کل میں نے ایک لڑکے کو دیکھا جو ایک موٹر سائیکل پر پیچھے بیٹھا تھا۔ اس نے اَپنی پشت پر ایک بیگ لٹکایا ہوا تھا جس پر ہاورورڈ یونیورسٹی کا نشان بنا تھا اَور لکھا تھا کہ وہ یونیورسٹی 1636ءمیں قائم ہوئی تھی۔ میں اسے دیکھ کر شرمندہ سا ہوگیا۔ میں سوچنے لگا کہ ہم ان دنوں کیا کررہے تھے۔ پھر میں نے دیکھا کہ صرف یورپ میں سترہویں صدی عیسوی میں چالیس یونیورسٹیاں قائم کی گئیں۔ سلطنت عثمانیہ 1299ءسے 1922ءتک قائم رہی۔ یہ سلطنت جنوب مشرقی یورپ، مغربی ایشیائ اَور شمالی افریقہ کے علاقوں پر مشتمل تھی۔ یہ ایک بہت بڑا علاقہ تھا اَور یہ سلطنت چھ سو سال سے زائد عرصے تک قائم رہی۔ اگر آپ یہ جاننا چاہیں کہ اس زمانے میں مسلمانوں نے کتنی ایسی یونیورسٹیاں قائم کیں جو عالمی معیار کی تھیں تو آپ کے پاس گنتی کے چند نام ہی آئیں گے۔
یہی صورتِ حال ہندوستان کی تھی۔ یہاں مغل سلطنت 1526ءسے 1857ءتک قائم رہی۔ اگر آپ یہ جاننا چاہیں کہ یہاں کتنی معیاری یونیورسٹیاں قائم ہوئیں تو آپ کو شاید ایک بھی نہ ملے۔ مسلمانوں کے سنہری دور کو چھوڑ کر ہمارے یہاں تعلیم کے اوپر توجہ نہ ہونے کے برابر رہی ہے۔ جودرس گاہیں تعمیر بھی ہوئیں وہ زیادہ تر اِسلامی تعلیمات سکھانے کے اِدارے تھے۔مذہب کے علاوہ سائنس، طب، انجینئرنگ، فلسفہ، نفسیات، معاشیات، عمرانیات وغیرہ میں ہم نے نہ ہونے کے برابر کام کیا۔ 1000ءسے لے کر 1900ءتک کے زمانے میں مسلمانوں نے جدید علوم پر توجہ نہ ہونے کے برابر دی۔ ہمارے یہاں دینی ماہرین پیدا ہوتے رہے اَور مسلمان فرقوں میں تقسیم ہوتے رہے۔ آج تک ہمارے یہاں یہ سوچ پائی جاتی ہے کہ علم صرف دینی ہوتا ہے۔ د±نیاوی علوم ضرورت کے تحت حاصل کرلیے جائیں تو کوئی حرج نہیں لیکن ا±ن کا کوئی ثواب ہے اَور نہ ہی دنیا و آخرت میں کوئی فائدہ۔ لوگوں نے یہاں تک ظلم کیا کہ یہ بات ا±نہوں نے نبی اکرم سے بھی منسوب کرنی شروع کردی حالانکہ یہ سراسر جھوٹ ہے۔ عام مسلمان چونکہ ہر طرح کے علم سے بے بہرہ ہے اِس لیے وہ اِن باتوں پر ایمان لے آیا۔
میں نے ایک بار تجربے کے لیے چند اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں سے ایک سوال کیا۔ ا±س سوال کے دو حصے تھے۔ میں نے کہا کہ مشہور حدیث ہے کہ علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اَور عورت پر فرض ہے۔ تو پہلا سوال یہ ہے کہ یہ کون سا علم ہے۔ یہ دینی علم ہے، د±نیاوی علم ہے یا اِن کا کوئی مرکب ہے۔ د±وسرا سوال یہ ہے کتنا علم حاصل کرلیا جائے تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ فرض ادا ہوگیا۔ میں یہ دیکھ کرحیران رہ گیا کہ تقریباً سب نے یہ جواب دیا کہ وہ علم جو حاصل کرنا فرض ہے وہ دینی علم ہے۔ سوال کے د±وسرے حصے کا کسی کے پاس جواب نہیں تھا۔ اِس سوال کا جو بہترین جواب ہے وہ آج سے نو سو سال قبل حضرت سید علی بن عثمان ہجویر یؒ نے دیا تھا۔ وہ ہمارے یہاں ایک دینی شخصیت کی حیثیت سے مشہور ہیں۔ ا±نہوں نے فرمایا تھا کہ اِنسان نے جو کام بھی کرنا ہو، ا± س کے لیے علم حاصل کرنا فرض ہے۔ اِس جواب میں دونوں سوالوں کے جواب نہایت خوبصورتی سے آگئے ہیں۔ تو کہنے کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کے سمجھ دار لوگ ہمیشہ یہ بتاتے رہے کہ علم دینی یا د±نیاوی نہیں ہوتا۔ یہ تقسیم ہی غلط ہے۔ علم جاننے کے لیے ہے اَور اِنسان کو اَپنی ضرورت کے تحت چیزوں کا جاننا چاہیے۔جو پہلا علم اللہ تعالیٰ نے اِنسان کو دِیا وہ تھا جو حضرت آدم علیہ السلام کو دیا گیا تھا۔ اس کے بارے میں قرآن کہتاہے کہ وہ چیزوں کے نام تھے۔ چنانچہ وہ علم ہرگز وہ نہیں تھا جسے ہم دینی علم کہتے ہیں۔ وہی قرآن پڑھنے کے باوجود مسلمانوں نے علم کی طرف سے مجرمانہ غفلت برتی۔ ہم نے حضرت سید علی بن عثمان ہجویریؒ کی تعلیمات پر کوئی دھیان نہیں دیا بلکہ یہ سوچتے رہے کہ انہوں نے کتنے ہندوو¿ں کو مسلمان کیا، کس جادوگر کا کیسے مقابلہ کیا، کیا کیا کرامات دکھائیں۔ ہم اِن پر ہی واہ واہ کرتے رہے۔ ا±ن نو سو سالوں کی غفلت کا خمیازہ آج کی مسلمان امت بھگت رہی ہے۔ فلسطین لبنان، شام، عراق، کشمیر وغیرہ میں جو ہوا یا ہورہا ہے وہ اس مجرمانہ غفلت کا پھل ہے جو اَب ہم کاٹ رہے ہیں۔
یورپ اَور امریکہ میں اِس عرصے میں تعلیم کے اوپر بہت کام کیا گیا۔ آکسفرڈ یونیورسٹی 1096ءمیں قائم ہوئی تھی۔ اس زمانے میں مسلمانوںمیں بالعموم اَور برصغیرکے مسلمانوں میں بالخصوص علم سے کسی قسم کا شغف نہیں پایا جاتا تھا۔ آج ہم ا±س یونیورسٹی کے چانسلربننا چاہتے ہیں۔ مجھ سے پوچھیں تو ہمیں یہ سوچتے ہوئے بھی شرم آنی چاہیے۔ لیکن شاباش ہے ہم پر کہ ہم کبھی بھی اِس طرح نہیں سوچیں گے۔
مغرب نے جب یہ بات جان لی کہ اگر دنیا میں طاقت ور بن کراَور عزت کے ساتھ رہنا ہے تو ا±س کے لیے تعلیم کا فروغ لازمی ہے، انہوں نے تب سے اِس طرف دولت خرچ کرنی شروع کی۔ د±نیاکی وہ سب سے پرانی یونیورسٹی جو آج تک کام کررہی ہے اِٹلی کے شہر Bolognaمیں ہے۔ یہ یونیورسٹی 1088ءمیں قائم ہوئی تھی۔ اِس کے بعد یورپ اَور امریکہ میں یکے بعد دیگرے یونیورسٹیوں کی گویابہار آگئی۔ ہر ملک، ہر جگہ اعلیٰ تعلیمی اِدارے قائم ہونا شروع ہوگئے۔ اگلے ایک ہزار برسوں میں مغرب میں سیکڑوں یونیورسٹیاں قائم ہوئیں۔ آج بھی دنیا کی بہترین درس گاہیں وہیں پائی جاتی ہیں۔ د±نیا کی چوٹی کی ایک سو یونیورسٹیوں میں سے ایک بھی کسی مسلمان ملک میں نہیں ہے۔ اَور مسلمان وہ قوم ہے جسے یہ بتایا گیا کہ علم حاصل کرنا ا±س پر فرض ہے۔ جب ہم نے یہ فرض اَدا نہیں کیا اَور نہ صرف یہ کہ خود علم حاصل نہیں کیا بلکہ پوری قوم کو یہ بتایا کہ علم سے مراد نماز اَور روزے کے مسائل اَور دیگر شرعی احکام جاننا ہے تو ا±س کا ایک نتیجہ اِس د±نیا میں تو نکل آیا ہے۔ ایک نتیجہ آخرت میں بھی نکلے گا۔ جن لوگوں کی غلط تعلیمات، نظریات اَور افعال کی وجہ سے امت مسلمہ علم سے د±ور رہی ا±نہیں ایک خوفناک انجام کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ تب صرف یہ کہنا کہ میں تو تہجد بھی پڑھتا تھا، روزانہ اِتنی تسبیحات کیا کرتا تھا شاید بچا نہ سکے۔ آج جو مسلمان بھی ہمارے آباﺅ اجداد کی نالائقی کی وجہ سے مارا جارہا ہے ا±س کی موت کا ذِمہ دار کوئی ہے؛ مارنے والا بھی اَور مرنے والے کو کمزور بناکر مارنے والے کے آگے ڈالنے والا بھی۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمیں اب بھی عقل نہیں آئی ہے۔ جیسا کہ میں نے بتایا کہ د±نیا کی بہترین درس گاہوں میں سے ایک بھی کسی مسلمان ملک میں نہیں ہے۔ گویا ہم اب بھی تعلیم سے دور ہی ہیں۔ اِ س کےلیے جتنی محنت، جاں فشانی اَور دولت کو خرچ کرنے کی ضرورت ہے، ہم نے نہیں کی اَور نہ ہی ہم کررہے ہیں۔قرب قیامت کے زمانے میں مسلمانوں کی جس تباہی کی نبی کریم نے خبریں دی ہیں وہ تباہی یونہی نہیں آجائے گی۔ وہ ہمارے اِنہی کرتوتوں کا پھل ہوگی۔ وہ تباہی اِس لیے نہیں آئے گی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے وہ لکھ دی ہے۔ وہ اِس لیے آئے گی کیونکہ ہم نے وہ کام کیے جن کے نتیجے میں ویسی تباہی آنی ہی چاہیے۔ سو وہ آکر رہے گی۔ اَب ہماری سوچ یہ ہوگئی ہے کہ چونکہ احادیث میں قیامت کے قریب مسلمانوں کی تباہی کا ذکر آگیا ہے لہٰذا ہم آج سے ہی ہاتھ پر ہاتھ دھر کر ا±س وقت کا اِنتظار کریں۔ قیامت تو نہ جانے کب آنی ہے۔ ہماری قیامت تب سے شروع ہوگئی ہے جب ہم نے علم سے ہاتھ دھو لیے۔ہم اب اَپنی جہالت اَور غفلت کا جرمانہ اَپنی جانوں سے ادا کررہے ہیں۔ کوئی یہ نہیں سوچ رہا کہ ہم کب تک یونہی جرم ضعیفی کے تحت مرنے والوں کو شہید کہہ کر خوش ہوتے رہیں گے۔
تبصرے بند ہیں.