ریاض الجنۃ میں داخلہ…اجازت نامہ ضروری!

39

(گزشتہ سے پیوستہ)
ریاض الجنۃ میں داخلے، اس کے لیے اجازت نامے اور وہاں پر نوافل کی ادائیگی کا تذکرہ کرنا مقصود تھا لیکن اس سے قبل مواجہ شریف (روضہِ اقدس کی سنہری جالیوں) کے حوالے سے مزید ایک دو باتوں کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔یہ ذکر مواجہ شریف میں نبی اکرم ﷺ کی قبر مبارک کے سامنے محراب نما سنہری جالی اور حضرات شیخین (حضرت ابوبکر صدیق ؓ، حضرت عمر فاروق ؓ) کی قبورِ مبارک کے سامنے کی محراب نما جالی یعنی ہر دو مقدس جالیوں کے درمیان با ب التوبہ پر لگی لوح مبارک یا تختی کے بارے میں ہے۔اس لو ح مبارک کے حوالے سے ادارہ مصباح القرآن انٹر نیشنل ٹرسٹ نے گوگل پر اپنی پوسٹ پر لکھا ہوا ہے کہ یہ لوح خالص چاندی کی بنی ہوئی ہے جسے تُرک عثمانی خلیفہ سلطان احمد بن سلطان محمد نے ۱۰۲۶؁ ہجری میں پیش کیا تھا۔ اس پر لکھی تحریر مٹائے جانے کی کوششوں کے باوجود پڑھی جا سکتی ہے اور اس کا متن یہ ہے۔ ترجمہ: ” اے اللہ اے رحمان اپنے نبی محتشم ﷺ کے صدقے اپنے بندے کو بخش دے جو کہ تیرے نبی ؐ کی شریعت کو نافذ کرتا ہے یعنی سلطان احمد بن سلطان محمد بن سلطان مراد بن سلطان سلیم بن سلطان سلیمان بن سلطان سلیم بن سلطان با یزید بن سلطان محمد بن سلطان مراد بن سلطان اور خان بن سلطان عثمان، جس کی اللہ نے نصرت عزیز کی اور اسے فتح مبین عطا فرمائی۔”
عثمانی تُرک (خلیفہ ) سلطان احمد بن سلطان محمد کی لوح کا ذکر چلا ہے تو یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ حرمین شریفین یعنی مسجد الحرام مکہ مکرمہ ہو یا مسجد نبویؐ او روضہِ اقدس مدینہ منورہ ہوں، تُرک حکمرانوں بالخصوص تُرک عثمانی خلفاء نے ان کی تعمیر و توسیع ، ان کی آرائش و زیبائش اور سجاوٹ و بناوٹ میں بڑھ چڑھ کرحصہ لیا ہے۔ بلا شبہ تُرک حکمرانوں کا اس ضمن میں بڑا جاندار حصہ ہے جو مسجد الحرام مکہ مکرمہ میں اور مسجد نبوی ؐ و روضہِ اقدس مدینہ منورہ میں تعمیر کردہ محرابوں، میناروں، گنبدوں، ستونوں، برآمدوں اور دروازوں کی صورت میں اپنی اصلی شکل میں یا آثار اور نشانیوں کی صورت میں اب بھی موجود ہے۔ مسجدنبوی ؐ میں شمال کی سمت عورتوں کے حصے میں داخلے کے لیے بابِ سلطان عبدالمجیدیا بابِ مجیدی بڑا مشہور اور اہم دروازہ ہے۔ ۱۹۸۳ء میں ہم حج پر گئے تھے تو مجھے یاد پڑتا ہے کہ مدینہ منورہ میں ہمارا قیام مسجد نبوی ؐ کے اسی شمال مشرق کے حصے میں کچھ فاصلے پر ایک پرانی دو منزلہ عمارت میں تھا ۔ والدہ محترمہ بے جی مرحومہ و مغفورہ اور ساتھ قیام پذیر دوسری خواتین مسجد نبویؐ میں بابِ مجیدی یا باب سلطان عبدالمجید سے داخل ہو کر خواتین کے لیے مخصوص حصے میں پہنچا کرتی تھیں۔ بابِ مجیدی یا باب سلطان عبدالمجید کی جگہ پر اس وقت بھی مسجد نبویؐ کے تین دروازے یا باب۱۲، ۱۳ اور ۱۴ بنے ہوئے ہیں جن کا مشترک نام بابِ مجیدی یا بابِ سلطان عبدالمجید ہی ہے۔

