آخری بال اور آخری کال کا ڈرامہ بھی فلاپ ہو گیا۔ عمران خان کی پی ٹی آئی کی اس سے پہلے بھی 5کالیں فلاپ ہو چکی ہیں لیکن عمران خان اپنے مریدین کو مسلسل آخری کال کی نوید سناتے رہے ہیں کہ میں آخری کال دوں گا۔ تم نے نکلنا ہے، سب کچھ تہس نہس کر دینا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ پی ٹی آئی ایک حقیقت ہے، ایک سیاسی جماعت ہے جس کی قیادت عمران خان کے پاس ہے، ان کی فالووئنگ بھی بہت ہے۔ اندرون ملک ہی نہیں، بیرون ممالک بھی عمران خان کے چاہنے والے بہت ہیں۔ عمران خان نے اپنا حلقہ اثر قائم کر رکھا ہے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے۔
پی ٹی آئی اور عمران خان کی تاریخ، عروج و زوال کی کہانی بڑی عجیب ہے۔ تحریک انصاف اپنے قیام سے لے کر 2011ءتک بس ایک جماعت تھی۔ عمران خان ایک مقرر کے طور پر گلی گلی کوچہ کوچہ اپنی جولانیاں دکھاتے رہتے تھے، لوگ انہیں سنتے اور سر دھنتے تھے، ان کی باتیں مصالحے دار اور کڑک ہوتی تھیں۔ سچ اور جھوٹ کی ملاوٹ سے تیار کردہ ان کے بیانات لوگوں میں مقبول ہوتے تھے لوگ بحث و مباحثہ بھی کرتے تھے لیکن انہیں بہت سنجیدہ نہیں لیتے تھے پھر 2011ءمیں ہماری تجربہ کار مقتدرہ نے انہیں گود لے لیا، ان کی مینار پاکستان کے سائے میں بطور قومی لیڈر لانچنگ کر دی گئی۔
ویسے حکیم محمد سعید شہید اور ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم جیسے علماءو دانش وروں نے تو بہت عرصہ پہلے کہہ دیا تھا کہ عمران خان کو یہودی لابی نے گود لے لیا ہے۔ اس وقت تک تو عمران خان کے سیاست میں آنے کے دور دور تک امکانات نظر نہیں آتے تھے لیکن فراست مومن کے تحت، ان حضرات نے جو پیش گوئی کی وہ 1996ءمیں ہوبہو سچ ثابت ہوئی۔ عمران خان تحریک انصاف کے ساتھ سیاسی منظر پر نمودار ہوئے اور پھر چل سو چل۔ اب انہوں نے ملک و قوم کو ایک ایسی بند گلی میں دھکیل دیا ہے جہاں سے انہیں باہر نکلنے کا راستہ بھی نہیں مل رہا ہے۔ 24نومبر کی آخری کال کو ہی دیکھ لیجئے۔ کال دیتے وقت دس کے قریب مطالبات تھے۔ الم غلم قسم کے مطالبات جنہیں پی ٹی آئی کے عالی دماغ نمائندگان ٹیلی وژن چینلز پر بیان کرتے وقت دقت محسوس کرتے تھے پھر یہ سکڑ کر تین ہو گئے یعنی خان کی رہائی، 26ویں ترمیم کی واپسی اور پی ٹی آئی کی جیتی ہوئی نشستوں کی واپسی یہ سب مطالبات نان سینس ہی کہلائیں گے کیونکہ یہ معلوم نہیں کہ یہ مطالبات کس سے کئے جا رہے تھے۔ اگر حکومت وقت سے کئے جا رہے تھے تو یہ بات بڑی واضح ہے کہ حکومت ان مطالبات کو پورا نہیں کر سکتی کیونکہ خان کی رہائی کا تعلق عدالتوں سے ہے۔ ایسا تو نہیں کہ حکومت نے عمران خان کو جیل میں بند کر رکھا ہے اور جب چاہیں اس کی رسی کھول کر اسے جیل بندھن سے آزاد کر دیں۔ عمران خان کی رہائی کا تعلق عدالتی فیصلوں سے ہے، انہیں عمران کی رہائی کیلئے عدالتوں سے رجوع کرنا چاہئے۔ ویسے پی ٹی آئی عدالتوں میں فعال ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کیسوں کی پیروی کرنے والے کیونکہ مفتے ہیں وہ کیس درست طریقے سے تیار ہی نہیں کر پاتے جس کے باعث عمران خان کو ریلیف نہیں مل پا رہا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ مفت میں مقدمہ لڑنے والے وکلاءعمران خان کو کبھی بھی ریلیف نہیں دلا سکیں گے تو یہ ہرگز غلط نہ ہوگا۔ عمران خان تو کسی کو چائے کی پیالی پیش کرنے کے روادار نہیں ہوتے وہ وکلاءکو فیس کہاں سے ادا کریں گے۔ اس لئے عمران خان کی رہائی کے لئے دھونس، دھاندلی اور تشدد کا راستہ اختیار کیا گیا ہے۔ سردست وہ ناکام ہو چکا ہے۔
