چلئے، اْس سے ملتے ہیں جسے شاعرِ مغرب کے لقب سے ملقب کیا جا رہا ہے۔ مغربی دنیا میں رہنے والے مشرق کے باسیوں کا ایک شاعر جس کا ’’کمال یہ ہے‘‘ کہ اْسکے اشعار مشرق و مغرب دونوں کے ہاں یکساں مقبول اوراْسکی زندگی میں ہی زبان زدِ عام ہیں۔
شعر اور شعور کا تعلق باہم ایسا گہرا ہے کہ شعر اگر شعور سے خالی ہو اور اپنے اندر کوئی مقصدیت نہ رکھتا ہو تو محض لفَّاظی رہ جاتی ہے۔
بیسویں صدی کا ایک معروف مصنف آرتھر برِسبین وہ امریکی صحافی تھا کہ جس کے کالم کو ایک مؤقر جریدے دی ٹائمز کے مطابق اوسطاً بیس ملین افراد روزانہ کی بنیاد پر پڑھتے تھے۔ 1911ء میں صحافت اور تشہیر کے عنوان سے منعقدہ ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوے آرتْھر نے کہا تھا کہ ایک تصویر اپنے اندر ایک ہزار الفاظ رکھتی ہے اور وہ بات جسے کہنے کیلئے کئی سو الفاظ درکار ہوں وہی بات صرف ایک تصویر کے ذریعے بیان ہو جاتی ہے۔ تاہم میرے نزدیک شعر وہ ذریعہ ہے جو اپنے اندر ایک زمانے کی تاریخ سمو دیتا ہے اور صرف دو لائینوں میں ہی پوری کہانی بیان کر جاتا ہے۔ لیکن شرط یہ ہے کہ کہنے والا ایسی صلاحیت بھی رکھتا ہو۔
مبارک صدیقی کہ جسے ’’ شاعرِ مغرب‘‘ کے لقب سے ملقّب کیا جارہا ہے ، ایسی ہی صلاحیت کا مالک شاعر ہے۔
پچھلے دنوں یہاں لندن میں اْن کے اعزاز میں عالمی اْردو فورم کے تحت ایک یادگار ادبی شام کا اہتمام کیا گیا جسے سْننے کیلئے برطانیہ کے طول و عرض سیکڑوں کی تعداد میں لوگ آئے ہوے تھے ، مجھے بھی اس تقریب میں اْنہیں سْننے کا موقع ملا۔
اس تقریب کے روحِ رواں عالمی اْردو فورم کے بانی چیئرمین جناب ڈاکٹر سر افتخارایاز تھے جنہیں حال ہی میں اْنکی سماجی خدمات کے عوض’’سر‘‘ کے خطاب سے نوازا گیا ہے۔
ڈاکٹر صاحب کا انداز بھی کمال ہے۔ حاضرینِ محفل سے مخاطب ہوتے ہوے فرمایا کہ اب وہ گھڑی آن پہنچی ہے کہ مبارک صدیقی کو آپ کے حوالے کردیا جائے اور پھر محفل میں موجود ہر شخص اپنے محبوب شاعر کو سْننے کیلئے ہمہ تن گوش ہوگیا۔
مبارک صدیقی مزاح اور سنجیدہ کلام دونوں میدانوں کا شہسوار ہے۔ اْنکے اشعاراپنے اندر نہ صرف ایک زمانے کی تاریخ رکھتے ہیں بلکہ تربیتی رنگ بھی ، یہ شعر ملاحظہ ہو
لوگ سب ملکر اگر دیپ جلانے لگ جائیں
اے سیاہ رات ترے ہوش ٹھکانے لگ جائیں
اْنکے مزاح میں بھی ایک مثبت پیغام پوشیدہ رہتا ہے۔ یورپ میں رہنے والے ، پاکستان کی سڑکوں اور وہاں کی بے ہنگم ٹریفک کہ جہاں ہمہ وقت کسی حادثے کا خدشہ لاحق رہتا ہے اور زیرِ لب یا اللہ خیر کا ورد۔ کو ذہن میں رکھتے ہوے اِس شعر کو ملاحظہ فرمائیں۔
یہ بھی سڑکیں ہیں کوئی یورپ کی
وقت گویا ہوا میں کٹتا ہے
اِن سے اچھی ہے اپنی جی ٹی روڈ
وقت ذکرِ خدا میں کٹتا ہے
دورانِ مشاعرہ جبکہ سامعین پوری طرح سے ‘’’شاعرِمغرب‘‘ کی ’’گرفت‘‘ میں تھے ، اچانک حال کے عقبی دروازے سے معروف بزرگ سماجی رہنما اور ’’مہمانِ خصوصی‘‘ محترم رفیق صاحب داخل ہوئے، تو ہال میں موجود تمام سامعین اْنکے احترام میں کھڑے ہو گئے۔ وَتْعِزّْ مَن تَشَاء ْ مبارک صدیقی کا کلام چونکہ مقصدیت سے خالی نہیں ہوتا، اسی لئے احمد فراز جیسے نابغہ روزگار شاعر نے اْنہیں محبت اور مقصدیت کا شاعر قرار دیا۔ عصرِ حاضر کے معروف ادیب ، کالم نگار اور مصنف عطا ء الحق قاسمی نے مبارک صدیقی کی مشہورِ زمانہ غزل’’ کمال یہ ہے‘‘ (کہ جس نے مبارک صدیقی کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا) کو اپنی پسندیدہ ترین غزلوں میں سے ایک قرار دیا۔
مبارک صدیقی کی اِس غزل کا کمال یہ ہے کہ عام فہم میں، اور آسان سے لفظوں میں محبت کا پیغام انتہائی مؤثر انداز میں عام کیا۔ حضرت علی کرّم اللہ وجہہ کا فرمان ہے کہ الفاظ حکومت کرتے ہیں اور الفاظ کو حکمرانی کی خلعت (باقی صفحہ4 بقیہ نمبر 3)
پہنانے کا فن مبارک صدیقی کو خوب آتا ہے۔ کالم کی تنگ دامنی اجازت نہیں دیتی کہ پوری غزل لکھ ڈالوں۔ ہر شعر اِس قابل ہے کہ شرح لکھی جائے ، صرف اِس شعر کو دیکھئے کہ کمال انداز میں خدمتِ انسانیت کا درس دیا ہے۔
کسی کی رہ سے خدا کی خاطر اٹھا کے کانٹے ہٹا کے پتھر
پھر اس کے آگے نگاہ اپنی جھکا کے رکھنا۔ کمال یہ ہے
تبصرے بند ہیں.