امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو د وسری بار امریکی صدر بننے پر مبارک باد کہ اس عہدہ پر کسی نے تو رہنا ہوتا ہے ۔’’ یہ نہ ہوتا توکوئی دوسرا غم ہونا تھا ۔‘‘ لیکن ٹرمپ کی جیت سے پاکستان کے کونے کھدرو ں میں چھپے ہوئے امریکی حمایتی پاکستان کے گلی کوچوں سے لے کر سوشل میڈیا اور سیاسی جماعتوں کے جلسو ں سے ہوتے ہوئے نیشنل چینلز کی سکرین تک بے نقاب ہو رہے ہیں ۔ ٹرمپ کی جیت اور پی ٹی آئی کا اِس جیت کیلئے اور ازا ں بعد باولا ہونا درحقیقت اُن کے اینٹی امریکہ بیانیے کی موت ہے ۔بچپن سے جو لوگ لیاقت علی خان کو کوستے دیکھے کہ اُس نے روس کا دورہ منسوح کرکے امریکہ جانے کی فاش غلطی کی وہ بھی امریکی صدر کی حمایت اور بذریعہ ٹرمپ عمران نیازی کی رہائی کیلئے نہ صرف پُرامید ہیں بلکہ وہ ٹرمپ کے کہے کو حرفِ آخر سمجھتے ہیں اور ٹرمپ کو انکار حکومت نہیں ریاست کا خاتمہ سمجھتے ہیں ۔پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کوعمران نیازی کے سامنے بے بس ثابت کرنے والے مسٹر ڈونلڈ ٹرمپ کو عمران نیازی کا مسیحا سمجھ رہے ہیں ۔شاید یہ تجزیہ نگار بھول رہے ہیں کہ اس اسٹیبلشمنٹ نے اگر روس کو افغانستان کے پہاڑوں میں دس سال گھیرے رکھا تھا تو بیس سال اُس نے نکلنے امریکہ کو بھی نہیں دیا تھا۔بچوں کو درمیان میں سے کہانی سنائیں گے تو کچھ بھی اُن کے پلے نہیں پڑے گا اور یہ کہانی تو اتنی سادہ بھی نہیں ۔بظاہر پاکستان کے تمام سیاستدانوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کو مبارک بادیں دی ہیں ۔ شہباز شریف تو اُن کے ساتھ کام کرنے کے منتظر ہیں جبکہ بلاول بھٹو نے ٹرمپ کی فتح کو تاریخی قرار دیا ہے ۔ محترمہ مریم نواز صاحبہ نے ٹرمپ کی جیت کے نتیجہ میں تعلقات میں بہتری آنے کی امید ظاہر کی ہے جبکہ پی ٹی آئی کا خیال ہے کہ جمہوریت کامیاب ہوئی ہے ۔پاکستانی سیاست بظاہر عمران نیازی کی گرفتاری اور اسٹیبلشمٹ کے گرد گھومتی دکھائی دے رہی ہے لیکن کیا حقیقت بھی یہی ہے ؟ تو میں ایسا نہیں سمجھتا ٗ پاکستان دراصل امریکی اورچینی مفاد پرستوں کی جنگ میں الجھا ہوا ہے ۔ ہمارا خطہ جہاں دو ویٹو پاورز چین اورروس بیٹھے ہیںاور اس خطے میں تھانیداری کی لڑائی چین اور بھارت کے درمیان ہے اور جب تک پاکستان ایک ایٹمی طاقت اورمضبوط فوج لئے بیٹھا ہے بھارت کا یہ خوا ب شرمندئہ تعبیر نہیں ہو سکتا دوسری طرف امریکہ اور بھارت کے تعلقات اُس کے ایک بلاک میں ہونے کی نشاندہی کر رہے ہیں اور سعودی فرمانروا سے ٹرمپ کی ذاتی دوستی ہے ویسے دوستی تو اُس کی عمران نیازی سے بھی ہے اوراِس کا اعتراف ٹرمپ نے بطور فریق ثانی کیا بھی ہے لیکن کیا امریکہ پاکستان کے معاملات میں براہ راست مداخلت کرنے کی بدنامی مول لے گا یا اپنے سعودی دوستوں کو اِس کیلئے استعمال کرے گا۔دوسری طرف ہمارے شمالی محاذ پر بڑھتی ہوئی کشیدگی وہاں بھارت اور اسرائیل کا پتا دے رہی ہے اورکچھ بعید نہیں کہ امریکہ خود بھی افغانستان میں آ کر بیٹھ جائے ۔میں اِس بات سے ہرگز سوفیصد متفق نہیں ہوں کہ عمران نیازی نے جن دہشتگرد طالبان کو افغانستان سے لا کر پاکستان میں دوبارہ آباد کیا صرف وہی لوگ افواج پاکستان پرحملہ کررہے ہیں اور انہیں افغان طالبان اور افغان طالبان کو بھارت ٗاسرائیل اور امریکہ کی پشت پناہی حاصل نہیں ہے ۔
