پاکستان ہے تو سب کچھ ہے

53

پچھلے چند روز سے جاری ہیجانی کیفیت سے نجات ملی تو اندازہ ہوا کہ ان گزرے کچھ دنوں میں ایک انتشاری جماعت کی جانب سے پھیلائے گئے انتشار اور فساد نے وطن عزیز کا ناقابل بیان نقصان کیا ہے۔ پاکستان کی سٹاک مارکیٹ جو پچھلے کئی ماہ سے دنیا کی تیزی سے ابھرتی ہوئی سٹاک مارکیٹ تھی، جس طرح وہ ہزاروں پوائنٹس گر کر کریش کر گئی۔ وہی نقصان اربوں روپے میں ہے۔ اس کے علاوہ قوم نے روزانہ کی بنیاد پہ کاروباری پہیہ رکنے سے قریب 150 ارب فی دن نقصان برداشت کیا۔ آج جب ایک مشہور ماہر معاشیات سے بات چیت میں سوال کیا تو ان کا جواب حیران کر دینے والا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اگر وہ محدود تخمینے کی بنیاد پہ بھی بات کریں تو ملک کو پچھلے پانچ چھ دن میں 700-800 ارب روپے کا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ یہاں ذہن میں ایک ہی سوال آتا ہے کہ کیا وطن عزیز کی لڑکھڑاتی معیشت جو ابھی ڈیفالٹ کی سٹیج سے بمشکل نکلی ہو وہ اتنا بڑا نقصان برداشت کرنے کی متحمل ہو سکتی ہے۔ تو یقینا اس کا جواب نفی میں ہے۔ اب آتے ہیں انتشاری گروہ یا پارٹی اور اس کی ملک اور عوام دشمن پالیسی اور سیاست کی طرف۔ تو اسلام آباد پہ بولا جانے والا یہ ہلہ ان کی طرف سے پہلا وار نہیں تھا۔ جب سے اس پارٹی نے ملک کے ایک صوبے یعنی خیبر پختونخوا میں حکومت سنبھالی ہے۔ وہاں کی صوبائی حکومت کا پورا زور اور توجہ ہر دس پندرہ دن بعد تمام تر صوبائی وسائل کے ساتھ وفاقی دارالحکومت پہ دھاوا بولنے پہ ہی رہا ہے۔ اس عمل سے آج تک ان کو کیا حاصل ہوا ہے، اس بحث میں پڑے بغیر اب یہ دیکھنا ہو گا کہ ایسے اعمال سے ملک اور قوم کا کتنا نقصان ہوا؟ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں تو جگہ جگہ ثابت ہو گا کہ اس طرح کی انتشاری سیاست نا صرف ہمیشہ لاحاصل رہی بلکہ اس سے ہونے والے نقصان اور قوم کو پہنچنے والی بلا وجہ کی اذیت کا نتیجہ ایسی پارٹیوں کے خوفناک خاتمے یا انجام پہ ہی منتج ہوا۔ یہاں اس انتشاری گروہ اور ان کے لیڈران سے بھی پوچھنا ہے کہ آخر کیوں اور کیسے جیل میں موجود ایک شخص جو کہ اب سزا یافتہ مجرم ہے، وہ ملک و قوم کے مفاد سے بھی بالاتر ہو گیا ہے کہ اس کی خاطر آپ روزانہ کی بنیاد پہ پچھلے کئی ماہ سے لگاتار قومی معیشت کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ایسی شخصیت پرستی اور نیچ سوچ ہی تباہی کا باعث ہے۔ پھر آپ کے ہر دھرنے یا مارچ میں مسلح غیر ملکی یا افغانی کیوں موجود ہوتے ہیں؟ کیا ایک شخص کی اندھی محبت میں آپ ملک میں خانہ جنگی چاہتے ہیں؟ ان مسلح افغانیوں کی موجودگی میں ہی آپ کے حالیہ مارچ کے دوران سکیورٹی فورسز کے 7 جوان شہید ہوئے اور سیکڑوں کی تعداد میں زخمی ہوئے۔ انہی مسلح دہشتگردوں نے نہتے پولیس والوں پہ سیدھی فائرنگ کی اور جانی نقصان کیا۔ کوئی شک نہیں کہ آپ کو اس تمام کے باوجود وفاقی حکومت نے آخری حد تک برداشت کیا۔ لیکن جب آپ خود ان منہ زور غیر ملکی دہشتگردوں کے ہاتھوں یرغمال بن گئے تو پھر آپ نے خود ہی اپنے آپ کو ان سے بچانے کے لیے مدد مانگنا شروع کر دی۔ یہ چند ہزار کا گروہ اس قدر حاوی ہو گیا کہ اس نے آپ کی بات سننے اور ماننے سے بھی انکار کر دیا اور اعلان کرنا شروع کر دیئے کہ ان کا ٹارگٹ ڈی چوک نہیں بلکہ پارلیمنٹ ہاؤس اور وزیر اعظم ہاؤس ہے۔ کیا کسی مہذب معاشرے میں قومیں اپنے ہی قومی اور وفاق کی علامت اداروں کو نشانہ بناتی ہیں؟ دوسری طرف اب پوری قوم آپ سے سوال پوچھ رہی ہے کہ آپ میں سے اس انتشاری جماعت کا کوئی ایک لیڈر سامنے آئے کہ جس کے اپنے بچے ان جلسے جلوسوں یا دھرنوں میں شریک ہوں۔ حقیت تو یہ ہے کہ اڈیالہ میں قید اس سزا یافتہ مجرم کے اپنے بچے بھی انگلینڈ میں باحفاظت موجود ہیں۔ اس کی موجودہ اہلیہ جو اس آخری مارچ کی روح رواں تھی اس کے پچھلی شادی سے پانچ بچے ہیں، ان میں سے بھی کوئی ایک اس مارچ میں شامل نا تھا۔ کیوں؟ کیا آپ کے بچوں کی زندگیاں قوم کے بچوں سے زیادہ اہمیت کی حامل ہیں؟ آخر کیوں قوم کے بچوں کو ورغلا کر آپ حکومت اور مملکت کے خلاف کھڑا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جب کہ آپ کے اپنے بچے بیرون ممالک میں مقیم اور عیش و عشرت کی زندگیاں گزار رہے ہیں۔ کاش کہ کے پی کے صوبہ کے لوگ ان لوگوں کی بد نیتی سمجھ سکیں اور ان سے سوال کریں کہ اگر ہمارے بچوں کو لیکر جانا ہے تو پہلے
اپنے بچوں کو ان جلسے جلوسوں میں شامل کرو۔ سچ تو یہ ہے کہ انتشاری گروہ کی سیاست غریب لوگوں کے بچوں کی قربانی پہ قائم ہے۔ کیونکہ ان کے نزدیک عوام کے بچوں کی کوئی وقعت یا قیمت نہیں۔ کاش کہ وہاں کے عوام ان لوگوں کا دوغلا پن دیکھ اور پہچان سکے اور اپنے بچوں کو ان کی گھٹیا سوچ اور گھٹیا اور ملک دشمن ایجنڈے کا نشانہ بننے سے روک سکے۔ وہیں اب اس انتشاری گروہ سے اگلا سوال یہ بھی ہے کہ اگر پاکستان ہے تو ہی آپ کے پاس یہ عہدے، یہ مراعات ہیں۔ تو آخر کیوں آپ اسی درخت کو کاٹنے پہ جتے ہوئے ہیں جو آپ کو سایہ مہیا کیے ہوئے ہے۔ کیوں اسی ملک کی ترقی کے دشمن بنے ہوئے ہیں جو دنیا میں آپ کی پہچان ہے۔ سابق اسرائیلی وزیر اعظم گولڈا میئر سے اس کے اقتدار کے ابتدائی ایام میں کسی نے پوچھا تھا کہ مذہب کی بنیاد پہ قائم اسرائیل کا مستقبل کیا ہے تو اس نے جواب دیا تھا کہ دنیا میں مذہب کی بنیاد پہ صرف دو ریاستیں وجود میں آئی ہیں ایک پاکستان اور دوسرا اسرائیل۔ لیکن ہم میں اور ان میں فرق یہ ہے کہ ہم نے پوری دنیا میں موجود یہودیوں کو اسرائیل کی حمایت میں ایک کر دیا ہے۔ اس لیے اسرائیلی ریاست کا مستقبل تابناک ہے، دوسری طرف پاکستانی کبھی ایک قوم نہیں بن سکیں گے اور ہم انہیں بننے بھی نہیں دیں گے۔ ہم پاکستانیوں کے ہی ہاتھوں اس کی بنیادوں کو کھوکھلا کرائیں گے۔ کیونکہ اسرائیلی سالمیت کو آج یا آنے والے کل میں کسی سے خطرہ ہو گا تو وہ مذہب کی بنیاد پہ قائم مضبوط پاکستان ہی ہو سکتا ہے۔ موجودہ حالات میں جب ہم اس انتشاری گروہ اور ان کے کرپٹ، جھوٹے اور بد کردار ملک دشمن گرو کو دیکھیں تو گولڈا میئر کی بات سچ دکھائی دیتی ہے۔ کہ پاکستان دشمن قوتیں ان جیسے بکاؤ پاکستانیوں کو ہی استعمال کر کے وطن عزیز پہ حملہ آور ہیں اور اس وقت یہ لوگ انہی ملک دشمنوں کی کٹھ پتلی بنے ہوئے ہیں۔ اس انتشاری گروہ کو اب سوچنا ہو گا۔ یا تو شخصیت پرستی سے نکل کر صرف وطن سے محبت کرنا ہو گی یا پھر انہیں خوفناک انجام کا سامنا کرنا ہو گا۔ بس بہت ہو چکا اور قوم کی برداشت بھی جواب دینے لگی ہے۔ اب مزید انتشار کی گنجائش نا ہے۔ کیونکہ مضبوط ترقی یافتہ پاکستان ہی ہماری خوشحالی کی ضمانت ہے، ہماری پہچان، ہماری آن اور اقوام عالم میں ہماری شان ہے۔ مختصراً پاکستان ہے تو سب کچھ ہے۔ اب یہ آخری موقع ہے لہٰذا جتنی جلدی یہ لوگ عبرت پکڑیں گے اور قومی دھارے میں شامل ہو کر مثبت سیاست کرینگے اتنا ہی ان، ملکاور قوم کے لیے بہتر ہو گا۔

تبصرے بند ہیں.