہاں بندے اکھٹے کر کے عوامی مسائل پر نمبر ٹانکنا ۔ ہراس جگہ گئے جو ان کے دائرہ اختیار میں آتی ہی نہیں تھی لیکن جو ان کی حدود میں آتی تھی اور ان کے فرائض منصبی میں شامل تھی یعنی لوئر جوڈیشری میں جا کر دیکھیں کہ وہاں کے کیا مسائل ہیں اور لاکھوں کی تعداد میں مقدمات ہیں عوام انصاف کے لئے رل رہے ہیں لیکن موجودہ چیف جسٹس صاحب کی مہربانی کہ وہ لوئر جوڈیشری کے بھی دورے کر رہے ہیں اور انھیں ہر جگہ بڑا ویلکم کیا جا رہا ہے ۔ اگر چیف جسٹس صاحب کے دوروں سے لوئر جوڈیشری میں بہتری آتی ہے اور عوام کو جن مسائل کا سامنا ہے اگر ان میں کمی آتی ہے تو یہ بہت بڑی کامیابی ہو گی۔ اس صورت حال میں ان لوگوں کا خیال آ رہا ہے کہ جو 26 ویں آئینی ترمیم سے پہلے اور بعد میں بڑھکیں مار رہے تھے کہ اگر جسٹس منصور کو چیف جسٹس نہ بنایا گیا تو ہم تحریک چلائیں گے اب وہ سب کہاں گئے شکر کریں کہ یحییٰ خان آفریدی کی شکل میں ایک ایسا چیف جسٹس ملا ہے جس کے کوئی سیاسی عزائم نہیں ہیں اور وہ دکھاوے کے لئے نہیں بلکہ حقیقت میں عدلیہ کی بہتری کے لئے کام کر رہے ہیں ۔
آخر میں ایک اور منفی پروپیگنڈا کہ اس حکومت کی تو ساکھ ہی نہیں ہے تو اس حکومت کی پاس کردہ 26 ویں ترمیم کے بعد کیا اس پر عمل نہیں ہو رہا ۔ کیا اس حکومت نے کئی آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں کو ختم نہیں کیا۔ کیا اس کے دور میں سٹاک ایکسچینج نے ایک لاکھ 16 ہزار کا ہندسہ عبور نہیں کیا۔ کیا اس کے دور میں فیٹف سے بین ختم نہیں ہوا ۔ کیا پاکستان کو جی ایس پی پلس کا سٹیٹس نہیں ملا ۔ کیا یورپ میں پی آئی اے کا فلائٹ آپریشن بحال نہیں ہوا ۔اگر یہ سب ہوا ہے تو پھر مان لیں کہ حکومت کی اتھارٹی ہے۔
تبصرے بند ہیں.