بھارت کو برصغیر میں پاکستان کاعلیحدہ وجود گزشتہ ستر سال کے بعد بھی پسند نہیں آیا اسے جب بھی موقع ملتا ہے پاکستان کے نقشے پر چھری سے وا ر کرنے سے با ز نہیںآتا جب بھی پاکستان سے اس نے سامنے سے مقابلہ کیا ہے یا نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے بھارت کو بھرپور شکست اور منہ کی کھانا پڑی ۔ 1965ء میں بھارت نے پاکستان کی بین الاقوامی سرحدوں کو بلڈوز کیا، اگرچہ بھارت یہ جنگ جیت نہ سکا 65ء کی جنگ نے دراصل بھارت کو مشرقی پاکستان پر یلغار کرنے کیلئے اکسایا۔ اس نے اپنی شکست کا بدلہ لینے کیلئے بنگالی آبادی کو پاکستان کے خلاف بھڑکایا، مکتی باہنی بناکر اسے کولکتہ کے دہشت گرد کیمپوں میں تربیت دی اور مشرقی پاکستان کی اکثریتی جماعت عوامی لیگ کے لوگو ں کے ذہنوں میں اپنے ملک کیخلاف پراپیگنڈہ بھر دیا۔ اس صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارت نے سقوطِ ڈھاکہ کا کھلواڑ کیا ، سقو ط مشرقی پاکستان ہماری شکست نہیں تھی وہ ایک سازش تھی۔ بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی نے زہر بھرے لہجے میں اعلان کیا کہ ہم نے دوقومی نظرئیے کو آج خلیجِ بنگال میں ڈبودیا ہے۔ مگر اندراگاندھی کی یہ بہت بڑی غلط فہمی تھی درحقیقت کشمیر کا مسئلہ دو قومی نظرئیے کا منطقی نتیجہ ہے۔ جسے بھارت کے لئے نگلنا بھی ناممکن اور اگلنا بھی مشکل ہوچکا ہے، اسلاموفوبیا کی عالمی لہر اورمسلمانوں کیخلاف عالمی طاقتوں کی جارحیت کی وجہ سے عالمی سطح پر دو قومی نظریہ اپنا رنگ دکھارہا ہے۔ بھارت نے جو پاکستان اور پاکستانی انتطامیہ بشمول عسکری طاقت کے خلاف جو زہر مشرقی پاکستان کے عوام کے ذہنوںمیںبھرا بد قسمتی سے تاحال ہمارے کچھ سیاست دان وہ ہی بیانیہ دہرا رہے ہیں اور ہم نہائت ہی کمزور طریقوںسے اسے روکنے کی کوشش کررہے ہیں جس وجہ سے ملک دشمن سوشل میڈیا کے ذریعے اس پاک وطن کو جہنم سے کم نہیں بتا رہے غیر ممالک بیٹھے ان کے سہولت کار پاکستان میںبیٹھے اپنے ایجنٹوں کو مالی، اخلاقی اور کسی حد تک سفارتی مددبھی فراہم کر رہے ہیں ٹھیک 43 سال بعد اسی سولہ دسمبر کو پھر بھارت کے پالے ہوئے دہشت گردوںنے 16 دسمبر کو پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں دہشت گردوں نے 16 دسمبر 2014ء کو ایک قیامت ِ صغریٰ برپا کردی۔ پھولوں جیسے 150معصوم بچوں کے سینے چھلنی چھلنی کر دئیے گئے۔ سینکڑوں زخمی ہو گئے، دہشت گرد افغان سرزمین سے حملہ آور ہوئے تھے، اس کی ذمہ داری تحریک طالبان پاکستان نے نہائت بے شرمی سے لی، پاکستان اور افغان سرحد پر بھارت نے اپنے قونصل خانے قائم کررکھے تھے۔ یہ قونصل خانے دراصل بھارتی دہشت گرد تنظیم ’’را‘‘ کے زیر انتظام چلنے والے فوجی اڈے تھے، بھارت پاکستان کے خلاف مکتی باہنی کی طرح اب نام نہاد بلوچستان لیبریشن آرمی اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی مدد حاصل ہورہی ہے۔ بھارت انکی مالی مدد کرتا ہے اور ان سے پڑوس میںریشہ دوانیاںکراتا ہے۔ وہ باقی ماندہ پاکستان کے خلاف استعمال کر رہا ہے۔ بدقسمتی سے ہماری بعض سیاسی و مذہبی جماعتیں ان دہشت گردوں کے ساتھ اسلامی بھائی چارے کے تحت نرم رویہ اختیارکرنے کا وعظ دیتی ہیں۔ بھارت اس فعل کو بھی غلط سمجھتا ہے چونکہ وہ سمجھتاہے کہ اگر مذاکرات کامیاب ہوگئے تو سارا بنابنایا کھیل بگڑ جائے گا۔ اس نے اے پی ایس میںایک گھنائونی واردات کی منصوبہ بندی کی، سقوطِ ڈھاکہ او ر سقوطِ اے پی ایس کے پس پردہ کارفرما دشمن قوتیں پاکستان کیلئے نت نئے خطرات پیدا کررہی ہیں۔ تاہم پاکستانی قوم کے لازوال جذبوں کے پیش ِ نظر مایوس ہونے کی قطعی ضرورت نہیں۔ پاکستان کی سرفروش افواج ملکی سلامتی و آزادی کے تحفظ کو یقینی بنانے کا عہد کئے ہوئے ہیں۔ پاکستانی قوم نے 80 ہزار جانوں کی قربانی دی ہے، قومی معیشت کو ڈیڑھ سو ارب روپے کا دھچکا لگا ہے، لیکن 25کروڑ عوام کے حوصلے جوان ہیں۔ ملک کی مسلح افواج تن من دھن کی قربانی دینے کے جذبوں سے سرشار ہیں۔ اللہ کے فضل سے ان توانا جذبوں کو کوئی قوت زیر نہیں کر سکتی۔ تاہم ایک سیاسی جماعت نے وہ مکدر کر رکھی ہے اس جماعت کی اعلیٰ قیادت سے لیکر نچلے درجے تک ہر رکن وہ زبان استعمال کرتا ہے جو نہ ہی پختونخواہ، سندھو دیش اور بلوچستان کے علیحدگی کے خواہش مند بھی استعمال نہیں کرتے۔ 16 دسمبر کا دن ہمیشہ ہمیں خون کے آنسو رلاتا رہے گا۔ اس سال شائد ہم سفارتی سازش کا شکار ہیںجتنی شدت سے بیانات اور میڈیا میں پاکستان کے اکابرین اے پی ایس کے بچوں کے قتل عام پر جتنا بولے ہیں اس میں بنگلہ دیش بننے کا ذکر اور قربانیوںکا ذکر نظر نہیںآیا، شائد اسلئے کہ ہم مشرقی پاکستان کی علیحدگی کو دل سے تسلیم کر چکے ہیں۔ ہمارے ملک پر دشمنوں نے یلغار کر رکھی ہے اور پھر اسکے محافظوں کے خلاف مکروہ پراپیگنڈا عروج پر ہے۔ صوبائیت اور لسانیت کا زہر نہایت مکاری سے سادہ لوح عوام کے ذہنوں میں بھرا جا رہا ہے۔ ایک صوبے کے وزیراعلیٰ تو مشرقی پاکستان کے باغیوں سے زیادہ زہریلی باتیں کرکے اسلحہ اٹھا کر مقابلہ کر نے اسلام آبادآنے کی بار بار دھمکی دیتے ہیں سانحہ مشرقی پاکستان اور اسی طرح 2014ء آرمی سکول پشاور میں معصوم طالبعلم بچوں کی وحشی درندوں کا ہاتھوں شہادت کا دلخراش سانحہ بھی ہمیں ہمیشہ خون کے آنسو رلاتا رہے گا اور کبھی نہیں بھولے گا۔جہاں پھول جیسے بچوں کو بیدردی سے مسلا گیا۔مگر ہم شتر مرغ کی طرح گردن دبائے دنیا سے بے خبر اپنی عیاشیوں میںمگن ہیں اسمبلیوں میں بیٹھے ہمارے لیڈران جو قوم کو کوئی بہتر خبر دینے سے قاصر ہیں انہیں تنخواہین اور مراعات زیادہ سے زیادہ کرانے میں دلچسپی ہے ۔یا خدا نصف صدی سے زیادہ گزر گئی مگر ہم نے کوئی سبق نہیںسیکھا، معاف کرنا۔ بیانات داغنا ہی ہم ملک کی خدمت سمجھتے ہیں۔
تبصرے بند ہیں.