مسجد نبویؐ کی مختلف ادوار میں تعمیر و توسیع اور بناوٹ و سجاوٹ سمیت اس کے دروازوں یا ابوابGates) ( کا اِن شا ء اللہ آئندہ ذکر ہو گا۔ اس وقت مسجد نبوی ؐ کی مخصوص اور انتہائی باب برکت اور با فضیلت حصے ریاض الجنۃ کا ذکر کرتے ہیں۔ ریاض الجنۃ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے اس سے مراد جنت کا باغ یا جنت کی کیاری ہے یہ مسجد نبوی ؐ کا وہ حصہ ہے جو نبی پاک ﷺ کے گھر یعنی حجرہ مبارک اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ اور منبر (منبرِ رسول ﷺ) کے درمیان سمجھا جاتا ہے۔ اس کے بارے میں آپ ﷺ کا فرمان مبارک ہے کہ میرے منبر اور میرے گھر کے درمیان جگہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ریاض الجنۃ میں داخل ہونے اور وہاں نوافل ادا کرنے یا عبادت کرنے کی بڑی فضیلت سمجھی جاتی ہے۔ تاہم یہاں داخل ہونا اور نوافل ادا کرنے یا عبادت کرنے کے لیے جگہ حاصل کرنا ہمیشہ سے مشکل چلا آ رہا ہے۔ مسجد نبوی ؐ میں حاضری دینے والے مر د حضرات ہوں یا خواتین ہوں اُن کی خواہش ہوتی ہے کہ انہیں یہاں (ریاض الجنۃ میں) داخلے اور نوافل ادا کرنے کا ہر صورت میں موقع ملے لیکن مسجد نبوی ؐ میں ہمیشہ سے اور سال کے بارہ مہینوں میں ہر وقت حاضری دینے والے ہزاروں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں موجود رہتے ہیں۔(حج کے دنوں میں اور رمضان المبارک میں یہ تعداد بعض اوقات دس لاکھ تک پہنچ جاتی ہے) تو پھر سب کو آسانی کے ساتھ موقع کیسے ملے۔ یقینا یہ صورتِ حال کہ کچھ لوگ مسجد نبوی ؐ میں جلدی آ کر یا کوئی اور مناسب طریقہ اختیار کر کے ریاض الجنۃ میں داخل ہو کر وہاں جگہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں اور پھر وہاں عبادت کے لیے دیر تک بیٹھے رہیں اور ان کے مقابلے میں کچھ لوگ سرے سے ریاض الجنۃ میں داخل نہ ہو پائیں یا داخل ہو بھی جائیں تو انہیں وہاں مناسب جگہ یا نوافل کی ادائیگی کے لیے زیادہ وقت نہ مل پائے ، جہاں مسجد نبوی ؐ میں آنے والے عازمین ِ حج کے لیے پریشانی اور الجھن کا باعث تھی وہاں مسجد نبوی ؐ کے امور کی دیکھ بھال اور نگرانی کرنے والی انتظامیہ کے لیے بھی غور و فکر اور اس کا حل ڈھونڈنے کی متقاضی تھی۔ کہا جا سکتا ہے کہ مسجد نبوی ؐ کی انتظامیہ نے اس صورتِ حال کو سامنے رکھتے ہوئے اس کا یہ حل نکالا ہے کہ پچھلے چند سال سے ریاض الجنۃ میں داخلے کے لیے اجازت نامے یا پرمٹ کا اجرا شروع کر دیا گیا ہے۔ اب پہلے سے حاصل کردہ اجازت نامے کے بغیر وہاں ڈیوٹی پر متعین افراد کے علاوہ کسی کو بھی ریاض الجنۃ میں عبادت کے لیے داخل ہونے کی اجازت نہیں اور نہ ہی کسی فر دکے لیے ایک بار پرمٹ یا اجازت نامہ جاری کرنے کے بعد اگلے بارہ مہینوں کے عرصے کے دوران نیا پرمٹ جاری کیا جاتا ہے۔ مطلب یہ کہ سال میں ایک ہی بار ریاض الجنۃ میں داخلے کی اجازت مل سکتی ہے۔
ریاض الجنتہ میں داخلے کا اجازت نامہ یا پرمٹ جاری کرنے کے لیے NUSK کے نام سے ایک سپیشل ایپ App تشکیل دی گئی ہے۔ ریاض الجنتہ میں داخلے کے خواہش مند خواہ مرد حضرات ہوں یا خواتین ، انہیں اپنے حوالے سے کچھ کوائف اور معلومات اس ایپ کے رابطہ نمبر پر اپ لوڈ کرنا ہوتی ہیں۔ ان کوائف اور معلومات کی جانچ پڑتال کے بعد موبائل پر میسج کی صورت میں ریاض الجنۃ میں داخلے کے لیے اجازت نامے کا اجرا کر دیا جاتا ہے جس میں وقت اور دن کا تعین بھی ہوتا ہے۔ مردوں اور عورتوں کے لیے الگ الگ اوقات اور ریاض الجنۃ میں داخلے کے لیے الگ الگ راستے بھی مقرر ہیں ۔ مرد حضرات مسجد نبوی ؐ کے جنوبی سمت کے کھلے احاطے میں قطاریں بنا لیتے ہیں ، وہاں ان کے موبائل پر موجود اجازت نامے کی جانچ پڑتال کے بعد انہیں آگے جانے کی اجازت دی جاتی ہے۔ اجازت ملنے کے بعد ہر کوئی اس کوشش میں ہوتا ہے کہ وہ جلد سے جلد ریاض الجنۃ میں پہنچ کر کچھ آگے جگہ ہی حاصل نہ کر لے بلکہ اسے وہاں کچھ زیادہ وقت بھی گزارنے کا موقع مل سکے۔ اللہ کریم کا احسان کہ مجھے، عمران، واجد اور ہماری خواتین کو بفضلِ تعالیٰ ریاض الجنتہ میں داخلے اور وہاں نوافل ادا کرنے کو موقع ملا۔ یہ موقع کیسے ملا اور اس کے لیے کیاکچھ کچھ کرنا پڑا اس کی تفصیل ان شاء اللہ آئندہ ! (جاری ہے)

تبصرے بند ہیں.