بوڑھے ہنسوں کی ناکام سازش

54

جیل میں بیٹھا عمران نیازی چشمِ تصور سے نسیم حجازی کے ناول قیصر و کسریٰ کے ناول کا کوئی میدان ِ جنگ اسلام آباد کو بنا دیکھ رہا تھا۔ جہاں میدان لاشوں سے اٹا پڑا ہو گا، زخمیوں کی آہ و بکا سے کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی ہو گی، امان طلب کرتی ’’دشمن‘‘ کی فوج الامان الامان کے نعرے بلند کر رہی ہو گی۔ حکومتی ایلچیوں کا وفد ہاتھ باندھے اڈیالہ جیل کے باہر ہو گا اور گرفتار قیصر انہیں حقارت سے قہر آلود نظر وں سے کہہ رہا ہو گا ’’بروٹس اسے بار تمہیں شکست ہو گئی۔‘‘ میں یقینِ کامل کے ساتھ ایک ایک لفظ لکھ رہا ہوں کہ اُس نے یہی تصور کر رکھا ہو گا۔ لیکن زندگی کے 42 ویں سال میں سیاست شروع کرنے والے کو یقینا پاکستان کی ریاستی طاقت کا انداز نہیں تھا۔ پنجاب اسمبلی میں 27-11-24 کو آئی پی پی کے ایم پی اے شعیب صدیقی نے ایک قرارداد پنجاب اسمبلی میں پیش کی جس میں اُنہوں نے پاکستان کے اُن تمام اداروں کو خراج ِ تحسین پیش کیا جنہوں نے اس فتنہ کو اسلام آباد کے ڈی چوک میں دفن کر دیا، بیلا روس کے صدر اور اُن کے وفد کے اراکین کو عزت آبرو کے ساتھ رخصت کیا اور معیشت کا پہیہ وہیں سے چلا دیا جہاں روکنے کی ناکام کوشش کی گئی تھی۔ بلاشبہ یہ قرارداد مرکزی صدر آئی پی پی و وفاقی وزیر نجکاری و مواصلات عبد العلیم خان کے حکم اور مشاورت سے پیش کی گئی تھی۔ عمران نیازی نے اقتدار کے دن نالائقی سے گزارے اور اقتدار سے باہر آنے کے بعد ’’خطرے ناک‘‘ ہونے کی دھمکی دے کر خود ایک ذلت آمیز زندگی گزارنے کیلئے جیل چلا گیا۔ عبد العلیم خان اس سارے کھیل تماشے کو مسکراتے ہوئے چہرے سے دیکھتا رہا اور اپنے کام میں مصروف رہا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ عمران نیازی کی بساط کتنی ہے اور وہ اپنے ورکروں کو کس حد تک استعمال کر سکتا ہے۔ اُس نے عمران نیازی پر لاکھوں نہیں کروڑوں بلکہ اس سے بھی زیادہ خرچ کیے ہیں اور اللہ جانتا ہے کہ دھرنے میں بے سر و سامانی میں نکلے ہوئے لوگوں کو دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا رہا۔ میں 126 دن کے دھرنے میں 98 دن اسلام آباد رہا اور میں نے وہ تمام مناظر بھی اپنی آنکھوں سے دیکھے جب ہر طرح کا بیک اپ ہونے کے باوجود وسائل کے حوالے سے بڑے بڑے دعوے کرنے والے میدان چھوڑ کر پہلے ہفتے میں ہی بھاگ گئے تھے۔ اُس دھرنے کو آخر تک عبد العلیم خان اور جہانگیر خان ترین نے ہی کامیاب کرایا ورنہ کسی کو کھانے کیلئے کچھ دینا تو دور کی بات خود عمران نیازی میگا فون پر خطاب کر رہا ہوتا۔ آج جیل میں بیٹھا نیازی یہ ضرور سوچ رہا ہو گا کہ میرے سابق ساتھیوں نے پاکستان کی مروجہ سیاست اپنانے کے بعد اُسے جو مشورے دیئے تھے وہ انتہائی درست تھے لیکن عمران نیازی خود بروٹس کے قبیلے کا آدمی ہے اُسے اپنے سے زیادہ طاقتور اور ذہین لوگ پسند ہی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عبد العلیم خان سمیت ساتھیوں کی ایک طویل فہرست کو دغا دینے اور اقتدار میں آنے کے بعد اُن کا بدترین دشمن ہونے پر اُسے ناز تھا اُسے شاید فیض حمید نے یقین دلا دیا تھا کہ باقی زندگی یونہی ہنستے کھیلتے گزر جائے گی لیکن سیاست کے بے رحم صحرا میں جگہ جگہ انسان خور دلدلیں ہیں جو انسان نگلنے کے بعد اگلتی بھی نہیں۔ آج کا دن عبد العلیم خان، شعیب صدیقی اور آئی پی پی کے تمام قائدین کو مبارک باد کا دن ہے کہ انہوں نے اس انتشاری ٹولے کا ہر محاذ پر مقابلہ کیا۔