کوئٹہ میں کالعدم بی ایل اے کے حملے نے روح کی رو ح پر موت طاری کردی ۔ مختلف شہروں کو روانہ ہونے کیلئے تیار مسافروں کو بارود کے ڈھیر پر رکھ کر اڑا دیا گیا ۔آخری اطلاع آنے تک شہداء کی تعدا د 27 سے تجاوز کرچکی تھی اور 65 کے قریب زخمی تھے جن میں سے اکثر کی حالت نازک بتائی جاتی ہے ۔ خود کش حملہ آور ایک بے رحم قاتل ہوتا ہے جس کا مقصد زیادہ سے زیادہ افراد کی ہلاکت ہوتا ہے خواہ اُس ہجوم یا اُن لاشوں میں اُس کے فلسفے سے متفق لوگ ہی کیوں نہ ہوں ۔ بلوچستان میںبھارتی درانداری کے ثبوت اور جیتے جاگتے کردار ہم نے گرفتار کیے ہیں لیکن اُس ایک ملزم کوکونسی رعایت ہے جو ہم نے نہیں دی ؟ ایسا کیوں ہے اور ایسا کرنے والے اب تک ریاستِ پاکستان میں آزاد اور با آبرو زندگی کیسے گزار رہے ہیں ؟کلبھوشن بارے کوئی خیر خبر پاکستان کے عوام تک نہیں پہنچ رہی وہ انڈین نیوی کا آن ڈیوٹی آفیسر تھا ٗ ہم نے اُسے رنگے ہاتھوں دہشت گردانہ کارروائیوں میں ملوث پایا لیکن ہم بھی ’’ ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں ۔‘‘ پر پوری شان سے قائم ہیں وہ کلبھوشن کا کیس ہو یا 9 مئی ٗ تاریخ پر تاریخ اور مجرم ہمارے ہاتھوں سے نکل جا تے ہیں یا پھر نکلنے کا رستہ بنا لیتے ہیں ۔ ممکن ہیں پاکستان کے بالا دست طبقے کے پاس پاکستان کے علاوہ کوئی اور پناہ گاہ بھی ہو لیکن پاکستانیوں کے پاس صرف پاکستان ہی ہے جس کے ساتھ سب اپنا اپنا کھیل کھیل کر محفوظ پناہ گاہوں میں لوٹ جاتے ہیں اور کوئی مائی کا لعل اُن کے خلاف کارروائی بھی نہیں کر سکتا ۔ خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ بلوچستان دہشتگردی پاکستان کو کمزور کرنے کی سازش ہے ۔ دنیا کی بد قسمتی یہ ہے کہ اب انہیں الگ چار سال ٹرمپ نیازی کے ساتھ اور پاکستانیوں کو ڈونلڈ عمران کی رہائی کیلئے نت نئے ڈرامے دیکھ کر گزارنا ہوں گے۔ گو کہ عمران نیازی کی بہن نے کہا ہے کہ ’’ ٹرمپ کوئی ہمار ا باپ ہے ٗ یہ پاکستان کا مسئلہ ہے اورایسا سوچنا بھی غلامی ہے ۔‘‘ لیکن یہ بیان عمران نیازی کو دینا چاہیے تھا کہ ’’ ہم کوئی غلام تھوڑی ہیں ۔ امریکہ ہوتا کون ہے ہمارے معاملات میں مداخلت کرنے والا۔‘‘ مگر وہی جو علامہ اقبال نے کہا تھا کہ ’’یہ ناداں گر گئے سجد ے میں جب وقتِ قیام آیا ‘‘ ۔ اب پی ٹی آئی ڈونلڈ ٹرمپ کی مہربانی اور سفارش سے پاکستانیوں کو امریکہ کی غلامی سے آزادی دلائے گی ۔ممکن ہے سائفر کا مقدمہ بھی امریکی اہلکاروں پر چل جائے جنہوں نے دھمکی آمیز سائفر جنرل باجوہ کو بھیج کر عمران نیازی کی حکومت ختم کرائی تھی۔ اگر یہ سب کچھ ہو بھی جاتا ہے تو کیا خوارج کے خلاف جنگ میں شہید ہونے والے ہمارے جوان گھروں کو لوٹ جائیں گے ؟ کیا دہشتگردی میں مارے جانے والے دنیامیں لوٹ آئیں گے ؟ کسی اخبارکے صفحہ پر مجھے ماہ رنگ بلوچ کا کوئٹہ کے حوالے سے کوئی مذمتی بیان نظر نہیں آیا اور کیوں کر آئے گا اُس کا باپ اور بھائی اس تنظیم کے اہم رکن تھے اور ماہ رنگ بلوچ بھی بی ایل اے کا سیاسی چہرہ ہے بالکل عمران نیازی کی طرح جو طالبان کا سیاسی چہرہ لیے پاکستانیوں سے اقتدار مانگتا پھر رہا ہے۔ اس سارے کھیل میں بالا دست طبقے کو کوئی نہ کوئی طاقتور حمایتی اپنے ہی طبقے سے مل جاتا ہے لیکن کروڑوں پاکستانیوں کا کوئی پُرسان حال نہیں ۔ جو دہشتگردی میں نہیں مریں گے وہ خوفناک سموگ سے مختلف بیماریوں کا شکار ہو جائیں گے لیکن بالا دست طبقہ اپنے مجرموں کو کسی صورت سزا نہیں دے گا ۔ڈونلڈ ٹرمپ کو مبارک ہو …بھاگ لگے رین۔
تبصرے بند ہیں.