برآمدات کی اہمیت کسی ملک کی معیشت میں بہت اہم ہے کبھی ٹیکسٹائل سیکٹر، چمڑے کی مصنوعات، زرعی پیداوار جیسے چاول، کاٹن، پھل، اس طرح کئی شعبے ملک کی برآمدات میں حصہ ڈالتے آرہے ہیں، آج پاکستان کی برآمدات کم ہو کر 30 ارب 64 کروڑ ڈالر رہ گئی ہیں اس کی بڑی وجہ ناقص پالیسی ہے کیونکہ برآمدات کا بڑا حصہ آئی ٹی سیکٹر کی طرف منتقل ہو گیا ہے جس کی وطن عزیز کے حکمرانوں نے پلاننگ ہی نہیں کی اس لئے ترقی کے لئے آئی ٹی سیکٹر کی گروتھ ضروری ہے۔
اس خلا کو پْر کرنے کی آواز الخدمت فاؤنڈیشن نے بلند کی ہے جس نے ساڑھے تین ارب روپے کی لاگت سے پاکستان بھر میں بنو قابل پروگرام کا آغاز کر دیا۔ الخدمت فاؤنڈیشن کے سرپرست اور جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمان نے کہا کہ 10 لاکھ نوجوانوں کو آئی ٹی سمیت دیگر کورسز کرانے کے بعد روزگار میں بھی معاونت کریں گے، اس شعبے میں نوجوانوں کے لئے زیادہ مواقع پیدا ہوں گے۔ بنو قابل پروگرام کا مقصد ملک بھر سے طلبہ کو آئی ٹی سمیت مختلف کورسز کرانا اور بیروزگاری کا خاتمہ ہے، اربوں روپے کے بجٹ کے باوجود حکومت نوجوانوں کو تعلیم کی فراہمی میں ناکام ہے۔ نوجوان ملک و قوم کا اثاثہ ہیں، اسے ضائع ہونے سے بچانے اور قوم کی ترقی کیلئے ہمیں موثر اقدامات کرنا ہوں گے، دو سال میں 10 لاکھ نوجوانوں کو آئی ٹی سمیت دیگر کورسز کرائیں گے۔ الخدمت فاؤنڈیشن کی جانب سے پنجاب، سندھ، خیبرپختونخوا، بلوچستان، گلگت اور آزاد کشمیر میں 200 سے زائد ٹریننگ سینٹرز قائم کریں گے۔ سوال بہت اہم ہے جس جذبہ جنون سے حافظ نعیم الرحمٰن نے بنو قابل کا آغاز کیا ہے کوئی شک نہیں 10 لاکھ نوجوان اس پراجیکٹ سے استفادہ حاصل کریں گے لیکن وطن عزیز میں 64 فیصد نوجوان ہیں جو تقریباً 16 کروڑ بنتے ہیں، اس کا حل یہ ہے وزیراعظم اور وزراء اعلیٰ کو الخدمت فاؤنڈیشن کے ساتھ مل کر بنو قابل کے پراجیکٹ کے ذریعے نوجوانوں کو آئی ٹی کی تعلیم سے آراستہ کرنا ہوگا جس سے پانچ سال میں ہماری آئی ٹی سیکٹر کی برآمدات 30 بلین ڈالر تک پہنچ سکتی ہیں اور معیشت ترقی کرسکتی ہے۔ حافظ نعیم الرحمن کی گفتگو سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اگر حکومت آئی ٹی سیکٹر پر کوئی واضح پلان نہیں رکھتی اور نہ ہی بنو قابل کے ماڈل کو الخدمت کے ساتھ مل کر آئی ٹی سیکٹر کی ترقی چاہتی ہے تو پھر یہ محسوس ہوتا ہے حافظ نعیم الرحمٰن کو اگلے پانچ سال میں آئی ٹی سیکٹر کی برآمدات 30 بلین ڈالر کا ہدف پورا کرنے کے لئے سیاسی جد وجہد کو تیز کرتے ہوئے پارلیمانی قوت حاصل کرنا ہوگی جس کی وہ کوشش کر رہے ہیں، جس سے 16 کروڑ نوجوانوں کو مختلف شعبوں میں تیار کرنا ہوگا جو معاشی ترقی کا راستہ ہموار کریں گے۔
اب ہم بات کریں گے ہمارے ہمسایہ ملک بھارت کی جس ماڈل کا تذکرہ کرنا ضروری ہے جس کی معیشت آئی ٹی سیکٹر کی ترقی کے ذریعے قیادت کرتی ہوئی نظر آتی ہے پاکستان کو اس وقت جتنا غیر ملکی قرض ادا کرنا ہے اس سے کہیں زیادہ ڈالر بھارت کی ٹاپ آئی ٹی کمپنیاں ایک سال میں کما لیتی ہے۔ اِدھر حالت یہ ہے کہ پاکستان کا پورا آئی ٹی سیکٹر مل کر بھی سالانہ ڈھائی ارب ڈالر سے زیادہ نہیں کما پا رہا۔ آئی ٹی سیکٹر کو تو چھوڑیں پاکستان کے تمام شعبے ایڑی چوٹی کا زور لگا کر بھی برآمدات کو تیس ارب ڈالر سے آگے نہیں لے جا سکے۔ اگر ماضی کی تمام حکومتوں نے آئی ٹی کے حوالے سے یکساں اور مثبت پالیسی اپنائی ہوتی تو آج ہم سیاسی طور پر باہم دست و گریباں ہوتے نہ ہماری ملکی معیشت وینٹی لیٹر پر ہوتی۔ تازہ ترین خبر یہ ہے کہ بھارت کی ٹاپ چھ کمپنیوں نے جتنا بزنس کیا ہے اتنا پاکستان نے گزشتہ دس برس میں بھی نہیں کیا ہو گا۔ صرف ٹاٹا کنسلٹنسی سروسز کی آمدن 2024 میں 2,486 ارب روپے تھی جس میں 601,546 ملازمین کام کرتے ہیں یہ آئی ٹی ایکسپورٹس کے ساتھ سرفہرست رہی ہے۔ ٹاٹا کنسلٹنسی سروسز ٹاٹا گروپ کی ہی ایک شاخ ہے۔ ٹاٹا گروپ بھارت میں گزشتہ ڈیڑھ سو برس سے مختلف کاروبار کر رہا ہے جن میں ایئرلائنز, کیمیکل, ڈیفنس, الیکٹرانکس، ہوٹلز، سیمنٹ، چائے اور دیگر شامل ہیں۔ اس گروپ کا 2024 کا ریونیو 137,250 ارب روپے ہے۔ واضح رہے 2024 کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کا کْل بیرونی قرضہ 130.4 ارب ڈالر تھا۔
بھارت کی چھ بڑی آئی ٹی کمپنیاں بھارت کی معیشت کا گراف بلندیوں پر لے کر جار ہی ہیں جبکہ ہمارے ہاں صرف گنتی کی چار پانچ آئی ٹی کمپنیاں ہیں اور ان میں سے کوئی ایک بھی ابھی تک نصف بلین (500 ملین) ڈالر سالانہ کے ریونیو تک نہیں پہنچ سکی۔اس ترقی کی وجہ بھارتی حکومت کی پالیسیاں ہیں جن کی وجہ سے آئی ٹی سیکٹر تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔ دنیا میں آئی ٹی کا سب سے بڑا حب امریکہ میں سیلیکون ویلی ہے جبکہ دوسرا بڑا حب بھارت کی سیلیکون ویلی ہے جو بنگلور میں ہے۔بنگلور کی آبادی سوا کروڑ کے قریب ہے جو لاہور شہر کے برابر ہو گی؛ تاہم لاہور بلکہ پورے پاکستان میں اب تک صرف ایک ارفع سافٹ ویئر ٹیکنالوجی پارک قائم کیا گیا جو بارہ برس قبل تعمیر ہوا تھا۔ حالانکہ صرف بنگلور میں آئی ٹی سیکٹر کے لیے تیس سپیشل اکنامک ٹیکنالوجی زونز موجود ہیں جہاں جدید ترین انفراسٹرکچر اور سہولتوں کے باعث ملکی اورعالمی آئی ٹی کمپنیاں اور سرمایہ کار کھنچے چلے آتے ہیں۔ان تیس سپیشل اکنامک زونز میں بجلی ایک سیکنڈ کے لیے بھی معطل نہیں ہوتی۔ ہر جگہ تیز رفتار فائبر آپٹک اور وائرلیس انٹرنیٹ میسر ہے۔ صرف بنگلور میں پندرہ لاکھ تجربہ کار آئی ٹی پروفیشنلز کام کر رہے ہیں جن کی تعداد اگلے دو برسوں میں اسّی لاکھ تک پہنچ جائے گی۔ اس کے مقابلے میں پاکستان میں کتنی کمپنیوں کے دفاتر نظر آتے ہیں؟ پورے بھارت میں کل 62 انفارمیشن ٹیکنالوجی پارکس قائم ہیں۔انٹرنیشنل ٹیک پارک بھارت کا سب سے بڑا آئی ٹی پارک ہے۔ بیس لاکھ مربع فٹ پر محیط یہ پارک 1994ء میں قائم ہوا۔ یہاں 30 ہزار ملازمین کے بیٹھنے کی جگہ ہے، جو بیرونی سرمایہ کاروں کو اس جانب راغب کرتی ہیں۔بھارت کا دوسرا بڑا آئی ٹی پارک میگرپٹا سیٹلائٹ ٹائون شپ ہے جو پونا شہر میں واقع ہے۔یہ چار سو ایکڑ پر محیط ہے۔ تیسرا بڑا پارک الیکٹرانکس سٹی کرناٹک کے دارالحکومت بنگلور میں ہے۔ اگر ہم یہ کہیں گے کہ بھارت کی آبادی پاکستان سے چھ گنا زیادہ ہے تو پھر آپ بنگلہ دیش کو دیکھ لیں۔ بنگلہ دیش کی آبادی سترہ کروڑ ہے اور اس کی کل برآمدات 44.88 ارب ڈالر سے زیادہ ہیں۔
میری گزارش حافظ نعیم الرحمٰن سے ہے کہ وہ ایک نقاطی ایجنڈے (آئی ٹی سیکٹر اور معاشی ترقی) پر ملک کے تمام سٹیک ہولڈرز کو اکٹھا کریں، وطن عزیز میں پاکستان کے صوبائی ہیڈ کوارٹرز پر جدید آئی ٹی یونیورسٹیز کے قیام کا اعلان کریں، اور حکومت کو یہ چاہئے بنو قابل کا ماڈل استعمال کرے حافظ نعیم الرحمٰن جو یہ صلاحیت رکھتے ہیں انہیں آئی ٹی سیکٹر کی ترقی کے لئے قیادت کا موقع دیں جو آنے والے پانچ سال میں 30 ارب ڈالر تک آئی ٹی ایکسپورٹ کو لے کر جا سکتے ہیں۔ پاکستان کم ترین وقت میں مطلوبہ ہدف حاصل کر سکتا ہے ریونیو کی صورت میں اربوں ڈالر کما سکتا ہے اور کروڑوں نوجوانوں کو برسرِ روزگار بھی کیا جا سکتا ہے۔
تبصرے بند ہیں.