سردیوں کا موسم اپنے ساتھ سکون بخش ہوائیں اور خوبصورت مناظر لے کر آتا ہے، لیکن یہ موسم ہر کسی کے لیے آسان نہیں ہوتا۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں، جہاں مہنگائی، بے روزگاری اور غربت پہلے ہی عوام کی زندگیوں پر بھاری ہیں، سردیوں کا بوجھ ان مشکلات میں مزید اضافہ کر دیتا ہے۔ سردیوں میں نہ صرف گرم کپڑوں اور خوراک کی ضروریات بڑھ جاتی ہیں بلکہ ایندھن اور توانائی کے مسائل بھی سنگین ہو جاتے ہیں، جو غریب اور متوسط طبقے کے لیے مزید مشکلات پیدا کرتے ہیں۔ اشیائے خورونوش، گرم کپڑوں اور ایندھن کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ عوام کی زندگی اجیرن بنا دیتا ہے۔ گیس کی قلت اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے باعث لوگ متبادل ذرائع، جیسے لکڑی، کوئلہ، اور مٹی کا تیل استعمال کرنے پر مجبور ہوتے ہیں، جو مہنگے ہونے کے ساتھ ساتھ صحت کے لیے بھی نقصان دہ ہیں۔ گرم کپڑوں اور کمبلوں کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے غریب طبقہ سردی سے بچاؤ کے لیے مناسب انتظامات نہیں کر پاتا، جس کے باعث بیماریاں عام ہو جاتی ہیں۔
سردیوں میں توانائی کا بحران بھی سنگین ہو جاتا ہے۔ گیس کی لوڈشیڈنگ سے گھریلو امور متاثر ہوتے ہیں، اور گھروں کو گرم رکھنے کے لیے مہنگے متبادل ذرائع کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ ایندھن کی قلت نہ صرف گھروں پر اثر ڈالتی ہے بلکہ چھوٹے کاروبار اور کارخانے بھی متاثر ہوتے ہیں، جس سے بے روزگاری میں اضافہ ہوتا ہے۔ دیہی علاقوں میں یہ مسائل اور بھی زیادہ شدید ہیں،جہاں گیس اور بجلی کی سہولتیں ویسے ہی محدود ہیں۔ ایسے حالات میں غریب طبقہ سب سے زیادہ متاثر ہوتا ہے۔ وہ لوگ جو دن بھر محنت مزدوری کرتے ہیں، انہیں نہ صرف اپنے بچوں کو سردی سے بچانے کے لیے جدوجہد کرنی پڑتی ہے بلکہ اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اکثر ان کے پاس نہ تو گرم کپڑے ہوتے ہیں اور نہ ہی مناسب رہائش۔ کچی آبادیوں میں رہنے والے افراد کے لیے یہ موسم سخت آزمائش کا باعث بنتا ہے، جہاں نہ چھت مضبوط ہوتی ہے اور نہ ہی سردی سے بچاؤ کے دیگر وسائل موجود ہوتے ہیں۔
سرد موسم کے ساتھ صحت کے مسائل بھی بڑھ جاتے ہیں۔ مناسب گرم کپڑوں اور خوراک کی عدم دستیابی کی وجہ سے لوگ نمونیا، زکام اور دیگر موسمی بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ خاص طور پر بچے اور بوڑھے افراد ان مسائل سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ طبی سہولیات کی کمی اور مہنگے علاج کے باعث ان بیماریوں کا بروقت علاج ممکن نہیں ہو پاتا، جس سے صورتحال مزید بگڑ جاتی ہے۔ پاکستان میں حکومت کی جانب سے سردیوں میں عوام کو سہولت فراہم کرنے کے اقدامات ناکافی ہیں۔ گیس کی قلت، بجلی کی قیمتوں میں اضافہ، اور امدادی اسکیموں کی ناقص حکمت عملی ان مسائل کو مزید پیچیدہ بنا دیتی ہے۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام اور دیگر فلاحی منصوبے زیادہ تر مستحق افراد تک نہیں پہنچ پاتے، جس کی وجہ سے ان اسکیموں کا فائدہ محدود ہو جاتا ہے۔ حکومت کی جانب سے گیس اور بجلی کی سپلائی کو بہتر بنانے، قیمتوں کو کنٹرول کرنے، اور غریب طبقے کے لیے خصوصی پیکجز متعارف کرانے کی اشد ضرورت ہے۔
ایسے حالات میں معاشرے کے خوشحال طبقے کو آگے بڑھ کر اپنی ذمہ داری ادا کرنی چاہیے۔ ہم سب کو چاہیے کہ اپنے آس پاس ضرورت مندوں کی مدد کریں۔ گرم کپڑے، کمبل، اور کھانے پینے کی اشیا ان تک پہنچائیں جو ان کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ مختلف فلاحی تنظیمیں اور کمیونٹی کچن ایسے پروگرامز چلاتی ہیں، جن میں حصہ لے کر ہم ان لوگوں کی مدد کر سکتے ہیں۔ یہ سرد موسم ہمیں خود احتسابی کا موقع بھی فراہم کرتا ہے۔ ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ ہم اپنے وسائل کو بہتر طریقے سے استعمال کر کے دوسروں کی زندگی آسان بنا سکتے ہیں۔ ایندھن اور توانائی کے زیاں کو روکنے کے لیے ہمیں ماحول دوست اقدامات اپنانے چاہئیں۔ گھروں میں توانائی کی بچت کے لیے مناسب انتظامات کیے جائیں تاکہ وسائل کی کمی کا سامنا کم ہو۔
سردیوں کا بوجھ صرف موسمی اثرات تک محدود نہیں بلکہ یہ ہمارے معاشرتی رویوں اور حکومتی پالیسیوں کی ناکامی کی بھی عکاسی کرتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ان مسائل کو صرف حکومت کی ذمہ داری نہ سمجھیں بلکہ اپنی حیثیت کے مطابق ضرورت مندوں کی مدد کریں۔ چھوٹے چھوٹے اقدامات، جیسے پرانے کپڑوں کی تقسیم، امدادی کاموں میں حصہ لینا، اور گیس و بجلی کے زیاں کو روکنا، ان مسائل کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔ اگر ہم اپنی اجتماعی کوششوں سے ان مسائل کا حل تلاش کریں، تو سردیوں کا یہ سخت موسم بھی کسی کے لیے آسان اور خوشگوار بنایا جا سکتا ہے۔
تبصرے بند ہیں.