تقریباً 24/25 سال سے زائد عرصہ بیتا ہو گا، سردی کی ایک چمکتی دوپہر میں گوجرانوالہ بار کے صحن میں بیٹھے ہوئے تھے کہ میرے سینئر اور استاد گرامی جناب خواجہ جاوید ایڈووکیٹ آ گئے بار میں کم ہی دکھائی دیتے، کم گو، ٹھہر ٹھہر کر بولتے اور ہر بات گویا ایک علمی خزانہ ہو۔ خواجہ صاحب کی خاموشی بھی باتیں کرتی تھی اور خاموشی میں ابلاغ ہونا تعلق یا نیابت داری کی معراج ہوا کرتا ہے جو الحمدللہ مجھ احقر کو اکثر صاحبان تصوف سے ہے۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب موسم بدلتے رہتے تھے مگر حکمران 11 سال کے لیے مسلط ہوئے پڑے تھے اچانک ایک دوست نے میرے سر کی طرف دیکھا چلا کر بولا آصف بھاء او تیرے سر پہ سفید بال۔۔۔۔ ابھی تو بھاء اعظم (میرے بڑے بھائی) کے بال کالے اور آپ کے سر پہ 5/7 بال سفید ہو گئے۔ میں چپ تھا اور اس کی اس احمقانہ ہمدردی پر حیرت زدہ بھی کہ یہ ساعتیں کچھ سیکھنے کی ہیں۔ تم کس طرف نکل گئے خواجہ صاحب نے بہت محبت سے دیکھا ان کی شفقت بھری آنکھیں، حوصلہ دیتی مسکان اور گویا ہوئے (شعر آگے آئے گا)۔
ظاہر ہے میرے اور اس دوست کے لیے فارسی اندھیرے میں چلنے کے مترادف تھی۔ جس کا جناب خواجہ جاوید نے سیکنڈ کے اندر اندازہ لگایا اور پھر کہنے لگے کہ فارسی کا شعر ہے، جس کا ترجمہ ہے میری کہانی تم کیا پو چھتے ہو، میں اپنی سرگزشت کیا بیان کروں میں اتنا کہہ سکتا ہوں کہ میرے سر کے بال پاؤں سے گزر گئے اور پاؤں کے کانٹے سر سے گزر گئے۔ گویا آصف حساس آدمی ہے لہٰذا بال تو سفید ہوں گے۔ لیکن اتنے عرصے میں اپنے حالات پھر بھی ایسے ہی تھے۔ رات باقی وہ بچھڑے تھے، کٹ گئی عمر رات ابھی باقی ہے۔ پچھلے سال مجھے شعر کے الفاظ سرگزشت من چہ پرسی من چہ کی جگہ پشتو از من سرگزشت یاد رہ گیا اور ترجمہ یا مفہوم یاد تھا۔ کئی سال محنت مشقت اور وطن عزیز میں کئی 14 اگست گزار کر میں وہیں بیٹھا تھا جہاں خواجہ صاحب نے میرا چہرہ پڑھ کر یہ شعر سنا دیا۔ اب مجھے یہ پورا شعر سننے اور مطلب جاننے کی دوبارہ خواہش ہوئی جیسے بقول مولانا جلال الدین رومیؒ کی روح اپنا نالہ و فریاد اس سے کہنا چاہتی ہے جو پہلے ہی دردمند ہو، بے جس، بد فطرت کے سامنے بات کرنا بھینس کے آگے بین بجانے کے مترادف ہے۔ خواجہ صاحب کا موبائل نمبر بھی موبائل کے ساتھ کھو دیا پھر میں نے کسی سے خواجہ صاحب کا نمبر لیا اور فون کیا ان کی بیٹی نے اٹھایا اور حال احوال جان کر بتایا کہ ابا لاہور ہی ہیں۔ خواجہ صاحب کی زوجہ محترمہ رضیہ بٹ ناول نگار کی سگی بہن تھیں زوجہ کی وفات کے بعد بیمار اور اداس رہتے تھے۔ میں نے ملنے کی خواہش کی تو کہنے لگیں کہ بھائی جان آپ ضرور آئیں لہٰذا ان کے گھر ڈیفنس میں چلا گیا۔ خواجہ صاحب کی بیٹی کے گھر پہنچا انہوں نے بتایا کہ یادداشت کا مسئلہ ہے بہت باتیں کریں تو یادداشت واپس آتی ہے میں بہت اداس ہوا کہ اب یہ کیا امتحان ہے۔ جن سے اپنا احوال پوچھنے آیا وہ خود اپنے حال سے بے خبر ہیں۔ اپنے آپ سے ملاقات کرنے کے لیے ایک شعر دوبارہ سننا تھا خواجہ صاحب بظاہر ہشاش بشاش بیٹھے تھے۔ میں نے پہچان کرانا چاہی میری طرف دیکھتے رہے میں نے کہا جی میں آصف ہوں۔ آصف عنایت، جناب حاجی عنایت اللہ صاحب کا بیٹا، گلزار صاحب سپرنٹنڈنٹ جیل کا بھائی، معظم بٹ جیل روڈ کے چیئرمین کا بھائی، بابر باڈی بلڈر کا بھائی ہر ایک رشتے نام میں خواجہ صاحب کے لیے پہچان ہی نہیں ایک داستان بھی چھپی تھی پھر دیگر حوالے دیئے۔ دوبارہ اپنے آپ پر آیا آصف عنایت بٹ آپ کا شاگرد، خواجہ صاحب لمحے کے لیے بولے امیر حمزہ آصف کا بابا۔ میں نے کہا جی! مجھے خوشی بھی ہوئی مگر میرا دل اوبھ آیا چند باتوں اور لمحوں کے بعد خواجہ صاحب پھر اداس روح کی طرح اپنے اصل (پاکیزگی) میں چلے گئے اور میں دنیا میں الجھا ہوا سامنے بیٹھا ہوں پھر بیٹی سے مخاطب ہوئے اور بولے کہ وہ کب آئیں گے اور ان کو کیا کھلائیں گے۔ بیٹی بولی یہی ہیں آصف بھائی مگر خواجہ صاحب ایک داستان بنے بیٹھے تھے۔ میں اداسی کی شدت سے ساکت ہوا پڑا تھا۔ خواجہ صاحب اور بہن سے اجازت لی اور راستے میں زمانوں سے زمانے نکلتے گئے، خیالوں سے خیال پیدا ہوتے چلے گئے مگر میرا حال تھا کہ جنونی آدمی ہوں گھر پہنچا اور سوچتا رہا، کھانا بھی نہیں کھایا۔ ذہن میں یکدم علم فضل عمل و اظہار میں باکمال شخصیت کا نام آیا۔ جناب محمد صادق کسٹم کے بڑے آفیسر ہیں۔ دو دہائیوں کی سرکاری غلامی (نوکری) کے دوران میں نے کسٹم کی دو ہی شخصیات ایک جناب قبلہ صادق خان صاحب (ڈی جی ایویلیو ایشن) اور دوسری ضرب المثل محترمہ طیبہ کیانی صاحبہ (چیف کلکٹر کسٹم ایئر پورٹس پنجاب)ہی کو حقیقی دیانتدار اور انسانیت سے مالا مال پایا۔ اگلے روز ہی جناب محمد صادق خان تنولی صاحب کے پاس جا کر ان کو اس شعر کے چند بے جڑے الفاظ کہے اور مفہوم بتایا تو انہوں نے مجھے شعر
سرگزشت من چہ پرسی من چہ گویم سرگزشت
موئے سر از پا گزشت و خار پا از سر گزشت
میری کہانی پوچھتے ہیں، میں اپنی سرگزشت کیا بیان کروں بس اتنا کہہ سکتا ہوں کہ میرے سر کے بال پاؤں سے گزر گئے اور پاؤں کے کانٹے سر سے گزر گئے۔
دراصل یہ میری ہی نہیں پوری قوم کی کہانی ہے۔ کیا لمحوں میں بوڑھا کر دینے والے حالات سے نہیں گزرے مگر دانا و ناداں میں بہت فرق ہے، بے حسی جہاں لعنت ہے وہاں نعمت بھی ہے۔ چھوڑیئے 18 سال ایوب خان کی قیادت، تین سال یحییٰ خان کے، وطن عزیز میں صرف 1977 کی 5 جولائی سے اب تک کس دائرے کے سفر اور سراب کی تلاش میں کئی نسلیں محروم و مرحوم کہلائیں اور چلتے پھرتے لوگ قبروں میں بدل گئے۔ عوام بچہ جمورا بن گئے۔ مہنگائی، بے انصافی حدوں کو عبور کر گئی۔ سیاستدانوں، اداروں کی محبت و نفرت میں اخلاقیات کو پس پشت رکھ کر ہر جگہ دست و گریبان ہیں جبکہ دائرے کا سفر بھی الٹا ہونا شروع ہو گیا۔ لڈو کے کھیل کی طرح نظام ہے۔ حکمرانوں کیلئے قوم ایسے ہی ہے جیسے کھیڑوں کے گھر ہیر۔ مگر ہم ہیں کہ کچھ خبر نہیں بس صیاد کو دل دئیے بیٹھے ہیں کہ پنجرا کھلے بھی تو کبوتر کی طرح واپس اس کی چھتری پر بیٹھتا ہے۔ عالمی طاقتیں، سرکاری محکمے، موروثی کاروبار، سیاسی رہنما، مذہبی پیشوا، احباب اور محبوبائیں، عزیز رشتے حتیٰ کہ خاندان وہ صیاد ہیں جنہیں ہم دل دے بیٹھے ہیں مگر حالت سب کی یہ ہے کہ سر کے بال پاؤں سے نکل گئے۔
تبصرے بند ہیں.