اس انتشار کو جس طرح سٹیج کیا گیا اُس سے کیا یہ نتیجہ اخذ کر لیا جائے کہ عمران نیازی ’’اکلوتا‘‘ خیبر پختون خوا میں ایک علیحدگی پسند تنظیم بنا کر بیٹھا ہے جو صرف زیر زمین نہیں لیکن وہ تمام کام کر رہی ہے جو زیر زمین تنظیمیں کرتی ہیں؟ کیا ’’بوڑھے ہنسوں کا جوڑا‘‘ پاکستان کے تمام تالابوں کا پانی خشک کر کے دم لے گا؟ کیا بڑا جرم کرنے یا بڑا مجرم ہونے سے جیل منیول تبدیل ہو جاتا ہے؟ کیا اس سے بڑی بے شرمی بھی ہو سکتی ہے کہ خیبر پختون خوا سے روانہ ہونے والا ایک اجنبی لشکر پنجاب اور پنجابیوں کو تو گالی دیتا ہے لیکن پنجاب سے مفرور عورت کی قیادت میں جان لینے پر تُلا ہوا تھا؟ 2018ء کے انتخابات کا ناکام تجربہ اب پاکستان کا گلہ گھونٹنے کی بات کر رہا ہے تو کیا ایسا تجربہ کرنے والوں کو کسی کٹہرے میں نہیں لایا جائے گا؟ فیض حمید کی سزا میں تاخیر نے بھی ابھی تک پختون تحریک انصاف کو کھڑا رکھا ہوا ہے۔ کیا آج بھی کوئی اس بات کو جھٹلا سکتا ہے کہ عمران نیازی بیرونی طاقتوں کے بل بوتے پر اوورسیز پاکستانیوں اور نوجوانوں کی ایک نسل کو ورغلا چکا ہے جو اُس کی سزا کے بعد ہی راہ راست پر آئیں گے اور ملک سے دور بیٹھ کر ملک دشمنی کرنے والوں کیلئے بھی ہمیں کوئی لائحہ عمل تیار کرنا ہو گا ورنہ یہ دولت مند ناگ سوشل میڈیا کے ذریعے منفی پروپیگنڈا ’’بوسٹ‘‘ کرا کرا کر پاکستانی عوام کی رگوں میں نفرت کا زہر پھیلاتے رہیں گے۔ کیا یہ حیران کُن نہیں کہ ایک شخص کے پاس پاکستان کیلئے کوئی سیاسی یا معاشی ایجنڈا نہیں لیکن وہ صرف منفی پروپیگنڈا کی بنیاد پر، ایک صوبے اور باہر کی دنیا میں بیٹھا من مرضی کا کھیل کھیل رہا ہے؟ اگر عمران نیازی کو فوری اور ہنگامی بنیادوں پر جرائم سے نہ روکا گیا تو میرے منہ میں خاک اگلا پاکستان پنجاب اور سندھ ہی رہ جائے گا کیونکہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں عمران نیازی کی دہشتگردی کے ڈانڈے دور تک مل رہے ہیں۔ عام آدمی کو سُکھ کا سانس، بیرونی طاقتوں کا من مرضی کا پاکستان اور پاکستان کی اشرافیہ کو مزید طاقت اور اختیار صرف اور صرف اپنی بالا دستی قائم رکھنے کیلئے درکار ہیں۔ اِن کھیل تماشوں میں کیا کیا ہمارے ہاتھ سے نکل رہا ہے شاید ہم اِس کا ادراک بھی نہیں کر پا رہے۔ یو این او کو پاکستان میں انتشاریوں کو روکنے کیلئے فوج کی تعیناتی تو نظر آ رہی ہے لیکن انہیں غزہ میں بچوں، عورتوں، بزرگوں اور نوجوانوں پر برستا ہوا بارود نظر نہیں آ رہا۔ یو این او کا یہ دو غلا چہرہ ہی حقائق کو سمجھنے کیلئے کافی ہے۔ خچروں کا یہ گروہ کچھ عرصہ کیلئے پھر آرام فرمائے گا اور پھر کسی عالمی لیڈر کے آنے کا انتظار کرے گا تاکہ پاکستان کی زیادہ سے زیادہ جگ ہنسائی ہو سکے۔ ہماری ذاتی شان و شوکت کی کوئی حیثیت نہیں ہے لیکن جب کوئی شخص پاکستان کی عزت کو دائو پر لگانے کا سوچ لے تو پھر وہ کسی بھی معافی کا حقدار نہیں ہوتا خواہ وہ میرا بیٹا ہی کیوں نہ ہو۔

عمران نیازی کا یہ ڈرامہ بھی فلاپ ہو گیا لیکن مجھے یہ خوشی ضرور ہے کہ پنجاب سے عبد العلیم خان کے حکم پر پنجاب اسمبلی کے ایم پی اے شعیب صدیقی کی جانب سے پیش ہونے والی قرارداد نے اس فتنہ اور انتشار کے مقابل کھڑے ہو کر جانیں دینے والوں کی خدمات کو تسلیم کر کے پا ک فوج اور اُس کے ذیلی اداروں کے ساتھ ساتھ عوام کا دل بھی جیت لیا ہے۔

تبصرے بند ہیں.