ترمیم کی واپسی کا تعلق اسمبلی سے ہے۔ حکومت وقت سے ہے جسے عمران خان تسلیم ہی نہیں کرتے ہیں۔ ایک ادارہ جسے آپ مانتے ہی نہیں ہیں پھر اس سے مطالبہ کرنا کیا حماقت نہیں ہے۔ ویسے پی ٹی آئی کے ممبران پارلیمینٹ جس ادارے کو سرے سے مانتے ہی نہیں ہیں وہاں حاضری بھی دیتے ہیں، رقوم بھی وصول کرتے ہیں، سہولیات و مراعات بھی لیتے ہیں لیکن ”میں نہ مانوں“ کی رٹ لگاتے رہتے ہیں۔ منافقت، کذب و جھوٹ کی اس سے اعلیٰ مثال کہیں اور نہیں ملے گی۔ جہاں تک تیسرے مطالبے یعنی نشستوں کی واپسی کا سوال ہے تو اس کا تعلق الیکشن کمیشن کے ساتھ ہے وہی الیکشن کمیشن جسے عمران خان نے اپنے دور حکومت میں بڑے کروفر سے تشکیل دیا تھا اور جس کے چیف کی تعیناتی کے وقت اس کی لیاقت، ذہانت اور دیانت کے قصے بیان کئے تھے بلکہ چیف الیکشن کمیشن کو آسمان تک پہنچا دیا تھا۔ شیخ رشید کے بیانات بھی پڑھ لیں وہ کیا کیا کہتے تھے۔ اب پی ٹی آئی اسی الیکشن کمیشن کو مانتی ہی نہیں ہے، اسے جانبدار اور بددیانت قرار دے رہی ہے لیکن اسی الیکشن کمیشن کے تحت فروری 2024ءمیں ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی اسمبلی میں اس کے ممبران بیٹھ بھی رہے ہیں، حاضری بھی لگاتے ہیں، مراعات بھی لیتے ہیں۔ اسی اسمبلی میں پاس ہونے والی 26ویں آئینی ترمیم کے لئے قائم کمیٹی کے ممبر بھی بنتے ہیں۔ دس میں سے نو اجلاسوں میں شریک بھی ہوتے ہیں لیکن اس ترمیم کو مانتے بھی نہیں ہیں۔ اسی الیکشن کمیشن کے تحت منعقدہ انتخابات میں جیت کر کے پی اسمبلی تک پہنچنے والے پی ٹی آئی ممبران کے ووٹ کے ذریعے یہاں پی ٹی آئی کی حکومت قائم ہوئی ہے اس کے بارے میں سب ٹھیک کی آواز دیتے ہیں۔ یہ منافقت نہیں تو اور کیا ہے۔ اسی حکومت کے سربراہ گنڈا پور کا پانچ دفعہ تن تنہا مرکز اور پنجاب میں اپنا آپ دکھا چکے ہیں، چھٹی مرتبہ 24نومبر 2024ءکو زوجہ عمران خان کے
ساتھ مل کر انہوں نے عمران خان کو زبردستی رہا کرانے کے یک نکاتی ایجنڈے کی تکمیل کا اعلان کیا اور پھر کے پی سے ”جانثاروں“ کا جتھہ لے کر اسلام آباد کی طرف روانہ ہوئے تھے وہاں انہوں نے جو کچھ کیا، ان کے ساتھ جو کچھ ہوا اور سب سے اہم جانثاروں کے ساتھ گنڈا پور اور زوجہ محترمہ نے جو کچھ کیا وہ تاریخ میں رقم ہو چکا تھا۔ بشریٰ بی بی ایک تاریخ رقم کرنے جا رہی تھیں۔ بیگم کلثوم نواز کے نقش قدم پر چلتے ہوئے بلکہ اس سے بھی پہلے بیگم نصرت بھٹو کے نقش قدم پر چلتے ہوئے، بے نظیر بھٹو کے نقش قدم پر آگے بڑھتے ہوئے بیگم کلثوم نے ایک بیوی اور خاندان کی بڑی ماں کے طور پر جس طرح نوازشریف اور شریف خاندان کو جنرل مشرف کی قید سے نکالا، جس طرح بیگم بھٹو نے پامردی کے ساتھ ڈکٹیٹرشپ کا مقابلہ کیا اور تاریخ میں امر ہو گئیں۔ بشریٰ بی بی بھی کچھ ایسا ہی کرنے جا رہی تھیں، اپنے خاوند کی جیل سے رہائی کا نعرہ لئے، جہاد کی پکار کے ساتھ، جانثاروں کے سنگ، اسلام آباد پر حملہ آور ہوئیں پھر کیا ہوا۔ بتی چلی گئی۔ کنٹینر میں بلیک آﺅٹ ہو گیا۔ بشریٰ بی بی اور گنڈا پور جانثاروں کو بے یارومددگار چھوڑ کر فرار ہو گئے یقینا ایک نئی تاریخ رقم ہو چکی ہے۔
تبصرے بند ہیں.